Ayats Found (1)
Surah 19 : Ayat 15
وَسَلَـٰمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا
سلام اُس پر جس روز کہ وہ پیدا ہوا اور جس دن وہ مرے اور جس روز وہ زندہ کر کے اٹھایا جائے1
1 | حضرت یحیی کے جو حالات مختلف انجیلوں میں بکھرے ہوۓ ہیں انہیں جمع کر کے ہم یہاں ان کی سیرت پاک کا ایک نقشہ پیش کرتے ہیں جس سے سورہ آل عمران اور اس سورے کے مختصر اشارات کی توضیح ہو گی۔ لوقا کے بیان کے مطابق حضرت یحیی، حضرت عیسی سے 6۔مہینے بڑے تھے۔ ان کی والدہ اور حضرت عیسی کی والدہ آپس میں قریبی رشتہ دار تھیں۔ تقریباً 30 سال کی عمر میں وہ نبوت کے منصب پر عملاً مامور ہوۓ اور یوحنا کی روایت کے مطابق انہوں نے شرق اردن کے علاقے میں دعوت الی اللہ کا کام شروع کیا۔ وہ کہتے تھے: ’’میں بیا بان ایک پکار نے والے کی آواز ہوں کہ تم خداوند کی راہ کوسیدھا کرو‘‘ (یوحنا 23:1) مرقس کا بیان ہے کہ وہ لوگوں سے گناہوں کی توبہ کراتے تھےاور توبہ کرنے والوں کو بپتسمہ دیتے تھے۔ یعنی توبہ کے بعد غسل کراتے تھے تاکہ روح اور جسم دونوں پاک ہو جاۓ یہودیہ اور یروشلم کے بکثرت لوگ ان کے معتقد ہو گۓ تھے اور ان کے پاس جا کر بپتسمہ لیتے تھے (مرقس 4:1 ۔5) اسی بنا پر ان کا نام یوحنا بپتسمہ والا ( John The Baptist) مشہور ہو گیا تھا۔ عام طور پر بنی اسرائیل ان کی نبوت تسلیم کر چکے تھے (متی 26:21 )مسیح ؑ کا قول تھا کہ ’’جو عورتوں سے پیدا ہوۓ ہیں ان میں یوحنا بپتسمہ دینے والے سے بڑا کوئی نہیں ہوا‘‘ (متی 11:11) وہ اونٹ کے بالوں کی پوشاک پہنے اور چمڑے کا پٹا کمر سے باندھے رہتے تھے اور ان کی خوراک ٹڈیاں اور جنگلی فنہد تھا (متی 4:3) اس فقیرانہ زندگی کے ساتھ وہ مندی کرتے پھرتے تھے کہ ’’توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی قریب آ گئی ہے‘‘(متی 2:3) یعنی مسیح ؑ کی دعوت نبوت کا آغاز ہونے والا ہے۔ اسی بنا پر ان کو عموماً حضرت مسیح کا ’’ارہاص‘‘ کہا جاتا ہے، اور یہی بات ان کے متعلق قرآن میں کہی گئی ہے کہ مصد قاً بکلمۃ من اللہ (آل عمران4)۔ وہ لوگوں کو روزے اور نماز کی تلقین کرتے تھے(14:9۔لوقا 33۔5 لوقا 1:11) وہ لوگوں سے کہتے تھے کہ ’’جس کے پاس دو کُرتے ہوں وہ اس کو جس کے پاس نہ ہو بانٹ دے اور جس کے پاس کھانا وہ بھی ایسا ہی کرے۔‘‘ محصول لینے والوں نے پوچھا کہ استاد، ہم کیا کریں تو انہوں نے فرما یا ’’جو تمہارے لیۓ مقرر ہے اس سے زیادہ نہ لینا‘‘ سپاہیوں نے پوچھا ہمارے لیۓ کیا ہدایت ہے؟ فرمایا : نہ کسی پر ظلم کرو اور نہ ناحق کسی سے کچھ لو اور اپنی تنخواہ پر کفایت کرو ’’لوقا 10:3۔ 14)۔ بنی اسرائیل کے بگڑے ہوۓ علماء‘‘ فریسی اور صدوتی ان کے پاس بپتسمہ لینے آۓ تو ڈانٹ کر فرمایا ’’اے سانپ کے بچو! تم کو کس نے جتا دیا کہ آنے والے غضب سے بھاگو؟۔۔۔۔اپنے دلوں میں کہنے کا خیال نہ کرو کہ ابراہیم ہمارا باپ ہے۔۔۔ اب درختوں کی جڑوں پر کلہاڑا رکھا ہوا ہے، پس جو درخت اچھا پھل نہیں لاتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے۔‘‘ (7:3 ۔10)۔ ان کے عہد کا یہودی فرمانروا، ہیرد اینٹی پاس، جس کی ریاست میں وہ دعوت حق کی خدمت انجام دیتے تھے، سرتاپا رومی تہذیب میں غرق تھا اور اس کی وجہ سے سارے ملک میں فسق و فجور پھیل رہا تھا۔ اس نے خود اپنے بھائی فلپ کی بیوی ہیردیاس کو اپنے گھر میں ڈال رکھا تھا۔ حضرت یحیی نے اس پر ہیرد کو ملامت کی او راس کی فاسقانہ حرکات کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس جرم میں ہیرد نے ان کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا۔ تاہم وہ ان کو ایک مقدس اور راستبإز آدمی جان کر ان کااحترام بھی کرتا تھا اور پبلک میں انکے غیر معمولی اثر سے ڈرتا بھی تھا۔ لیکن ہیرد دیاس یہ سمجھتی تھی کہ یحیی ؑجو اخلاقی روح قوم میں پھونک رہے ہیں وہ لوگوں کی نگاہ میں اس جیسی عورتوں کو ذلیل کیۓ دے رہی ہے۔ اس لیۓ وہ ان کی جان کے درپے ہو گئی۔ آخرکار ہیرود کی سالگرہ کے جشن میں اس نے وہ موقع پا لیا جس کی وہ تاک میں تھی۔ جشن کے دربار میں اس کی بیٹی نے خوب رقص کیا جس پر خوش ہو کر ہیرد نے کہا مانگ کیا مانگتی ہے۔ بیٹی نے اپنی فاحشہ ماں سے پوچھا کیا مانگوں؟ ماں نے کہا یحیی سر مانگ لے۔چنانچہ اس نے ہیرد کے سامنے ہاتھ باندھ کرعرض کیا مجھے یوحنا بپتسمہ دینے والے کا سرایک تھال میں رکھوا کر ابھی منگوا دیجۓ۔ ہیرد یہ سن کر بہت غمگین ہوا، مگر محبوبہ کی بیٹی کا تقاضا کیسے رد کر سکتا تھا۔ اس نے فوراً قید خانہ سے یحیی ؑ کا سر کٹوا کر منگوایا اور ایک تھال میں رکھوا کر رقاصہ کی نذر کر دیا (مننی 3:14 12 مرقس 17:6 ۔29 لوقا 19:3 ۔ 20)۔ |