Ayats Found (2)
Surah 10 : Ayat 98
فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ ءَامَنَتْ فَنَفَعَهَآ إِيمَـٰنُهَآ إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّآ ءَامَنُواْ كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ ٱلْخِزْىِ فِى ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَا وَمَتَّعْنَـٰهُمْ إِلَىٰ حِينٍ
پھر کیا ایسی کوئی مثال ہے کہ ایک بستی عذاب دیکھ کر ایمان لائی ہو اور اس کا ایمان اس کے لیے نفع بخش ثابت ہوا ہو؟ یونسؑ کی قوم کے سوا (اس کی کوئی نظیر نہیں) وہ قوم جب ایمان لے آئی تھی تو البتہ ہم نے اس پر سے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ٹال دیا تھا اور اس کو ایک مدت تک زندگی سے بہرہ مند ہونے کا موقع دے دیا تھا1
1 | جب یہ قوم ایمان لے آئی تو اس کی مہلتِ عمر میں اضافہ کر دیا گیا۔بعد میں اس نے پھر خیال و عمل کی گمراہیاں اختیار کرنی شروع کردیں۔ناحوم نبی (سن ۷۲۰۔سن ۶۹۸ قبل مسیح)نے اسے متنبہ کیا،مگر کوئی اثر نہ ہُوا۔پھر صَنضِیاہ نبی (سن ۶۴۰۔سن ۶۰۹ قبل مسیح)نے اس کو آخری تنبیہ کی۔وہ بھی کارگرنہ ہوئی۔آخرکار سن ۶۱۲ ق م کے لگ بھگ زمانے میں اللہ تعالٰی نے میڈیا والوں کو اس پر مسلط کردیا۔میڈیا کا بادشاہ بابِل والوں کی مدد سے اشور کے علاقے پرچڑھ آیا۔اشوری فوج شکست کھا کرنینویٰ میں محصور ہو گئی۔کچھ مّدت تک اس نے سخت مقابلہ کیا۔پھردجلے کی طغیانی نے فصیلِ شہر توڑ دی اور حملہ آور اندرگھس گئے۔پورا شہر جلا کر خاک سیاہ کر دیا گیا۔گردوپیش کے علاقے کا بھی یہی حشر ہُوا۔اشور کا بادشاہ خوداپنے محل میں آگ لگا کر جل مرااوراس کے ساتھ ہی اشوری سلطنت اور تہذیب بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی۔زمانہ حال میں آثار قدیمہ کی جو کھدائیاں اس علاقے میں ہوئی ہیں ان میں آتش زدگی کے نشانات کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ |
Surah 37 : Ayat 148
فَـَٔـامَنُواْ فَمَتَّعْنَـٰهُمْ إِلَىٰ حِينٍ
وہ ایمان لائے اور ہم نے ایک وقت خاص تک انہیں باقی رکھا1
1 | حضرت یونس کے اس قصے کے متعلق سورہ یونس اور سورہ انبیاء کی تفسیرمیں جو کچھ ہم نے لکھا ہے اس پر بعض لوگوں نے اعتراضات کیے ہیں، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں دوسرے مفسرین کے اقوال بھی نقل کر دیے جائیں۔ مشہور مفسر قَتَادہ سورہ یونس، آیت 98 کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’کوئی بستی ایسی نہیں گزری ہے جو کفر کر چکی ہو اور عذاب آ جانے کے بعد ایمان لائی ہو اور پھر اسے چھوڑ دیا گیا ہو۔ اس سے صرف قوم یونس مستثنیٰ ہے۔ انہوں نے جب اپنے نبی کو تلاش کیا اور نہ پایا، اور محسوس کیا کہ عذاب قریب آگیا ہے تو اللہ نے ان کے دلوں میں توبہ ڈال دی‘‘ (ابن کثیر، جلد 2، ص 433) اسی آیت کی تفسیر علامہ آلوسی لکھتے ہیں : ’’اس قوم کا قصہ یہ ہے کہ یونس علیہ السلام موصل کے علاقے میں نینویٰ کے لوگوں کی طرف بھیجے گئے تھے۔ یہ کافر و مشرک لوگ تھے۔ حضرت یونس نے ان کو اللہ وحدہٗ لا شریک پر ایمان لانے اور بتوں کی پرستش چھوڑ دینے کی دعوت دی۔ انہوں نے انکار کیا اور جھٹلایا۔ حضرت یونس نے ان کو خبر دی کہ تیسرے دن ان پر عذاب آجائے گا اور تیسرا دن آنے سے پہلے آدھی رات کو وہ بستی سے نکل گئے۔ پھر دن کے وقت جب عذاب اس قوم کے سروں پر پہنچ گیاـــــــــ اور انہیں یقین ہو گیا کہ سب ہلاک ہو جائیں گے تو انہوں نے اپنے نبی کو تلاش کیا، مگر نہ پایا۔ آخر کار وہ سب اپنے بال بچوں اور جانوروں کو لے کر صحرا میں نکل آئے اور ایمان و توبہ کا اظہار کیاــــــــ پس اللہ نے ان پر رحم کیا اور ان کی دعا قبول کرلی‘‘ (روح المعانی، جلد 11، ص 170) سورہ انبیاء کی آیت 87 کی تشریح کرتے ہوئے علامہ آلوسی لکھتے ہیں : ’’حضرت یونس کا ا پنی قوم سے ناراض ہو کر نکل جانا ہجرت کا فعل تھا، مگر انہیں اس کا حکم نہیں دیا گیا تھا‘‘ (روح المعانی، ج 17،ص 77) پھر وہ حضرت یونسؑ کی دعا کے فقرہ اِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّا لِمِیْن کا مطلب یوں بیان کرتے ہیں : ’’یعنی میں قصور وار تھا کہ انبیاء کے طریقہ کے خلاف، حکم آنے سے پہلے، ہجرت کرنے میں جلدی کر بیٹھا۔ یہ حضرت یونس علیہ السلام کی طرف سے اپنے گناہ کا اعتراف اور توبہ کا اظہار تھا تاکہ اللہ تعالٰی ان کی اس مصیبت کو دور فرما دے‘‘ (روح المعانی، ج 17، ص 78) مولانا اشرف علی تھانوی کا حاشیہ اس آیت پر یہ ہے کہ ’’وہ اپنی قوم پر جبکہ وہ ایمان نہ لائی خفا ہوکر چل دیے اور قوم پر سے عذاب ٹل جانے کے بعد بھی خود واپس نہ آئے اور اس سفر کے لیے ہمارے حکم کا انتظار نہ کیا‘‘ (بیان القرآن) اسی آیت پر مولانا شبیر احمد عثمانی حاشیہ میں فرماتے ہیں :’’قوم کی حرکات سے خفا ہو کر غصّے میں بھرے ہوئے شہر سے نکل گئے، حکم الٰہی کا انتظار نہ کیا اور وعدہ کر گئے کہ تین دن کے بعد تم پر عذاب آئے گا ـــــــ اِنِّ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْن، اپنے خطا کا اعتراف کیا کہ بے شک میں نے جلدی کی تیرے حکم کا انتظار کیے بدون بستی والوں کو چھوڑ کر نکل کھڑا ہوا۔‘‘ سورہ صافات کی آیات بالا کی تشریح میں امام رازی لکھتے ہیں : ’’حضرت یونس کا تصور یہ تھا کہ اللہ تعالٰی نے ان کی اس قوم کو جس نے انہیں جھٹلایا تھا، ہلاک کرنے کا وعدہ فرمایا، یہ سمجھے کہ یہ عذاب لا محالہ نازل ہونے والا ہے، اس لیے انہوں نے صبر نہ کیا اور قوم کو دعوت دینے کا کام چھوڑ کر نکل گئے، حالانکہ ان پر واجب تھا کہ دعوت کا کام برابر جاری رکھتے، کیونکہ اس امر کا امکان باقی تھا کہ اللہ ان لوگوں کو ہلاک نہ کرے‘‘ (تفسیر کبیر، ج 7، ص 185) علامہ آلوسی اِذْ اَبَقَ اِلَی الْفُلْکِ الْمَشْحُون پر لکھتے ہیں : ’’ ابق کے اصل معنی آقا کے ہاں سے غلام کے فرار ہونے کے ہیں۔ چونکہ حضرت یونس اپنے رب کے اذن کے بغیر اپنی قوم سے بھاگ نکلے تھے اس لیے اس لفظ کا اطلاق ان پر درست ہوا۔‘‘ پھر آگے چل کر لکھتے ہیں :’’جب تیسرا دن ہوا تو حضرت یونس اللہ تعالٰی کی اجازت کے بغیر نکل گئے۔ اب جو ان کی قوم نے ان کو نہ پایا تو وہ اپنے بڑے اور چھوٹے اور جانوروں، سب کو ل کر نکلے، اور نزول عذاب ان سے قریب تھا، پس انہوں نے اللہ تعالٰی کے حضور زاری کی اور معافی مانگی اور اللہ نے انہیں معاف کر دیا‘‘ (روح المعانی، جلد 23 ، ص، 13) مولانا شبیر احمد صاحب وَھُوَ مُلِیْم کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’الزام یہی تھا کہ خطائے اجتہادی سے حکم الٰہی کا انتظار کیے بغیر بستی سے نکل پڑے اور عذاب کے دن کی تعیین کر دی۔‘‘ پھر سورہ القلم کی آیت فَا صْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تَکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْ تِ پر مولانا شبیر احمد صاحب کا حاشیہ یہ ہے ’’یعنی مچھلی کے پیٹ میں جانے والے پیغمبر (حضرت یونس علیہ السلام) کی طرح مکذبین کے معاملہ میں تنگ دلی اور گھبراہٹ کا اظہار نہ کیجیے‘‘۔ اور اسی آیت کے فقرہ وَھُوَ مَکْظُوْم پر حاشیہ تحریر کرتے ہوئے مولانا فرماتے ہیں : یعنی قوم کی طرف سے غصے میں بھرے ہوئے تھے۔ جھنجھلا کر شتابی عذاب کی دعا، بلکہ پیشن گوئی کر بیٹھے۔‘‘ مفسرین کے ان بیانات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تین قصور تھے جن کی وجہ سے حضرت یونس پر عتاب ہوا۔ ایک یہ کہ انہوں نے عذاب کے دن کی خود ہی تعیین کر دی حالانکہ اللہ تعالٰی کی طرف سے ایسا کوئی اعلان نہ ہوا تھا۔ دوسرے یہ کہ وہ دن آنے سے پہلے ہجرت کر کے ملک سے نکل گئے، حالانکہ نبی کو اس وقت تک اپنی جگہ نہ چھوڑنی چاہیے جب تک اللہ تعالٰی کا حکم نہ آ جائے۔ تیسرے یہ کہ جب اس قوم پر سے عذاب ٹل گیا تو واپس نہ گئے۔ |