Ayats Found (2)
Surah 37 : Ayat 142
فَٱلْتَقَمَهُ ٱلْحُوتُ وَهُوَ مُلِيمٌ
آخرکار مچھلی نے اسے نگل لیا اور وہ ملامت زدہ تھا1
1 | ان فقروں پر غور کرنے سے جو صورت واقعہ سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ: (1)حضرت یونس جس کشتی میں سوار ہوئے تھے وہ اپنی گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی(Overloaded)تھی۔ (2) قرعہ اندازی کشتی میں ہوئی، اور غالباً اس وقت جب بحری سفر کے دوران میں یہ محسوس ہوا کہ بوجھ کی زیادتی کے سبب سے تمام مسافروں کی جان خطرے میں پڑ گئی ہے۔ لہٰذا قرعہ اس غرض کے لیے ڈالا گیا کہ جس کا نام قرعہ میں نکلے اسے پانی میں پھینک دیا جائے۔ (3) قرعہ میں حضرت یونس ہی کا نام نکلا، وہ سمندر میں پھینک دیے گئے اور ایک مچھلی نے ان کو نگل لیا۔ (4) اس ابتلا میں حضرت یونس اس لیے مبتلا ہوئے کہ وہ اپنے آقا (یعنی اللہ تعالٰی) کی اجازت کے بغیر اپنے مقام ماموریت سے فرار ہو گئے تھے۔ اس معنی پر لفظ اَبَقَ بھی دلالت کرتا ہے جس کی تشریح اوپر حاشیہ نمبر 78 میں گزرچکی ہے، اور اسی معنی پر لفظ مُلِیْم بھی دلالت کرتا ہے۔ مُلیم ایسے قصور وار آدمی کو کہتے ہیں جو اپنے قصور کی وجہ سے آپ ہی ملامت کا مستحق ہو گیا ہو، خواہ اسے ملامت کی جائے یا نہ کی جائے (یقال قد الام الر جل اذا اتیٰ ما یلام علیہ من الامر و ان لم یُلِم ۔ ابن جریر)۔ |
Surah 37 : Ayat 144
لَلَبِثَ فِى بَطْنِهِۦٓ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ
روز قیامت تک اسی مچھلی کے پیٹ میں رہتا1
1 | اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ مچھلی قیامت تک زندہ رہتی اور حضرت یونس ؑ قیامت تک اس کے پیٹ میں زندہ رہتے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت تک اس مچھلی کا پیٹ ہی حضرت یونسؑ کی قبر بنا رہتا۔ مشہور مفسر قتادہ نے اس آیت کا یہی مطلب بیان کیا ہے (ابن جریر)۔ |