Ayats Found (2)
Surah 3 : Ayat 33
۞ إِنَّ ٱللَّهَ ٱصْطَفَىٰٓ ءَادَمَ وَنُوحًا وَءَالَ إِبْرَٲهِيمَ وَءَالَ عِمْرَٲنَ عَلَى ٱلْعَـٰلَمِينَ
اللہ 1نے آدمؑ اور نوحؑ اور آل ابراہیم اور آل عمران2 کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر (اپنی رسالت کے لیے) منتخب کیا تھا
2 | عمرا ن حضرت موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ کے والد کا نام تھا، جسے بائیبل میں ”عِمرام“ لکھا ہے |
1 | یہاں سے دُوسرا خطبہ شروع ہوتا ہے۔ اس کے نزول کا زمانہ سن ۹ ہجری ہے، جب کہ نجران کی عیسائی جمہُوریت کا وفد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ نجران کا علاقہ حجاز اور یمن کے درمیان ہے ۔ اُس وقت اس علاقے میں ۷۳ بستیاں شامل تھیں اور کہا جاتا ہے کہ ایک لاکھ ۲۰ ہزار قابلِ جنگ مرد اس میں سےنِکل سکتے تھے۔ آبادی تمام تر عیسائی تھی اور تین سرداروں کے زیرِ حکم تھی۔ ایک عاقب کہلاتا تھا، جس کی حیثیت امیرِ قوم کی تھی۔ دُوسرا سیّد کہلاتا تھا، جو ان کے تمدّنی و سیاسی اُمور کی نگرانی کرتا تھا اور تیسرا ُسقُف(بشپ) تھا جس سے مذہبی پیشوائی متعلق تھی۔ جن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ فتح کیا اور تمام اہلِ عرب کو یقین ہو گیا کہ ملک کا مستقبل اب محمد ؐ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہے ، تو عرب کے مختلف گوشوں سے آپ کے پاس وفد آنے شروع ہو گئے۔ اِسی سلسلے میں نجران کے تینوں سردار بھی ٦۰ آدمیوں کا ایک وفد لے کر مدینے پہنچے۔ جنگ کے لیے بہرحال وہ تیار نہ تھے۔ اب سوال صرف یہ تھا کہ آیا وہ اسلام قبول کر تے ہیں یا ذِمّی بن کر رہنا چاہتے ہیں۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ خطبہ نازل کیا تاکہ اس کے ذریعے سے وفدِ نجران کو اسلام کی طرف دعوت دی جائے |
Surah 3 : Ayat 37
فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنۢبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّاۖ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا ٱلْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًاۖ قَالَ يَـٰمَرْيَمُ أَنَّىٰ لَكِ هَـٰذَاۖ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ ٱللَّهِۖ إِنَّ ٱللَّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَآءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ
آخرکار اس کے رب نے اس لڑکی کو بخوشی قبول فرما لیا، اُسے بڑی اچھی لڑکی بنا کر اٹھایا اور زکریاؑ1 کوا س کا سرپرست بنا دیا زکریاؑ1 جب کبھی اس کے پاس محراب2 میں جاتا تو اس کے پاس کچھ نہ کچھ کھانے پینے کا سامان پاتا پوچھتا مریمؑ! یہ تیرے پا س کہاں سے آیا؟ وہ جواب دیتی اللہ کے پاس سے آیا ہے، اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے
2 | لفظ محراب سے لوگوں کا ذہن بالعموم اس محراب کی طرف چلا جاتا ہے جو ہماری مسجدوں میں امام کے کھڑے ہونے کے لیے بنائی جاتی ہے۔ لیکن یہاں سے محراب سے یہ چیز مراد نہیں ہے۔ صوامع اور کنیسوں میں اصل عبادت گاہ کی عمارت سے متصل سطحِ زمین سے کافی بلندی پر جو کمرے بنائے جاتے ہیں، جن میں عبادت گاہ کے مجاور، خدّام اور معتکف لوگ رہا کرتے ہیں ، انہیں محراب کہا جاتاہے۔ اسی قسم کےکمروں میں سے ایک میں حضرت مریم معتکف رہتی تھیں |
1 | اب اس وقت کا ذکر شروع ہوتا ہے جب حضرت مریم سِن رُشد کو پہنچ گئیں اور بیت المقدس کی عباد ت گاہ (ہیکل) میں داخل کر دی گئیں اور ذکرِ الہٰی میں شب و روز مشغول رہنے لگیں۔ حضرت زکریا جن کی تربیت میں وہ دی گئی تھیں، غالباً رشتے میں ان کے خالو تھے اور ہیکل کے مجاوروں میں سے تھے۔ یہ وہ زکریا نبی نہیں ہیں جن کے قتل کا ذکر بائیبل کے پُرانے عہد نامے میں آیا ہے |