Ayats Found (4)
Surah 27 : Ayat 20
وَتَفَقَّدَ ٱلطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِىَ لَآ أَرَى ٱلْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ ٱلْغَآئِبِينَ
(ایک اور موقع پر) سلیمانؑ نے پرندوں کا جائزہ1 لیا اور کہا “کیا بات ہے کہ میں فلاں ہُد ہُد کو نہیں دیکھ رہا ہوں کیا وہ کہیں غائب ہو گیا ہے؟
1 | یعنی ان پرندوں کا جن کےمتعلق اوپر زکرکیاجاچکا ہےکہ جن اورانس کی طرح ان کے لشکر بھی حضرت سلیمانؑ کے عسا کر میں شامل تھے ممکن ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ان سے خبررسانی، شکار اوراسی طرح کے دوسرے کام لیتے ہوں۔ |
Surah 27 : Ayat 24
وَجَدتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِن دُونِ ٱللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ ٱلشَّيْطَـٰنُ أَعْمَـٰلَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ ٱلسَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ
میں نے دیکھا ہے کہ وہ اور اس کی قوم اللہ کے بجائے سورج کے آگے سجدہ1 کرتی ہے2" شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیے3 اور انہیں شاہراہ سے روک دیا، اس وجہ سے وہ یہ سیدھا راستہ نہیں پاتے
3 | یعنی دنیا کی دولت کمانے اوراپنی زندگی کوزیادہ سے زیادہ شاندار بنانے کے جس کام میں وہ منہمک تھے۔ شیطان نے اُن کو سجھادیا کہ بس یہی عقل وفکر کاایک مصرف اورقوائے زہنی وجسمانی کا ایک استعمال ہے، اس سے زیادہ کسی چیز پرسنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی حاجت ہی نہیں ہے کہ تم خواہ مخواہ اس فکر میں پڑو کہ اس ظاہر حیات ودنیا کے پیچھے حقیقت واقعیہ کیا ہے اورتمہارے مزہب، اخلاق ،تہزیب اورنظام حیات کی بنیادیں اس حقیقت سے مطابقت رکھتی ہیں سراسر اس کے خلاف جارہی ہیں۔ شیطان نے ان کومطمئن کردیاکہ جب تم دنیا میں دولت اورطاقت اورشان وشوکت کے لحاظ سے بڑھتے ہی چلے جارہے ہوتو پھر تمہیں یہ سوچ کی ضرورت ہی کیا ہے کہ ہمارے یہ عقائد اورفلسفے اورنظریے تھیک ہیں یانہیں۔ ان کے تھیک ہونے کی تو یہی ایک دلیل کافی ہے کہ تم مزے سے دولت کمارہے ہو اور عیش اُڑارہے ہو۔ |
2 | انداز کلام سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں سے آخر پیراگراف تک کی عبارت ہدہد کے کلام کاجز نہیں ہے بلکہ ’’سورج کے آگے سجدہ کرتی ہے‘‘ پر اس کی بات ختم ہوگئی اوراس کے بعد اب یہ ارشاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر بطور اضافہ ہے۔ اس قیاس کوجوچیز تقویت دیتی ہے وہ یہ فقرہ ہے یعلم ماتخفون وماتعلینون،’’ اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم چھپاتے ہو اورظاہر کرتے‘‘۔ ان الفاظ سے یہ گمان غالب ہوتا ہے کہ متکلم ہدہد مخاطب حضرت سلیمان اور ان کے اہل دربارنہیں ہیں، بلکہ متکلم اللہ تعالیٰ اور مخاطب مشرکین مکہ ہیں جن کو نصیحت کرنے ہی کےلیے یہ قصّہ سنایا جارہا ہے۔ مفسرین میں سے علامہ آلوسی، صاحب روح اامعانی بھی اسی قیاس کو ترجیح دیتے ہیں۔ |
1 | اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم اس زمانہ میں آفتاب پرستی کے مزہب کی پیروتھی۔ عرب کی قدیم روایات سے بھی اس کایہی مزہب معلوم ہوتا ہے چنانچہ ابن اسحاق علمائے انساب کایہ قول نقل کرتاہے کہ سبا کی قوم دراصل ایک مورث اعلیٰ کی طرف منسوب ہے جس کانام عبدِشمس(بندہ آفتاب یاسورج کاپرستار) اورلقب سباتھا۔ بنی اسرئیل کی روایات بھی اس کی تائید کرتی ہیں۔ ان میں بیان کیاگیا ہے کہ ہدہد جب حضرت سلیمانؑ کاخط لے کرپہنچا تو ملکہء سباسورج دیوتا کی پرستش لےلیے جارہی تھی۔ ہد ہد نے راستےہی میں وہ خط ملکہ کے سامنے پھینک دیا۔ |
Surah 27 : Ayat 25
أَلَّا يَسْجُدُواْ لِلَّهِ ٱلَّذِى يُخْرِجُ ٱلْخَبْءَ فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ
کہ اُس خدا کو سجدہ کریں جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں نکالتا ہے 1اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم لوگ چھپاتے ہو اور ظاہر کرتے ہو2
2 | یعنی اس کا علم ہرچیز پرحاوی ہے۔ اس کےلیے ظاہر اورمخفی سب یکساں ہیں۔ اس پرسب کچھ عیاں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ان دوصفات کوبطور نمونہ بیان کرنے سے مقصود دراصل یہ زہن نشین کرنا ہے کہ اگر وہ لوگ شیطان کے دھوکے میں نہ آتے تو یہ سیدھا راستہ انہیں صاف نظر آسکتا تھا کہ آفتاب نامی ایک دہکتا ہوا کُرہ ، جوبیچارہ خود اپنے وجود کا ہوش بھی نہیں رکھتا، کسی عبادت کا مستحق نہیں ہے، بلکہ صرف وہ ہستی اس کا استحاق رکھتی ہے جوعلیم وخبیر ہے اورجس کی قدرت ہرلحظہ نئے نئے کرشمے ظہورمیں لارہی ہے۔ |
1 | یعنی ہرآن اُن چیزوں کو ظہور میں لارہا ہے جوپیدائش سے پہلے نہ معلوم کہاں کہاں پوشیدہ تھیں۔ زمین کے پیٹ سےہرآن بےشمار نباتات نکال رہا ہے اورطرح طرح کے معدنیات خارج کررہا ہے۔ عالم بالا کی فضاؤں سے وہ چیز سامنے لارہا ہے جن کے ظہور میں آنےسے پہلے انسان کاوہم وگمان بھی ان تک نہ پہنچ سکتا تھا۔ |
Surah 27 : Ayat 26
ٱللَّهُ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ ٱلْعَرْشِ ٱلْعَظِيمِ ۩
اللہ کہ جس کے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں، جو عرش عظیم کا مالک ہے1
1 | اس مقام پر سجدہ واجب ہے۔ یہ قرآن کے اُن مقامات میں سے ہے جہاں سجدہ تلاوت واجب ہونے پرفقہاء کا اتفاق ہے۔ یہاں سجدہ کرنے سے مقصود یہ ہے کہ ایک مومن اپنے آپ کو آفتاب پرستوں سے جداکرے اور اپنے عمل سے اس بات کا اقرار واظہار کرے کہ وہ آفتاب کونہیں بلکہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا مسجودو معبود مانتا ہے۔ |