Ayats Found (2)
Surah 21 : Ayat 90
فَٱسْتَجَبْنَا لَهُۥ وَوَهَبْنَا لَهُۥ يَحْيَىٰ وَأَصْلَحْنَا لَهُۥ زَوْجَهُۥٓۚ إِنَّهُمْ كَانُواْ يُسَـٰرِعُونَ فِى ٱلْخَيْرَٲتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًاۖ وَكَانُواْ لَنَا خَـٰشِعِينَ
پس ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور اسے یحییٰ عطا کیا اور اس کی بیوی کو اس کے لیے درست کر دیا1 یہ لوگ نیکی کے کاموں میں دَوڑ دھوپ کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے، اور ہمارے آگے جھکے ہوئے تھے2
2 | اس سیاق و سباق میں انبیاء کا ذکر جس مقصد کے لیے کیا گیا ہے اسے پھر ذہن میں تازہ کر لیجیے حضرت زکریاؑ کے واقعے کا ذکر کرنے سے یہ ذہن نشین کرنا مقصود کہ یہ سارے نبی محض بندے اور انسان تھے ، اُلوہیت کا ان میں شائبہ تک نہ تھا۔ دوسروں کو اولاد بخشنے والے نہ تھے بلکہ خود اللہ کے اولاد کے لیے ہاتھ پھیلانے والے تھے ۔ حضرت یونس کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ ایک نبی اولو العزم ہونے کے باوجود جب ان سے قصور سرزد ہوا تو انہیں پکڑ لیا گیا۔ اور جب وہ اپنے رب کے آگے جھک گئے تو ان پر فضل بھی ایسا کیا گیا کہ مچھلی کے پیٹ سے زندہ نکال لائے گئے ۔ حضرت ایوبؑ کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ نبی کا مبتلائے مصیبت ہونا کوئی نرالی بات نہیں ہے ، اور نبی بھی جب مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو خد ہی کے آگے شفا کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے ۔ وہ دوسروں کوشفا دینے والا نہیں ، خدا سے شفا مانگنے والا ہوتا ہے ۔ پھر ان سب باتوں کے ساتھ ایک طرف یہ حقیقت بھی ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ یہ سارے انبیاء توحید کے قائل تھے ، اور اپنی حاجات ایک خدا کے سوا کسی کےسامنے نہ لے جاتے تھے ، اور دوسری طرف یہ بھی جتانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ غیر معمولی طور پر اپنی نبیوں کی مدد کرتا رہا ہے ، آغاز میں خواہ کیسی ہی آزمائشوں سے ان کو سابق پیش آیا ہو مگر آخر کار ان کی دعائیں معجزانہ شان کے ساتھ پوری ہوئی ہیں |
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، آل عمران آیات 37 تا 41 مع حواشی۔ جلد سوم، مریم، آیات 2 تا 15 مع حواشی ۔ بیوی کو درست کر دینے سے مراد ان کا بانجھ پن دور کر دینا اور سن رسیدگی کے باوجود حمل کے قبل بنا دینا ہے ۔ ’’ بہترین وارث تو تو ہی ہے ‘‘ ، یعنی تُو اولاد نہ بھی دے تو غم نہیں ، تیری ذات پاک وارث ہونے کے لیے کافی ہے |
Surah 3 : Ayat 37
فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنۢبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّاۖ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا ٱلْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًاۖ قَالَ يَـٰمَرْيَمُ أَنَّىٰ لَكِ هَـٰذَاۖ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ ٱللَّهِۖ إِنَّ ٱللَّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَآءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ
آخرکار اس کے رب نے اس لڑکی کو بخوشی قبول فرما لیا، اُسے بڑی اچھی لڑکی بنا کر اٹھایا اور زکریاؑ1 کوا س کا سرپرست بنا دیا زکریاؑ1 جب کبھی اس کے پاس محراب2 میں جاتا تو اس کے پاس کچھ نہ کچھ کھانے پینے کا سامان پاتا پوچھتا مریمؑ! یہ تیرے پا س کہاں سے آیا؟ وہ جواب دیتی اللہ کے پاس سے آیا ہے، اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے
2 | لفظ محراب سے لوگوں کا ذہن بالعموم اس محراب کی طرف چلا جاتا ہے جو ہماری مسجدوں میں امام کے کھڑے ہونے کے لیے بنائی جاتی ہے۔ لیکن یہاں سے محراب سے یہ چیز مراد نہیں ہے۔ صوامع اور کنیسوں میں اصل عبادت گاہ کی عمارت سے متصل سطحِ زمین سے کافی بلندی پر جو کمرے بنائے جاتے ہیں، جن میں عبادت گاہ کے مجاور، خدّام اور معتکف لوگ رہا کرتے ہیں ، انہیں محراب کہا جاتاہے۔ اسی قسم کےکمروں میں سے ایک میں حضرت مریم معتکف رہتی تھیں |
1 | اب اس وقت کا ذکر شروع ہوتا ہے جب حضرت مریم سِن رُشد کو پہنچ گئیں اور بیت المقدس کی عباد ت گاہ (ہیکل) میں داخل کر دی گئیں اور ذکرِ الہٰی میں شب و روز مشغول رہنے لگیں۔ حضرت زکریا جن کی تربیت میں وہ دی گئی تھیں، غالباً رشتے میں ان کے خالو تھے اور ہیکل کے مجاوروں میں سے تھے۔ یہ وہ زکریا نبی نہیں ہیں جن کے قتل کا ذکر بائیبل کے پُرانے عہد نامے میں آیا ہے |