Ayats Found (2)
Surah 34 : Ayat 15
لَقَدْ كَانَ لِسَبَإٍ فِى مَسْكَنِهِمْ ءَايَةٌۖ جَنَّتَانِ عَن يَمِينٍ وَشِمَالٍۖ كُلُواْ مِن رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَٱشْكُرُواْ لَهُۚۥ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ
سبا کے لیے1 اُن کے اپنے مسکن ہی میں ایک نشانی موجود تھی2، دو باغ دائیں اور بائیں 3کھاؤ اپنے رب کا دیا ہوا رزق اور شکر بجا لاؤ اُس کا، ملک ہے عمدہ و پاکیزہ اور پروردگار ہے بخشش فرمانے والا
3 | اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پورے ملک میں بس دوہی باغ تھے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ سبا کی پوری سر زمین گلزار بنی ہوئی تھی۔ آدمی جہاں بھی کھڑا ہوتا اسے اپنے دائیں جانب بھی باغ نظر آتا اور بائیں جانب بھی |
2 | یعنی اس امر کی نشانی کہ جو کچھ ان کو میسر ہے وہ کسی کا عطیہ ہے نہ کہ ان کا اپنا آفریدہ۔ اور اس امر کی نشانی کہ ان کے بندگی و عبادت اور شکر و سپاس کا مستحق وہ خدا ہے جس نے ان کو یہ نعمتیں دی ہیں نہ کہ وہ جن کا کوئی حصہ ان نعمتوں کی بخشش میں نہیں ہے۔ اور اس امر کی نشانی کہ ان کی دولت لازوال نہیں ہے بلکہ جس طرح آئی ہے اسی طرح جا بھی سکتی ہے۔ |
1 | سلسلۂ بیان کو سمجھنے کے لیے رکوع اول کے مضمون کو نگاہ ہیں رکھنا ضروری ہے۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کفار عرب آخرت کی آمد کو بعید از عقل سمجھتے تھے۔ اور جو رسولؐ اس عقیدے کو پیش کر رہا تھا اس کے متعلق کھلم کھلا یہ کہہ رہے تھے کہ ایسی عجیب باتیں کرنے والا آدمی یا تو مجنون ہو سکتا ہے، یا پھر وہ جان بوجھ کر افترا پردازی کر رہا ہے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالٰی نے پہلے چند عقل دلائل ارشاد فرمائے جن کی تشریح ہم حواشی نمبر 7۔8۔12 میں کر چکے ہیں۔ اس کے بعد رکوع دوم میں حضرت داؤد و سلیمانؑ کا قصّہ اور پھر سبا کا قصہ ایک تاریخی دلیل کے طور پر بیان کیا گیا ہے جس سے مقصود یہ حقیقت ذہن نشین کرنا ہے کہ روئے زمین پر خود نوع انسانی کی اپنی سرگزشت قانونِ مکافات کی شہادت دے رہی ہے۔ انسان اپنی تاریخ کو غور سے دیکھے تو اسے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ دنیا کوئی اندھیر نگری نہیں ہے جس کا سارا کارخانہ اندھا دھند چل رہا ہو بلکہ اس پر ایک سمیع و بصیر خدا فرمانروائی کر رہا ہے جو شکر کی راہ اختیار کرنے والوں کے ساتھ ایک معاملہ کرتا ہے اور ناشکری و کافر نعمتی کی راہ چلنے والوں کے ساتھ بالکل ہی ایک دوسرا معاملہ فرماتا ہے۔ کوئی سبق لینا چاہے تو اسی تاریخ سے یہ سبق لے سکتا ہے کہ جس خدا کی سلطنت کا یہ مزاج ہے اس کی خدائی میں نیکی اور بدی کا انجام کبھی یکساں نہیں ہو سکتا۔ اس کے عدل و انصاف کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ایک وقت ایسا آئے جب نیکی کا پورا اجر اور بدی کا پورا بدلہ دیا جائے۔ |
Surah 34 : Ayat 21
وَمَا كَانَ لَهُۥ عَلَيْهِم مِّن سُلْطَـٰنٍ إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يُؤْمِنُ بِٱلْأَخِرَةِ مِمَّنْ هُوَ مِنْهَا فِى شَكٍّۗ وَرَبُّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ حَفِيظٌ
ابلیس کو اُن پر کوئی اقتدار حاصل نہ تھا مگر جو کچھ ہوا وہ اس لیے ہوا کہ ہم یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ کون آخرت کا ماننے والا ہے اور کون اس کی طرف سے شک میں پڑا ہوا ہے1 تیرا رب ہر چیز پر نگران ہے2
2 | قوم سبا کی تاریخ کی طرف یہ اشارات جو قرآن مجید میں کیے گئے ہیں ان کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ معلومات بھی ہماری نگاہ میں رہیں جو اس قوم کے متعلق دوسرے تاریخ ذرائع سے فراہم ہوئی ہیں۔ تاریخ کی رو سے ’’سبا ‘‘ جنوبی عرب کی ایک بہت بڑی قوم کا نام ہے جو چند بڑے بڑے قبائل پر مشتمل تھی۔ امام احمد، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن عبدالبرّ اور ترمذی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ روایت نقل کی ہے کہ سبا عرب کے ایک شخص کا نام تھا جس کی نسل سے عرب میں حسب ذیل قبیلے پیدا ہوئے : کِنْدَہ۔ حِمْرَ۔ اَزْد۔ اَشْعَریین۔ مَذْحِج۔ اَنْمار)جس کی دو شاخیں ہیں خَثْعَمْ اور بَجیْلَہ۔ عامِلہ۔ جُدّام۔ لَحْم اور غسان۔ بہت قدیم زمانے سے دنیا میں عرب کی اس قوم کا شہرہ تھا۔ 2500 قبل مسیح میں اُور کے کتبات اس کا ذکر سابوم کے نام سے کرتے ہیں۔ اس کے بعد بابِل اور آشور (اسیریا) کے کتبات میں اور اسی طرح بائیبل میں بھی کثرت سے اس کا ذکر آیا ہے، (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو زَبور، 72: 15۔یرمیاہ 6:20۔ حذقی ایل 27:22۔38:13۔ ایوب 6:19) یونان و روم کے مورخین و جغرافیہ نویس تھیو فراسٹس (288 قبل مسیح) کے وقت سے مسیح کے بعد کی کئی صدیوں تک مسلسل اس کا ذکر کرتے چلے گئے ہیں۔ اس کا وطن عرب کا جنوبی کونہ تھا جو آج یمن کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے عروج کا دَور گیارہ سو برس قبل مسیح سے شروع ہوتا ہے۔ حضرت داؤد و سلیمان علیہما السلام کے زمانے میں ایک دولت مند قوم کی حیثیت سے اس کا شہرہ آفاق میں پھیل چکا تھا۔ آغاز میں یہ ایک آفتاب پرست قوم تھی۔ پھر جب اس کی ملکہ حضرت سلیمان (965۔ 926 قبل مسیح)کے ہاتھ پر ایمان لے آئی تو اغلب یہ ہے کہ اس کی غالب اکثریت مسلمان ہو گئی تھی۔ لیکن بعد میں نہ معلوم کس وقت اس کے اندر شرک و بُت پرستی کا پھر زور ہو گیا اور اس نے اَلْمقہ (چاند دیوتا)، عَشْتَر (زُہرہ)ذاتِ حمیم اور ذابِ بعدان (سورج دیوی) ہوبس، حرمتم یا حریمت اور ایسے ہی دوسرے بہت سے دیوتاؤں اور دیویوں کو پوجنا شروع کر دیا۔ اَلْمقہ اس قوم کا سب سے بڑا دیوتا تھا، اور اس کے بادشاہ اپنے آپ کو اسی دیوتا کے وکیل کی حیثیت سے اطاعت کا حق دار قرار دیتے۔ یمن میں بکثرت کتبات ملے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سارا ملک ان دیوتاؤں، اور خصوصاً اَلمقہ کے مندروں سے بھرا ہوا تھا اور ہر اہم واقعہ پر ان کے شکریے ادا کیے جاتے تھے۔ آثار قدیمہ کی جدید تحقیقات کے سلسلے میں یمن سے تقریباً 3 ہزار کتبات فراہم ہوئے ہیں جو اس قوم کی تاریخ پر اہم روشنی ڈالتے ہیں۔ اس کے ساتھ عربی روایات اور رومی و یونانی تواریخ کی فراہم کردہ معلومات کو اگر جمع کر لیا جائے تو اچھی خاصی تفصیل کی ساتھ اس کی تاریخ مرتب کی جا سکتی ہے۔ ان معلومات کی رو سے اس کی تاریخ کے اہم ادوار حسبِ ذیل ہیں: 1۔ 650 قبل مسیح سے پہلے کا دَور۔ اس زمانے میں ملوک سبا کا لقب مُکَرِّ بِ سبا تھا۔ اغلب یہ ہے کہ یہ لفظ مُقَرِّب کا ہم معنی تھا اور اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ بادشاہ انسانوں اور خداؤں کے درمیان اپنے آپ کو واسطہ قرار دیتے تھے، یا دوسرے الفاظ میں یہ کاہن بادشاہ (Priest-Kings) تھے۔ اس زمانے میں ان کا پایہ تخت صرواح تھا جو کے کھنڈر آج بھی مارِب سے مغرب ایک دن کی راہ پر پائے جاتے ہیں اور خَربیہ کے جام سے مشہور ہیں۔ اسی دَور میں مارب کے چند بند کی بنا رکھی گئی اور وقتاً فوقتاً مختلف بادشاہوں نے اسے وسیع کیا۔ 2۔ 650 قبل مسیح سے 115 قبل مسیح تک کا دور۔ اس دَور میں سبا کے بادشاہوں نے مکرب کا لقب چھوڑ کر مَلِک (بادشاہ) کا لقب اختیار کر لیا، جس کے معنی یہ ہیں کہ حکومت میں مذہبیت کی جگہ سیاست اور سیکولرازم کا رنگ غالب ہو گیا اس زمانے میں ملوکِ سبا نے صرواح کو چھوڑ کر مارب کو اپنا دار السلطنت بنایا اور اسے غیر معمولی ترقی دی۔ یہ مقام سمندر سے 3900 فیٹ کی بلندی پر صنعاء سے 60 میل جانب مشرق واقع اور آج تک اس کے کھنڈر شہادت دے رہے ہیں کہ یہ کبھی ایک بڑی متمدن قوم کا مرکز تھا۔ 3۔ 115 ق م سے 300 عیسوی تک کا دور۔ اس زمانے میں سبا کی مملکت پر حمیر کا قبیلہ غالب ہو گیا جو قوم سبا ہی کا ایک قبیلہ تھا اور تعداد میں دوسرے تمام قبائل سے بڑھا ہوا تھا۔ اس دور میں مارب کو اجاڑ کر رَیدان پایہ تخت بنایا گیا جو قبیلہ حمیر کا مرکز تھا۔ بعد میں یہ شہر ظفار کے نام سے موسوم ہوا۔ آج کل موجودہ شہر یریم کے قریب ایک مدوَّر پہاڑی پر اس کے کھنڈر ملتے ہیں اور اسی کے قریب علاقہ میں ایک چھوٹا سا قبیلہ حمیر کے نام سے آباد ہے جسے دیکھ کر کوئی شخص تصوّر تک نہیں کر سکتا کہ یہ اسی قوم کی یاد گار ہے جس کے ڈنکے کبھی دنیا بھر میں بجتے تھے۔ اسی زمانے میں سلطنت کے ایک حصّہ کی حیثیت سے پہلی مرتبہ لفظ یمنت اور یمینات کا استعمال ہونا شروع ہوا اور رفتہ رفتہ یمن اس پورے علاقے کا نام ہو گیا جو عرب کے جنونی مغربی کونے پر عسیر سے عدن تک اور باب المندب سے حضر موت تک واقع ہے۔ یہی دور ہے جس میں سبائیوں کا زوال شروع ہوا۔ 4۔ 300 ء کے بعد سے آغاز اسلام تک کا دور۔ یہ قوم سبا کی تباہی کا دور ہے۔ اس دور میں ان کے ہاں مسلسل خانہ جنگیاں ہوئیں۔ بیرونی قوموں کی مداخلت شروع ہوئی۔ تجارت برباد ہوئی۔ زراعت نے دم توڑا اور آخر کار آزاد ی تک ختم ہو گئی۔ پہلے رَیدانیوں، حمیریوں، اور ہمدانیوں کی باہمی نزاعات سے فائدہ اٹھا کر 340 سے 378 ء تک یمن پر حبشیوں کا قبضہ رہا۔ پھر آزادی تو بحال ہو گئی مگر مارب کے مشہور بند میں رخنے پڑنے شروع ہو گئے یہاں تک کہ آخر کار 450 ء یا 451 ء میں بند کے ٹوٹنے سے وہ عظیم سیلاب آیا جس کا ذکر قرآن مجید کی آیات میں کیا گیا ہے۔ اگرچہ اس کے بعد اَبرہہ کے زمانے تک اس بن کی مسلسل مرمتیں ہوتی رہیں، لیکن جو آبادی منتشر ہو چکی تھی وہ پھر جمع نہ ہو سکی اور نہ آب پاشی اور زراعت کا وہ نظام جو درہم برہم ہو چکا تھا، دوبارہ بحال ہو سکا۔ 523 ء میں یمن کے یہودی بادشاہ ذونو اس نے نَجران کے عیسائیوں پر وہ ظلم و ستم برپا کیا جس کا ذکر قرآن مجید میں اصحاب الاُخدود کے نام سے کیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں حبش کی عیسائی سلطنت یمن پر انتقاماً حملہ آور ہو گئی اور اس نے سارا ملک فتح کر لیا۔ اس کے بعد یمن کے حبشی وائسرائے ابرہہ نے کعبہ کی مرکزیت ختم کرنے اور عرب کے پورے مغربی علاقے کو رومی حبشی اثر میں لانے کے لیے 570 یا 571 ء میں (نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش سے چند روز قبل) مکہ و معظمہ پر حملہ کیا اور اس کی پوری فوج پر وہ تباہی آئی جسے قرآن مجید میں اصحاب الفیل کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے۔ آخر کار 575 ء میں یمن پر ایرانیوں کا قبضہ ہوا، اور اس کا خاتمہ اس وقت ہوا جب 628 ء میں ایرانی گورنر باذان نے اسلام قبول کر لیا۔ قوم سبا کا عروج دراصل دو بنیادوں پر قائم تھا۔ ایک زراعت۔ دوسرے تجارت۔ زراعت کو انہوں نے آب پاشی کے ایک بہترین نظام کے ذریعہ سے ترقی دی تھی جس کے مثل کوئی دوسرا نظام آب پاشی بابل کے سوا قدیم زمانے میں کہیں نہ پایا جاتا تھا۔ ان کی سر زمین میں قدرتی دریا نہ تھے۔ بارش کے زمانے میں پہاڑوں سے برساتی نالے بہ نکلتے تھے۔ انہی نالوں پر سارے ملک میں جگہ جگہ بن باندھ کر انہوں نے تالاب بنا لیے تھے اور ان سے نہریں نکال نکال کر پورے ملک کو اس طرح سیراب کر دیا تھا کہ قرآن مجید کی تعبیر کے مطابق ہر طرف ایک باغ ہی باغ نظر آتا تھا۔ اس نظام آب پاشی کا سب س بڑا مخزن آب وہ تالاب تھا جو شہر مارب کے قریب کوہ بلق کی درمیانی وادی پر بن باندھ کر تیار کیا گیا تھا مگر جب اللہ کی نظر عنایت ان سے پھر گئی تو پانچویں صدی عیسوی کے وسط میں یہ عظیم الشان بند ٹوٹ گیا اور اس سے نکلنے والا سیلاب راستے میں بند توڑتا چلا گیا یہاں تک کہ ملک کا پورا نظام آب پاشی تباہ ہو کر رہ گیا۔ پھر کوئی اسے بحال نہ کر سکا۔ تجارت کے لیے اس قوم کو خدا نے بہترین جغرافی مقام عطا کیا تھا جس سے اس نے خوب فائدہ اٹھایا۔ ایک ہزار برس سے زیادہ مدت تک یہی قوم مشرق اور مغرب کے درمیان تجارت کا واسطہ بنی رہی۔ ایک طرف ان کے بندرگاہوں میں چین کا ریشم، انڈونیشیا اور مالا بار کے گرم مسالے، ہندوستان کے کپڑے اور تلواریں، مشرقی افریقہ کے زنگی غلام، بندر شتر مرغ کے پر اور ہاتھی دانت پہنچتے تھے اور دوسری طرف یہ ان چیزوں کو مصر اور شام کی منڈیوں میں پہنچاتے تھے جہاں سے روم و یونان تک یہ مال روانہ کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ خود ان کے علاقے میں لوبان، عود، عنبر، مشک، مُرّ، قرفہ، قصب الذَّرِیرہ، سلیخہ اور دوسری ان خوشبو دار چیزوں کی بڑی پیداوار تھی جنہیں مصر و شام اور روم و یونان کے لوگ ہاتھوں ہاتھ لیتے تھے۔ اس عظیم الشان تجارت کے دو بڑے راستے تھے۔ ایک بحری۔ دوسری برّی۔ بحری تجارت کا اجارہ ہزار سال تک انہی سبائیوں کے ہاتھ میں تھا، کیونکہ بحر احمر کی موسمی ہواؤں، زیر آپ چٹانوں، اور لنگر اندازی کے مقامات کا راز یہی لوگ جانتے تھے اور دوسری کوئی قوم اس خطرناک سمندر میں جہاز چلانے کی ہمت نہ رکھتی تھی۔ اس بحری راستے سے یہ لوگ اردن اور مصر کی بندرگاہوں تک اپنا مال پہنچایا کرتے تھے۔ برّی راستے عدن اور حضرموت سے مارب پر جا کر ملتے تھے اور پھر وہاں سے ایک شاہراہ مکہ، جدہ، یثرب، العُلاء، تبوک اور ایلہ سے گزرتے ہوئی پَٹرا تک پہنچتی تھی۔ اس کے بعد ایک راستہ مصر کی طرف اور دوسرا راستہ شام کی طرف جاتا تھا۔ اس بری راستے پر، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے، یمن سے حدود شام تک سبائیوں کی نو آبادیاں مسلسل قائم تھیں اور شب و راز ان کے تجارتی قافلے یہاں سے گزرتے رہتے تھے۔ آج تک ان میں سے بہت سی نو آبادیوں کے آثار اس علاقے میں موجود ہیں اور وہاں سبائی و حمیری زبان کے کتبات مل رہے ہیں۔ پہلی صدی عیسوی کے لگ بھگ زمانے میں اس تجارت پر زوال آنا شروع ہوع ہو گیا۔ مشرق اوسط میں جب یونانیوں اور پھر رومیوں کی طاقت ور سلطنتیں قائم ہوئیں تو شور مچنا شروع ہو کہ عرب تاجر اپنی اجارہ داری کے باعث مشرق کے اموال تجارت کی من مانی قیمتیں وصول کر رہے ہیں اور ضرورت ہے کہ ہم خود اس میدان میں آگے بڑھ کر اس تجارت پر قبضہ کریں۔ اس غرض کے لیے سب سے پہلے مصر کے یونانی الاصل فرمانروا بطلیموس ثانی (285۔246 قبل مسیح) نے اس قدیم نہر کو پھر سے کھولا جو 17 سو برس پہلے فرعون سِسوسترِیس نے دریائے نیل کو بحر احمر سے ملانے کے لیے کھدوائی تھی۔ اس نحر کے ذریعہ سے مصر کا بحری بیڑا پہلی مرتبہ بحر احمر میں داخل ہوا۔ لیکن سبائیوں کے مقابلے میں یہ کوشش زیادہ کارگر نہ ہو سکی۔ پھر جب مصر پر روم کا قبضہ ہوا تو رومی زیادہ طاقت ور تجارتی بیڑا بحر احمر میں لے آئے اور اس کی پشت پر انہوں نے ایک جنگی بیڑا بھی لا کر ڈال دیا۔ اس طاقت کا مقابلہ سبائیوں کے بس میں نہ تھا۔ رومیوں نے جگہ جگہ بندرگاہوں پر اپنی تجارتی نو آبادیاں قائم کیں، ان میں جہازوں کی ضروریات فراہم کرنے کا انتظام کیا، اور جہاں ممکن ہو وہاں اپنے فوجی دستے بھی رکھ دئے۔ حتیٰ کہ ایک وقت وہ آ گیا کہ عدن پر رومیوں کا فوجی تسلط قائم ہو گیا۔ اسے سلسلے میں رومی اور حبشی سلطنتوں نے سبائیوں کے مقابلے میں باہم ساز باز بھی کر لیا جس کی بدولت بالآخر اس قوم کی آزادی تک ختم ہو گئی۔ بحری تجارت ہاتھ وے نکل جانے کے بعد صرف بری تجارت سبائیوں کے پاس رہ گئی تھی۔ مگر بہت سے اسباب نے رفتہ رفتہ اس کی کمر بھی توڑ دی۔ پہلے نَبطیوں نے پیڑا سے الُعلا تک بالائی حجاز اور اردن کی تمام نو آبادیوں سے سبائیوں کو نکال باہر کیا۔ پھر 106 ء میں رومیوں نے نبطی سلطنت کا خاتمہ کر دیا اور حجاز کی سرحد تک شام و اردن کے تمام علاقے ان کے مضبوط ہاتھو میں چلے گئے۔ اس کے بعد حبش اور روم کی متحدہ کوشش یہ رہی کہ سبائیوں کی باہمی کشمکش سے فائدہ اٹھا کر ان کی تجارت کو بالکل تباہ کر دیا جائے۔ اسی بنا پر حبشی بار بار یمن میں مداخلت کرتے رہے یہاں تک کہ آخر کار انہوں نے پورے ملک پر قبضہ کر لیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے غضب نے اس قوم کو انتہائی عروج سے گرا کر اس گڑھے میں پھینک دیا جہان سے پھر کوئی مغضوب قوم کبھی سر نہیں نکال سکی ہے۔ ایک وقت تھا کہ اس کی دولت کے افسانے سن سن کر یونان و روم والوں کے منہ میں پانی بھر آتا تھا۔ اسٹاہو لکھتا ہے کہ یہ لوگ سونے اور چاندی کے برتن استعمال کرتے ہیں، اور ان کے مکانوں کی چھتوں، دیواروں اور دروازوں تک میں ہاتھی دانت، سونے، چاندی اور جواہر کا کام بنا ہوا ہوتا ہے۔ پلینی کہتا ہے کہ روم اور فارس کی دولت ان کی طرف بہی چلی جا رہی ہے، یہ اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ مالدار قوم ہیں، اور ان کا ور سبز و شاداب ملک باغات، کھیتوں اور مواشی سے بھرا ہوا ہے۔ آر ٹی میڈورس کہتا ہے کہ یہ لوگ عیش میں مست ہو رہے ہیں اور جلانے کی لکڑی کے بجائے دار چینی، صندل اور دوسری خوشبو دار لکڑیاں جلاتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے یعنانی مورخین روایت کرتے ہیں کہ ان کے قریب سواحل سے گزرتے ہوئے تجارتی جہازوں تک خوشبو کی لپیٹیں پہنچتی ہیں۔ انہوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ صنعا کے بلند پہاڑی مقام پروہ فلک شگاف عمارت(Skyscraper) تعمیر کی جو قصر غُمدان کے نام سے صدیوں تک رہا جب تک اللہ کا فضل ان کے شامل حال رہا۔ آخر کار جب انہوں نے کفران نعمت کی حد کر دی تو رب قدیر کی نظر عنایت ہمیشہ کے لیے ان سے پھر گئی اور ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ |
1 | یعنی ابلیس کو یہ طاقت حاصل نہ تھی کہ ان کا ارادہ تو خدا کی فرمانبرداری کرنے کا ہو مگر وہ زبردستی ان کا ہاتھ پکڑا کر انہیں نا فرمانی کی راہ پر کھینچ لے گیا ہو۔ اللہ تعالٰی نے جو کچھ بھی قدرت اس کو دی تھی کہ وہ انہیں بہکائے اور ایسے تمام لوگوں کو اپنے پیچھے لگا لے جو خود اس کی پیروی کرنا چاہیں۔ اور اس اغوا کے مواقع ابلیس کو اس لیے عطا کیے گئے تاکہ آخرت کے ماننے والوں اس کی آمد میں شک رکھنے والوں کا فرق کھل جائے۔ دوسرے الفاظ میں یہ ارشاد ربانی اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ عقیدہ آخرت کے سوا کوئی دوسری چیز ایسی نہیں ہے جو اس دنیا میں انسان کو راہ راست پر قائم رکھنے کی ضامن ہو سکتی ہو۔ اگر کوئی شخص یہ نہ مانتا ہو کہ اسے مر کر دوبارہ اٹھنا ہے اور اپنے خدا کے حضور اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے، تو وہ لازماً گمراہ و بد راہ ہو کر رہے گا، کیونکہ اس کے اندر سرے سے وہ احساس ذمہ داری پیدا ہی نہ ہو سکے گا جو آدمی کو راہ راست پر ثابت قدم رکھتا ہے۔ اسی لیے شیطان کا سب سے بڑا حربہ، جس سے وہ آدمی کو اپنے پھندے میں پھانستا ہے، یہ ہے کہ وہ اسے آخرت سے غافل کرتا ہے۔ اس کے اس فریب سے جو شخص بچ نکلے وہ کبھی اس بات پر راضی نہ ہو گا کہ اپنی اصل دائمی زندگی کے مفاد کو دنیا کی اس عارضی زندگی کے مفاد پر قربان کر دے۔ بخلاف اس کے جو شخص شیطان کے دام میں آ کر آخرت کا منکر ہو جائے، یا کم از کم اس کی طرف سے شک میں پڑ جائے، اسے کوئی چیز اس بات پر آمادہ نہیں کر سکتی کہ جو نقد سَودا اِس دنیا میں ہو رہا ہے اس سے صرف اس لیے ہاتھ اٹھا لے کہ اس سے کسی بعد کی زندگی میں نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ دنیا میں جو شخص بھی گمراہ ہوا ہے اسی انکار آخرت یا شک فی ا لآخرۃ کی وجہ سے ہوا ہے، اور جس نے بھی راست روی اختیار کی ہے اس کے صحیح طرز عمل کی بنیاد ایمان بالآخرۃ ہی پر قائم ہوئی ہے۔ |