Ayats Found (2)
Surah 2 : Ayat 259
أَوْ كَٱلَّذِى مَرَّ عَلَىٰ قَرْيَةٍ وَهِىَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىٰ يُحْىِۦ هَـٰذِهِ ٱللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَاۖ فَأَمَاتَهُ ٱللَّهُ مِاْئَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُۥۖ قَالَ كَمْ لَبِثْتَۖ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍۖ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِاْئَةَ عَامٍ فَٱنظُرْ إِلَىٰ طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْۖ وَٱنظُرْ إِلَىٰ حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ ءَايَةً لِّلنَّاسِۖ وَٱنظُرْ إِلَى ٱلْعِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًاۚ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُۥ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
یا پھر مثال کے طور پر اُس شخص کو دیکھو، جس کا گزر ایک ایسی بستی پر ہوا، جو اپنی چھتوں پر اوندھی گری پڑی تھی1 اُس نے کہا: 2"یہ آبادی، جو ہلاک ہو چکی ہے، اسے اللہ کس طرح دوبارہ زندگی بخشے گا؟" اس پر اللہ نے اس کی روح قبض کر لی اور وہ سوبرس تک مُردہ پڑا رہا پھر اللہ نے اسے دوبارہ زندگی بخشی اور اس سے پوچھا: 3"بتاؤ، کتنی مدت پڑے رہے ہو؟" اُس نے کہا: 2"ایک دن یا چند گھنٹے رہا ہوں گا" فرمایا: "تم پر سو برس اِسی حالت میں گزر چکے ہیں اب ذرا اپنے کھانے اور پانی کو دیکھو کہ اس میں ذرا تغیر نہیں آیا ہے دوسری طرف ذرا اپنے گدھے کو بھی دیکھو (کہ اِس کا پنجر تک بوسید ہ ہو رہا ہے) اور یہ ہم نے اس لیے کیا ہے کہ ہم تمہیں لوگوں کے لیے ایک نشانی بنا دینا چاہتے ہیں پھر دیکھو کہ ہڈیوں کے اِس پنجر کو ہم کس طرح اٹھا کر گوشت پوست اس پر چڑھاتے ہیں" اس طرح جب حقیقت اس کے سامنے بالکل نمایاں ہو گئی، تو اس نے کہا: "میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے"
3 | ایک ایسے شخص کا زندہ پلٹ کر آنا جسے دُنیا سو (۱۰۰) برس پہلے مُردہ سمجھ چکی تھی ، خود اس کو اپنے ہم عصروں میں ایک جیتی جاگتی نشانی بنا دینے کے لیے کافی تھا |
2 | اس سوال کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ بزرگ حیات بعد الموت کے منکر تھے یا انھیں اس میں شک تھا، بلکہ دراصل وہ حقیقت کا عینی مشاہدہ چاہتے تھے، جیسا کہ انبیا کو کرایا جاتا رہا ہے |
1 | یہ ایک غیر ضروری بحث ہے کہ وہ شخص کون تھا اور وہ بستی کون سی تھی ۔ اصل مدّعا جس کے لیے یہاں یہ ذکر لایا گیا ہے، صرف یہ بتانا ہے کہ جس نے اللہ کو اپنا ولی بنایا تھا، اُسے اللہ نے کس طرح روشنی عطا کی۔ شخص اور مقام، دونوں کی تعیین کا نہ ہمارے پاس کوئی ذریعہ، نہ اس کا کوئی فائدہ۔ البتہ بعد کے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جن صاحب کا یہ ذکر ہے، وہ ضرور کوئی نبی ہوں گے |
Surah 2 : Ayat 260
وَإِذْ قَالَ إِبْرَٲهِــۧمُ رَبِّ أَرِنِى كَيْفَ تُحْىِ ٱلْمَوْتَىٰۖ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَـٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِىۖ قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ ٱلطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ ٱجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ٱدْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًاۚ وَٱعْلَمْ أَنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور وہ واقعہ بھی پیش نظر رہے، جب ابراہیمؑ نے کہا تھا کہ: 1"میرے مالک، مجھے دکھا دے، تو مُردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے" فرمایا: "کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟" اُس نے عرض کیا 2"ایمان تو رکھتا ہوں، مگر دل کا اطمینان درکار ہے" فرمایا: "اچھا تو چار پرندے لے اور ان کو اپنے سے مانوس کر لے پھر ان کا ایک ایک جز ایک ایک پہاڑ پر رکھ دے پھر ان کو پکار، وہ تیرے پاس دوڑے چلے آئیں گے خوب جان لے کہ اللہ نہایت با اقتدار اور حکیم ہے"
2 | اس واقعے اور اُوپر کے واقعے کی بعض لوگوں نے عجیب عجیب تاویلیں کی ہیں لیکن انبیا علیہم السّلام کے ساتھ اللہ کا جو معاملہ ہے، اُسے اگر اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے، تو کسی کھینچ تان کی ضرورت پیش نہیں آسکتی۔ عام اہلِ ایمان کو اِس زندگی میں جو خدمت انجام دینی ہے، اس کے لیے تو محض ایمان بالغیب (بے دیکھے ماننا) کافی ہے۔ لیکن انبیا کو جو خدمت اللہ نے سپُرد کی تھی اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنی آنکھوں سے وہ حقیقتیں دیکھ لیتے جن پر ایمان لانے کی دعوت انہیں دُنیا کو دینی تھی۔ اُن کو دُنیا سے پُورے زور کے ساتھ یہ کہنا تھا کہ تم لوگ تو قیاسات دَوڑاتے ہو، مگر ہم آنکھوں دیکھی بات کہہ رہےہیں۔ تمہارے پاس گمان ہے اور ہمارے پاس علم ہے، تم اندھے ہو اور ہم بینا ہیں۔ اِسی لیے انبیا کے سامنے فرشتے عیاناً آئے ہیں، ان کو آسمان و زمین کے نظامِ حکومت(ملکوت)کا مشاہدہ کرایا گیا ہے، ان کو جنت اور دوزخ آنکھوں سے دکھائی گئی ہے، اور بعث بعد الموت کا ان ے سامنے مظاہرہ کر کے دکھا یا گیا ہے۔ ایمان بالغیب کی منزل سے یہ حضرات منصب نبوّت پر مامو ر ہونے سے پہلے گزر چکے ہوتے ہیں۔ نبی ہونے کےبعد ان کو ایمان بالشہادۃ کی نعمت دی جاتی ہے اور یہ نعمت اُنہی کے ساتھ مخصُوص ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، صفحہ نمبر ۳۳۰ و ۳۳۴)۔ |
1 | یعنی وہ اطمینان ، جو مشاہدہٴ عینی سے حاصل ہوتا ہے |