Ayats Found (3)
Surah 31 : Ayat 12
وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا لُقْمَـٰنَ ٱلْحِكْمَةَ أَنِ ٱشْكُرْ لِلَّهِۚ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِۦۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَنِىٌّ حَمِيدٌ
ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی1 کہ اللہ کا شکر گزار ہو2 جو کوئی شکر کرے اُس کا شکر اُس کے اپنے ہی لیے مفید ہے اور جو کوئی کفر کرے تو حقیقت میں اللہ بے نیاز اور آپ سے آپ محمود ہے3
3 | یعنی جو شخص کفر کرتا ہے اس کا کفراس کے اپنے لیے نقصان دہ ہے، اللہ تعالیٰ کا اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ وہ بے نیاز ہے، کسی کے شکر کا محتاج نہیں ہے۔ کسی کا شکر اس کی خدائی میں کوئی اضافہ نہیں کر دیتا، نہ کسی کا کفر اس امرِ واقعہ کو بدل سکتا ہے کہ بندوں کو جو نعمت بھی نصیب ہے اسی کی عطا کردہ ہے۔ وہ تو آپ سے آپ محمود ہے خواہ کوئی ا س کی حمد کرے یا نہ کرے۔ کائنات کا ذرّہ ذرّہ اس کے کمال و جمال اور اس کی خلاقی و رزاقی پر شہادت دے رہا ہے اور ہر مخلوق زبانِ حال سے اس کی حمد بجا لا رہی ہے۔ |
2 | یعنی اللہ کی بخشی ہوئی اس حکمت و دانائی اور بصیرت و فرزانگی کا اوّلین تقاضا یہ تھا کہ انسان اپنے رب کے مقابلے میں شکر گزاری واحسان مندی کا رویّہ اختیار کرے نہ کہ کفرانِ نعمت اور نمک حرامی کا۔ اور اس کا یہ شکر محض زبانی جمع خرچ ہی نہ ہو بلکہ فکر اور قول اور عمل، تینوں صورتوں میں ہو۔ وہ اپنے قلب و ذہن کی گہرائیوں میں اس بات کا یقین و شعور بھی رکھتا ہو کہ مجھے جو کچھ نصیب ہے خدا کا دیا ہوا ہے۔ اس کی زبان اپنے خدا کے احسانات کا ہمیشہ اعتراف بھی کرتی رہے۔ اور وہ عملاً بھی خدا کی فرماں برداری کر کے، اس کی معصیت سے پرہیز کر کے، اس رضا کی طلب میں دَوڑ دھوپ کر کے، اس کے دیے ہوئے انعامات کو اس کے بندوں تک پہنچا کر، اوراس کے خلاف بغاوت کرنے والوں سے مجاہدہ کر کے یہ ثابت کر دے کہ وہ فی الواقع اپنے خدا کا احسان مند ہے۔ |
1 | شرک کی تردید میں ایک پُر زور عقلی دلیل پیش کرنے کے بعد اب عرب کے لوگوں کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ معقول بات آج کوئی پہلی مرتبہ تمہارے سامنے پیش نہیں کی جا رہی ہے بلکہ پہلے بھی عاقل و دانا لوگ یہی بات کہتے رہے ہیں اور تمہارا اپنا مشہور حکیم، لقمان اب سے بہت پہلے یہی کچھ کہہ گیا ہے۔اس لئے تم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی اس دعوت کے جواب میں یہ نہیں کہ سکتے کہ اگر شرک کوئی نامعقول عقیدہ ہے تو پہلے کسی کو یہ بات کیوں نہیں سوجھی۔ لقمان کی شخصیت عرب میں ایک حکیم و دانا کی حیثیت سے بہت مشہور تھی۔ شعرائے جاہلیت، مثلاً امراؤ القیس، لَبِید، اَعْشیٰ، طَرَفہ وغیرہ کے کلام میں اُن کا ذکر کیا گیا ہے۔ اہل عرب میں بعض پڑھے لکھے لوگوں کے پاس صحیفۂ لقمان کے نام سے اُن کے حکیمانہ اقوال کا ایک مجموعہ بھی موجود تھا۔ چنانچہ روایات میں آیا ہے کہ ہجرت سے تین سال پہلے مدینے کا اوّلین شخص جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے متاثر ہوا وہ سُوَید بن صامت تھا۔ وہ حج کے لئے مکہ گیا ۔ وہاں حضورؐ اپنے قاعدے کے مطابق مختلف علاقوں سے آئے ہوئے حاجیوں کی قیام گاہ جا جا کر دعوتِ اسلام دیتے پھر رہے تھے ۔اس سلسلہ میں سُو ید نے جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تقریر سنی تو اس نے آپ سے عرض کیا کہ آپ سے عرض کیا کہ آپ جو باتیں پیش کر رہے ہیں ایسی ہی ایک چیز میرے پاس بھی ہے۔ آپ نے پوچھا وہ کیا ہے؟ اس نے کہا مجلّۂ لقمان۔ پھر آپؐ کی فرمائش پر اس نے اس مجلّہ کا کچھ حصہ آپؐ کو سنایا۔ یہ بہت اچھا کلام ہے، مگر میرے پاس ایک اور کلام اس سے بھی بہتر ہے ۔ اس کے بعد آپ نے اسے قرآن سنایا اور اس نے اعتراف کیا کہ یہ بلا شبہ مجلّہ لقمان سے بہتر ہے (سیر ۃ ابن ہشام،ج ۲، ص ۶۷۔۶۹۔ اُسُد الغابہ ،ج ۲، صفحہ ۳۷۸) مؤرخین کا بیان ہے کہ یہ شخص ( سُوَید بن صامت) مدینہ میں اپنی لیاقت، بہادری، شعر و سخن اور شرف کی بنا پر ’’کامل‘‘ کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کے بعد جب وہ مدینہ واپس ہوا تو کچھ مدّت بعد جنگ بُعاث پیش آئی اور یہ اس میں مارا گیا۔ اس کے قبیلے کے لوگوں کا عام خیال یہ تھا کہ حضورؐ سے ملاقات کے بعد وہ مسلمان ہو گیا تھا۔ تاریخی اعتبار سے لقمان کی شخصیّت کے بارے میں بڑے اختلافات ہیں۔ جاہلیت کی تاریک صدیوں میں کئی مدَوَّن تاریخ تو موجود نہ تھی۔ معلومات کا انحصار اُن سینہ بسینہ روایات پر تھا جو سینکڑوں برس سے چلی آ رہی تھیں۔ ان روایات کی رُو سے بعض لوگ لقمان کو قوم عاد کا ایک فرد اور یمن کا ایک بادشاہ قرار دیتے تھے ۔ مولانا سے ّد سلیمان ندوی نے انہی روایات پر اعتماد کر کے ارض ا لقرآن میں یہ رائے ظاہر کی ہے کہ قومِ عاد پر خدا کا عذاب آنے کے بعد اس قوم کے جو اہل ایمان حضرت ہودؑ کے ساتھ بچ رہے تھے، لقمان انہی نسل سے تھا اور یمن میں اس قوم نے جو حکومت قائم کی تھی، یہ اس کے بادشاہوں میں سے ایک تھا۔ لیکن دوسری روایات جو بعض اکابر صحابہ و تابعین سے مروی ہیں اس کے بالکل خلاف ہیں۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ لقمان ایک حبشی غلام تھا۔ یہی قول حضرت ابو ہریرہ، مُجاہِد، عکْرِمَہ اور خالدالربعی کا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کا بیان ہے کہ وہ نُوبہ کا رہنے والا تھا۔ سعید بن مُسَیِّب کا قول ہے کہ وہ مصر کے سیاہ رنگ لوگوں میں سے تھا۔ یہ تینوں اقوال قریب قریب متشابہ ہیں۔ کیونکہ عرب کے لوگ سیاہ رنگ لوگوں کو اس زمانہ میں عموماً حبشی کہتے تھے ، اور نُوبہ اس علاقہ کا نام ہے جو مصر کے جنوب اور سوڈان کے شمال میں واقع ہے۔ اس لیے تینوں اقوال میں ایک شخص کو مصری، نُوبی اور حبشی قرار دینا محض لفظی اختلاف ہے معنی میں کوئی فرق نہیں ہے، پھر روض ا لانف میں سُہَیلی اور مُرُوج الذَّہَب میں مسعودی کے بیانات سے اس سوال پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ اس سوڈانی غلام کی باتیں عرب میں کیسے پھیلیں۔ ان دونوں کا بیان ہے کہ یہ شخص اصلاً تو نُبی تھا، لیکن باشندہ مَدْیَن اور اَیلَہ (موجودہ عَقَبہ) کے علاقے کا تھا۔ اسی وجہ سے اسکی زبان عربی تھی اور اس کی حکمت عرب میں شائع ہوئی۔ مزید براں سُہَیلی نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ لقمان حکیم اور لقمان بن عاد دو الگ الگ اشخاص ہیں۔ ان کو ایک شخصیت قرار دینا صحیح نہیں ہے (روض الانف، ج۱، ص۲۶۶۔ مسعودی، ج۱۔ ص۵۷)۔ یہاں اس بات کی تصریح بھی ضروری ہے کہ مستشرق دیر نبورگ(Derenbours)نے پیرس کے کتب خانہ کا ایک عربی مخطوطہ جو ’’امثال لقمان الحکیم‘‘(Fables De Looman Le Sage) کے نام سے شائع کیا ہے وہ حقیقت میں ایک موضوع چیز ہے جس کا مجلّٔہ لقمان سے کوئی دُور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ یہ امثال تیرھویں صدی عیسوی میں کسی شخص نے مرتب کی تھیں۔ اس کی عربی بہت ناقص ہے اور اسے پڑھنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ دراصل کسی اور زبان کی کتاب کا ترجمہ ہے جسے مصنف یا مترجم نے انی طرف سے لقمان حکیم کی طرف منسُوب کر دیا ہے۔ مستشرقین اس قسم کی جعلی چیزیں نکال نکال کر جس مقصد کے لیے سامنے لاتے ہیں وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کسی طرح قرآن کے بیان کردہ قصوں کو غیر تاریخی افسانے ثابت کر کے ساقط الاعتبار ٹھیرا دیا جائے۔ جو شخص بھی انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں ’’لقمان‘‘ کے عنوان پر ہیلر(B. Heller) کا مضمون پڑھے گا اس سے ان لوگوں کی نیت کا حال مخفی نہ رہے گا۔ |
Surah 31 : Ayat 13
وَإِذْ قَالَ لُقْمَـٰنُ لِٱبْنِهِۦ وَهُوَ يَعِظُهُۥ يَـٰبُنَىَّ لَا تُشْرِكْ بِٱللَّهِۖ إِنَّ ٱلشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ
یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اس نے کہا 1"بیٹا! خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے2"
2 | ظلم کے اصل معنی ہیں کسی کا حق مارنا اور انصاف کے خلاف کام کرنا۔ شرک اس وجہ سے ظلمِ عظیم ہے کہ آدمی اُن ہستیوں کو اپنے خالق اور رازق اور منعم کے برابر لا کھڑا کرتا ہے جن کا نہ اس کے پیدا کرنے میں کوئی حصہ،نہ اس کو رزق پہنچانے میں کوئی دخل، اور نہ اُن نعمتوں کے عطا کرنے میں کوئی شرکت جن سے آدمی اس دنیا میں متمتع ہو رہا ہے۔ یہ ایسی بے انصافی ہے جس سے بڑھ کر کسی بے انصافی کا تصوّر نہیں کیا جا سکتا۔ پھر آدمی پر اُس کے خالق کا حق ہے کہ وہ صرف اسی کی بندگی و پرستش کرے، مگر وہ دوسروں کی بندگی بجا لا کر اُس کا حق مارتا ہے۔ پھر اس بندگیٔ غیر کے سلسلے میں آدمی جو عمل بھی کرتا ہےا س میں وہ اپنے ذ ہن و جسم سے لے کر زمین و آسمان تک کی بہت سی چیزوں کو استعمال کرتا ہے، حالاں کہ یہ ساری چیزیں اللہ وحدہٗ لا شریک کی پیدا کردہ ہیں اور ان میں سے کسی چیز کو بھی اللہ کے سوا کسی دوسرے کی بندگی میں استعمال کرنے کا اسے حق نہیں ہے۔ پھر آدمی پر خود اس کے اپنے نفس کا یہ حق ہے کہ وہ اسے ذلّت اور عذاب میں مبتلا نہ کرے۔ مگر وہ خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی بندگی کر کے اپنے آ پ کو ذلیل بھی کرتا ہے اور مستحقِ عذاب بھی بناتا ہے۔ اس طرح مشرک کی پوری زندگی ایک ہر جہتی اور ہمہ وقتی ظلم بن جاتی ہے جس کا کوئی سانس بھی ظلم سے خالی نہیں رہتا۔ |
1 | لقمان کی حکیمانہ باتوں میں سےاس خاص نصیحت کو دو مناسبتوں کی بنا پر یہاں نقل کیا گیا ہے۔ اوّل یہ کہ انہوں نے یہ نصیحت اپنے بیٹے کو کی تھی اور ظاہر بات ہے کہ آدمی دنیا میں سب سے بڑھ کر اگر کسی کے حق میں مخلص ہو سکتا ہے تو وہ اس کی اپنی اولاد ہی ہے۔ ایک شخص دوسروں کو دھوکا دے سکتا ہے، ان سے منافقانہ باتیں کر سکتا ہے، لیکن اپنی اولاد کو تو ایک بُرےسےبُرا آدمی بھی فریب دینے کی کوشش کبھی نہیں کرسکتا۔ اس لیے لقمان کا اپنے بیٹے کو یہ نصیحت کرنا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ان کے نزدیک شرک فی الواقع ایک بد ترین فعل تھا اور اسی بنا پر انہوں نے سب سے پہلی جس چیز کی اپنے لختِ جگر کو تلقین کی وہ یہ تھی کہ اس گمراہی سے اجتناب کرے۔ دوسری مناسبت اس حکایت کی یہ ہے کہ کفار مکہ میں سے بہت سے ماں باپ اس وقت اپنی اولاد کو دینِ شرک پر قائم رہنے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوتِ توحید سے منہ موڑ لینے پر مجبور کر رہے تھے، جیسا کہ آگے کی آیات بتا رہی ہیں۔ اس لئے ان نادانوں کو سنایا جا رہا ہے کہ تمہاری سرزمین کے مشہور حکیم نے تو اپنی اولاد کی خیر خواہی کا حق یوں ادا کیا تھا کہ اسے شرک سے پرہیز کرنے کی نصیحت کی۔ اب تم جو اپنی اولاد کو اسی شرک پر مجبور کر رہے ہو تو یہ ان کے ساتھ بد خواہی ہے یا خیرخواہی؟ |
Surah 31 : Ayat 19
وَٱقْصِدْ فِى مَشْيِكَ وَٱغْضُضْ مِن صَوْتِكَۚ إِنَّ أَنكَرَ ٱلْأَصْوَٲتِ لَصَوْتُ ٱلْحَمِيرِ
اپنی چال میں اعتدال اختیار کر1، اور اپنی آواز ذرا پست رکھ، سب آوازوں سے زیادہ بُری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے2
2 | ان الفاظ سےامام شافعی، امام احمد، امام ابو یوسف اورامام محمد نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بچّے کی مدّت رضاعت دو سال ہے۔ اس مدّت کے اندر اگر کسی بچّے نے کسی عورت کا دودھ پیا ہو تب تو حرمتِ رضاعت ثابت ہو گی، ورنہ بعد کی کسی رضاعت کا کوئی لحاظ نہ کیا جائے گا۔ امام مالک سے بھی ایک روایت اسی قول کے حس میں ہے لیکن امام ابو حنیفہ نے مزید احتیاط کی خاطر ڈھائی سال کی مدت تجویز کی ہے، اور اس کے ساتھ ہی امام صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر دو سال یا اس سے کم مدّت میں بچے کا دودھ چھڑا د یا گیا ہو اور اپنی غذا کے لیے بچہ دودھ کا محتاج نہ رہا ہو تو اس کے بعد کسی عورت کا دودھ پی لینے سے کوئی حرمت ثابت نہ ہو گی۔ البتہ اگر بچے کی اصل غذا دودھ ہی ہو تو دوسری غذا تھوڑی بہت کھانے کے باوجود اس زمانے کی رضاعت سے حرمت ثابت ہو جائے گی۔ اس لیے کہ آیت کا منشا یہ نہیں ہے کہ بچے کو لازماً دو سال ہی دودھ پلایا جائے۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے وَالْوَالِدَا تُ ُرْضِعَْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَی ْنِ کَامِلَی ْنِ لِمَنْ اَرَادَاَنْ ی ُّتِمَّ ارَّضَا عَۃَ ط’’مائیں بچّوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں اُس شخص کے لئے جو رضاعت پوری کرانا چاہتا ہو‘‘(آیت۲۳۳)۔ ابن عباس ؓ نے ان الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے اور اہل علم نے اس پر ان سے اتفاق کیا ہے کہ حمل کی قلیل ترین مدت چھ ک۔ماہ ہے، اس لیے کہ قرآن میں ایک دوسری جگہ فرمایا ہے وَحَمْلُہٗ فِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَھْرًا ط’’اس کا پیٹ میں رہنا اور اس کا دودھ چھوٹنا ۳۰مہینوں میں ہُوا۔‘‘ (الاحقاف ،آیت ۱۵)۔ یہ ایک اہم قانونی نکتہ ہے جو جائز اور نا جائز ولادت کی بہت سی بحثوں کا فیصلہ کر دیتا ہے۔ |
1 | بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ’’تیز بھی نہ چل اور آہستہ بھی نہ چل، بلکہ میانہ روی اختیار کر‘‘لیکن سیاقِ کلام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں رفتار کی تیزی و سستی زیر بحث نہیں ہے۔ آہستہ چلنا یا تیز چلنا اپنے اندر کوئی اخلاقی حسن و قبح نہیں رکھتا اور نہ اس کے لیے کوئی ضابطہ مقرر کیا جا سکتا ہے۔ آدمی کو جلدی کا کوئی کام ہو تو تیز کیوں نہ چلے۔ اور اگر وہ محض تفریحاً چل رہا ہو تو آخر آہستہ چلنے میں کیا قباحت ہے میانہ رو ی کا اگر کوئی معیار ہو بھی تو ہر حالت میں ہر شخص کے لیے اسے ایک قاعدۂ کلّیہ کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ دراصل جو چیز یہاں مقصود ہے وہ تو نفس کی اُس کیفیت کی اصلاح ہے جس کے اثر سے چال میں تبختر اور مسکینی کا ظہور ہوتا ہے۔ بڑائی کا گھمنڈ اندر موجود ہو تو وہ لازماً ایک خاص طرز کی چال میں ڈھل کر ظاہر ہوتا ہے جسے دیکھ کر نہ صرف یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ آدمی کسی گھمنڈ میں مبتلا ہے بلکہ چال کی شان یہ تک بتا دیتی ہے کہ کس گھمنڈ میں مبتلا ہے۔ دولت،اقتدار،حسن،علم،طاقت اور ایسی ہی دوسری جتنی چیزیں بھی انسان کے اندر تکبُّر پیدا کرتی ہیں ان میں سے ہر ایک کا گھمنڈ اس کی چال کا ایک مخصوص ٹائپ پیدا کر دیتا ہے۔ اس کے برعکس چال میں مسکینی کا ظہور بھی کسی نہ کسی مذموم نفسی کیفیت کے اثر سے ہوتا ہے۔ کبھی انسان کے نفس کا مخفی تکبُّر ایک نمائشی تواضع اور دکھاوے کی درویشی و خدا رسیدگی کا روپ دھار لیتا ہے اور یہ چیز اس کی چال میں نمایاں نظر آتی ہے۔اور کبھی انسان واقعی دنیا اور اس کے حالات سے شکست کھا کر اور اپنی نگاہ میں آپ حقیر ہو کرمریل چال چلنے لگتا ہے۔ لقمان کی نصیحت کا منشا یہ ہے کہ اپنے نفس کی ان کیفیات کو دور کرو اور ایک سیدھے سادھے معقول اور شریف آدمی کی سی چال چلو جس میں نہ کو ئی اینٹھ اور اکڑ ہو، نہ مریل پن، اور نہ ریا کارانہ زہد و انکسار۔ صحابۂ کرام کا ذوق اس معاملہ میں جیسا کچھ تھا اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ ایک شخص کو سر جھکائے ہوئے چلتے دیکھا تو پکارفرمایا’’سراُٹھا کرچل، اسلام مریض نہیں ہے‘‘۔ ایک اور شخص کو اُنہوں نے مریل چال چلتے دیکھا تو فرمایا ’’ظالم، ہمارے دین کو کیوں مارے ڈالتا ہے۔‘‘ان دونوں واقعات سے معلوم ہُوا کہ حضرت عمرؓ کے نزدیک دینداری کا منشا ہرگز یہ نہیں تھا کہ آدمی بیماروں کی طرح پھونک پھونک کر قدم رکھے اور خواہ مخواہ مسکین بنا چلا جائے۔ کسی مسلمان کو ایسی چال چلتے دیکھ کرانہیں خطرہ ہوتا تھا کہ یہ چال دوسروں کے سامنے اسلام کی غلط نمائندگی کرے گی اور خود مسلمانوں کے اندر افسردگی پیدا کر دے گی۔ ایسا ہی واقعہ حضرت عائشہؓ کو پیش آیا۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک صاحب بہت مضمحل سے بنے ہوئے چل رہے ہیں۔ پوچھا انہیں کیا ہوگیا؟ عرض کیا گیا کہ یہ قرّاء میں سے ہیں (یعنی قرآن پڑھنے پڑھانے والے اور تعلیم و عبادت میں مشغول رہنے والے)۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا ’’عمر سید القراء تھے، مگر ان کا حال یہ تھا کہ جب چلتے تو زور سے چلتے، جب بولتے تو قوت کے ساتھ بولتے اور جب پیٹتے تو خوب پیٹتے تھے‘‘۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، تفسیر سورۂ بنی اسرائیل، حاشیہ ۴۳۔ تفسیر سورہ الفرقان، حاشیہ ۷۹)۔ |