Ayats Found (2)
Surah 38 : Ayat 34
وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَـٰنَ وَأَلْقَيْنَا عَلَىٰ كُرْسِيِّهِۦ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ
اور (دیکھو کہ) سلیمانؑ کو بھی ہم نے آزمائش میں ڈالا اور اس کی کرسی پر ایک جسد لا کر ڈال دیا پھر اس نے رجوع کیا
Surah 38 : Ayat 35
قَالَ رَبِّ ٱغْفِرْ لِى وَهَبْ لِى مُلْكًا لَّا يَنۢبَغِى لِأَحَدٍ مِّنۢ بَعْدِىٓۖ إِنَّكَ أَنتَ ٱلْوَهَّابُ
اور کہا کہ "اے میرے رب، مجھے معاف کر دے اور مجھے وہ بادشاہی دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزاوار نہ ہو، بیشک تو ہی اصل داتا ہے"
1 | سلسلہ کلام کے لحاظ سے اس جگہ اصل مقصد یہی واقعہ بیان کرنا ہے اور پچھلی آیات اسی کے لیے بطور تمہید ارشاد ہوئی ہیں۔ جس طرح پہلے حضرت داؤد کی تعریف کی گئی،پھر اس واقعہ کا ذکر کیا گیا جس میں وہ مبتلائے فتنہ ہو گئے تھے، پھر بتایا گیا کہ اللہ جل شانہ نے اپنے ایسے محبوب بندے کو بھی محاسبہ کیے بغیر نہ چھوڑا، پھر ان کی یہ شان دکھائی گئی کہ فتنے پر متنبہ ہوتے ہی وہ تائب ہو گئے اور اللہ کے آگے جھک کر انہوں نے اپنے اس فعل سے رجوع کر لیا، اسے طرح یہاں بھی ترتیبِ کلام یہ ہے کہ پہلے حضرت سلیمان علیہ السلام کے مرتبہ بلند اور شانِ بندگی کا ذکر کیا گیا ہے، پھر بتایا گیا ہے کہ ان کو بھی آزمائش میں ڈالا گیا پھر ان کی یہ شان بندگی دکھائی گئی ہے کہ جب ان کی کرسی پر ایک جسد لا کر ڈال دیا گیا تو وہ فوراً ہی اپنی لغزش پر متنبہ ہو گئے اور اپنے رب سے معافی مانگ کر انہوں نے اپنی اس بات سے رجوع کر لیا جس کی وجہ سے وہ فتنے میں پڑے تھے۔ بالفاظِ دیگر اللہ تعالٰی ان دونوں قصوں سے بیک وقت دو باتیں ذہن نشین کرانا چاہتا ہے۔ ایک یہ کہ اس کے بے لاگ محاسبے سے انبیاء تک نہیں بچ سکے ہیں، تابدیگراں چہ رسد۔ دوسرے یہ کہ بندے کے لیے صحیح رویہ قصور کر کے اکڑنا نہیں ہے بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ جس وقت بھی اسے اپنی غلطی کا احساس ہو جائے اسی وقت وہ عاجزی کے ساتھ اپنے رب کے آگے جھک جائے۔ اسی رویہ کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے ان بزرگوں کی لغزشوں کو محض معاف ہی نہیں کیا بلکہ ان کو اور زیادہ الطاف و عنایات سے نوازا۔ یہاں پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے وہ فتنہ کیا تھا جس میں حضرت سلیمان علیہ السلام پڑ گئے تھے؟ اور ان کی کرسی پر ایک جَسَد لا کر ڈال دینے کا کیا مطلب ہے؟ اور اس جَسَد کا لا کر ڈالا جانا ان کے لیے کس نوعیت کی تنبیہ تھی جس پر انہوں نے توبہ کی؟ اس کے جواب میں مفسرین نے چار مختلف مسلک اختیار کیے ہیں۔ ایک گروہ نے ایک لمبا چوڑا افسانہ بیان کیا ہے جس کی تفصیلات میں ان کے درمیان بہت کچھ اختلافات ہیں۔ مگر سب کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سلیمانؑ سے یا تو یہ قصور ہوا تھا کہ ان کے محل میں ایک بیگم چالیس دن تک بت پرستی کرتی رہی اور وہ اس سے بے خبر رہے، یا یہ کہ وہ چند روز تک گھر میں بیٹھے رہے اور کسی مظلوم کی داد رسی نہ کی۔ اس پر ان کو یہ سزا ملی کہ ایک شیطان کسی نہ کسی طرح ان کی وہ انگوٹھی اُڑا لے گیا جس کی بدولت وہ جن و انس اور ہواؤں پر حکومت کرتے تھے۔ انگوٹھی ہاتھ سے جاتے ہی حضر ت سلیمانؑ کا سارا اقتدار چھن گیا اور وہ چالیس دن تک دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرے۔ اور اس دوران میں وہ شیطان، سلیمانؑ بنا ہوا حکمرانی کرتا رہا۔ سلیمانؑ کی کرسی پر ایک جسد لا کر ڈال دینے سے مراد یہی شیطان ہے جو کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔ بعض حضرات یہاں تک بھی کہہ گزرتے ہیں کہ اس زمانے میں اس شیطان سے حرمِ سلیمانی کی خواتین تک کی عصمت محفوظ نہ رہی۔ آخر کار سلطنت کے اعیان و اکابر اور علماء کو اس کی کاروائیاں دیکھ کر شک ہو گیا کہ یہ سلیمان نہیں ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس کے سامنے توراۃ کھولی اور وہ ڈر کر بھاگ نکلا۔ راستے میں انگوٹھی اس کے ہاتھ سے سمندر میں گر گئی،یا خود اُسی نے پھینک دی، اور اسے ایک مچھلی نے نگل لیا۔ پھر اتفاق سے وہ مچھلی سلیمان کو مل گئی۔ اسے پکانے کے لیے انہوں نے اس کا پیٹ جو چاک کیا تو انگوٹھی نکل آئی اور اس کا ہاتھ آنا تھا کہ جن و انس سب سلام کرتے ہوئے ان کے سامنے حاضر ہو گئے ـــــــــــ یہ پورا افسانہ از سر تا پا خرافات پر مشتمل ہے جنہیں نو مسلم اہل کتاب نے تلمود اور دوسرے اسرائیلی روایات سے اخذ کر کے مسلمانوں میں پھیلا دیا تھا اور حیرت ہے کہ ہمارے ہاں کے بڑے بڑے لوگوں نے ان کو قرآن کے مجملات کی تفصیلات سمجھ کر اپنی زبان سے نقل کر دیا۔ حالانکہ نہ انگشتری سلیمانی کی کوئی حقیقت ہے، نہ حضرت سلیمان کے کمالات کسی انگشتری کے کرشمے تھے، نہ شیاطین کو اللہ نے یہ قدرت دی ہے کہ انبیاء کی شکل بنا کر آئیں اور خلقِ خدا کو گمراہ کریں، اور نہ اللہ تعالٰی کے متعلق یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ کسی نبی کے قصور کی سزا ایسی فتنہ انگیز شکل میں سے جس سے شیطان نبی بن یر ایک پوری اُمت کا ستیاناس کر دے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قرآن خود اس تفسیر کی تردید کر رہا ہے۔ آگے آیات میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ جب یہ آزمائش حضرت سلیمان کو پیش آئی اور انہوں نے ہم سے معافی مانگ لی تب ہم نے ہوا اور شیاطین کو ان کے لیے مسخر کر دیا۔ لیکن یہ تفسیر اس کے برعکس یہ بتا رہی ہے کہ شیاطین پہلے ہی انگشتری کے طفیل حضرت سلمان کے تابع فرمان تھے۔ تعجب ہے کہ جن بزرگوں نے یہ تفسیر بیان کی ہے انہوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ بعد کی آیات کیا کہہ رہی ہیں۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے ہاں 20 سال کے بعد ایک لڑکا پیدا ہوا۔ شیاطین کو خطرہ ہوا کہ اگر سلیمانؑ کے بعد یہ بادشاہ ہو گیا تو ہم پھر اسی غلامی میں مبتلا رہیں گے، اس لیے انہوں نے اسے قتل کر دینے کی ٹھانی۔ حضرت سلیمانؑ کو اس کا علم ہو گیا اور انہوں نے اس لڑکے کو بادلوں میں چھپا دیا تا کہ وہیں اس کی پرورش ہوتی رہے۔ یہی وہ فتنہ تھا جس میں حضرت مبتلا ہوئے تھے کہ انہوں نے اللہ پر توکل کرنے کے بجائے بادلوں کی حفاظت پر اعتماد کیا۔ اس کی سزا ان کو دی گئی کہ وہ بچہ مر کر ان کی کرسی پر آ گرا ــــــــــــ یہ افسانہ بھی بالکل بے سروپا اور صریح قرآن کے خلاف ہے، کیونکہ اس میں بھی یہ رفض کر لیا گیا ہے کہ ہوائیں اور شیاطین پہلے سے حضرت سلیمانؑ کے لیے مسخر تھے، حالانکہ قرآن صاف الفاظ میں ان کی تسخیر کو اس فتنے کے بعدکا واقعہ بتا رہا ہے۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ نے ایک روز قسم کھائی کہ آج رات میں اپنی ستّر بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ہر ایک سے ایک مجاہد فی سبیل اللہ پیدا ہو گا، مگر یہ بات کہتے ہوئے انہوں نے اِنشاء اللہ نہ کہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صرف ایک بیوی حاملہ ہوئیں اور ان سے بھی ایک ادھورا بچہ پیدا ہوا جسے دائی نے لا کر حضرت سلیمانؑ کی کرسی پر ڈال دیا۔ یہ حدیث حضرت ابو ہریرہؓ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کی ہے اور سے بخاری و مسلم اور دوسرے محدثین نے متعدد طریقوں سے نقل کیا ہے۔ خود بخاری میں مختلف مقامات پر یہ روایت جن طریقوں سے نقل کی گئی ہے ان میں سے کسی میں بیویوں کی تعداد 60 بیان کی گئی ہے، کسی میں 70، کسی میں 90،اور کسی میں 100۔ جہاں تک اسناد کا تعلق ہے، ان میں سے اکثر روایات کی سند قوی ہے، اور با عتبارِ روایت اسکی صحت میں کلام نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن حدیث کا مضمون صریح عقل کے خلاف ہے اور پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح ہرگز نہ فرمائی ہو گی جس طرح وہ نقل ہوئی ہے۔ بلکہ آپ نے غالباً یہود کی یاوہ گوئیوں کا ذکر کرتے ہوئے کسی موقع پر اسے بطور مثال بیان فرمایا ہو گا، اور سامع کو یہ غلط فہمی لاحق ہو گئی کہ اس بات کو حضورؐ خود بطور واقعہ بیان فرما رہے ہیں۔ ایسی روایات کو محض صحت سند کے زور پر لوگوں کے حلق سے اُتروانے کی کوشش کرنا دین کو مضحکہ بنانا ہے۔ ہر شخص خود حساب لگا کر دیکھ سکتا ہے کہ جاڑے کی طویل ترین رات میں بھی عشا اور فجر کے درمیان دس گیارہ گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں ہوتا۔ اگر بیویوں کی کم سے کم تعداد 60 ہی مان لی جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اس رات بغیر دم لیے فی گھنٹہ 6 بیویوں کے حساب سے مسلسل دس گھنٹے یا گیارہ گھنٹے مباشرت کرتے چلے گئے۔ کیا یہ عملاً ممکن بھی ہے؟ اور کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ حضورؐ نے یہ بات واقعے کے طور پر بیان کی ہو گی؟ پھر حدیث میں یہ بات کہیں نہیں بیان کی گئی ہے کہ قرآن مجید میں حضرت سلیمان کی کرسی پر جس جسد کے ڈالے جانے کا ذکر آیا ہے اس سے مراد یہی ادھورا بچہ ہے۔ اس لیے یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ حضورؐ نے یہ واقعہ اس آیت کی تفسیر کے طور پر بیان فرمایا تھا۔ علاوہ بریں اس بچے کی پیدائش پر حضرت سلیمانؑ کا استغفار کرنا تو سمجھ میں آتا ہے، مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ انہوں نے استغفار کے ساتھ یہ دعا کیوں مانگی کہ ’’مجھے وہ بادشاہی دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزاوار نہ ہو۔‘‘ ایک اور تفسیر جس کو امام رازی ترجیح دیتے ہیں یہ ہے کہ حضرت سلیمان کسی سخت مرض میں مبتلا ہو گئے تھے، یا کسی خطرے کی وجہ سے اس قدر متفکر تھے کہ گھلتے گھلتے وہ بس ہڈی اور چمڑا رہ گئے تھے۔ لیکن یہ تفسیر قرآن کے الفاظ کا ساتھ نہیں دیتی۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’ہم نے سلیمان کو آزمائش میں ڈالا اور اس کی کرسی پر ایک جسد لا کر ڈال دیا، پھر اس نے رجوع کیا۔‘‘ ان الفاظ کو پڑھ کر کوئی شخص بھی یہ نہیں سمجھ سکتا کہ اس جسد سے مراد خود حضرت سلیمان ہیں۔ ان سے تو صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ آزمائش میں ڈالے جانے سے مراد کوئی قصور ہے جو آنجناب سے صادر ہوا تھا۔ اس قصور پر آپ کو تنبیہ اس شکل میں فرمائی گئی کہ آپ کی کرسی پر ایک جسد لا ڈالا گیا، اور اس پر جب آپ کو اپنے قصور کا احساس ہوا تو آپ نے رجوع فرما لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مقام قرآن مجید کے مشکل ترین مقامات میں سے ہے اور حتمی طور پر اس کی کوئی تفسیر بیان کرنے کے لیے ہمیں کوئی یقینی بنیاد نہیں ملتی۔ لیکن حضرت سلیمان کی دعا کے یہ الفاظ کہ ’’اے میرے رب،مجھے معاف کر دے اور مجھ کو وہ بادشاہی دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزاوار نہ ہو‘‘، اگر تاریخ بنی اسرائیل کی روشنی میں پڑھے جائیں تو بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اُن کے دل میں غالباً یہ خواہش تھی کہ ان کے بعد ان کا بیٹا جانشین ہو اور حکومت و فرمانروائی آئندہ انہی کی نسل میں باقی رہے۔ اسی چیز کو اللہ تعالٰی نے ان کے حق میں ’’ فتنہ‘‘ قرار دیا اور اس پر وہ اس وقت متنبہ ہوئے جب ان کا ولی عہد رَجُبعام ایک ایسا نالائق نوجوان بن کر اُٹھا جس کے لچھن صاف بتا رہے تھے کہ وہ داؤد و سلیمان علیہما السلام کی سلطنت چار دن بھی نہ سنبھال سکے گا۔ ان کی کرسی پر ایک جَسَد لا کر ڈالے جانے کا مطلب غالباً یہی ہے کہ جس بیٹے کو وہ اپنی کرسی پر بٹھانا چاہتے تھے وہ ایک کندہ نا تراش تھا۔ تب انہوں نے اپنی اس خواہش سے رجوع کیا، اور اللہ تعالٰی سے معافی مانگ کر درخواست کی کہ بس یہ بادشاہی مجھی پر ختم ہو جائے، میں اپنے بعد اپنی نسل میں بادشاہی جاری رہنے کی تمنا سے باز آیا۔ بنی اسرائیل کی تاریخ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ نے اپنے بعد کسی کے لیے بھی جانشینی کی نہ وصیت کی اور نہ کسی کی اطاعت کے لیے لوگوں کو پابند کیا۔ بعد میں ان کے اعیانِ سلطنت نے رجبعام کو تخت پر بٹھایا، مگر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ بنی اسرائیل کے دس قبیلے شمالی فلسطین کاعلاقہ لے کر الگ ہو گئے اور صرف یہوداہ کا قبیلہ بیت المقدس کے تخت سے وابستہ رہ گیا۔ |