Ayats Found (2)
Surah 27 : Ayat 18
حَتَّىٰٓ إِذَآ أَتَوْاْ عَلَىٰ وَادِ ٱلنَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّمْلُ ٱدْخُلُواْ مَسَـٰكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَـٰنُ وَجُنُودُهُۥ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
(ایک مرتبہ وہ ان کے ساتھ کوچ کر رہا تھا) یہاں تک کہ جب یہ سب چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا "“اے چیونٹیو، اپنے بلوں میں گھس جاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمانؑ اور اس کے لشکر تمہیں کچل ڈالیں اور انہیں خبر بھی نہ ہو"1
1 | اس آیت کو بھی آج کل کے مفسرین نے تاویل کے خراوپر چڑھایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وادی النمل سے مراد چیونٹیوں کی وادی نہیں ہے بلکہ یہ ایک وادی کانام ہے جو شام کے علاقے میں تھی اور نملۃ کے معنی ایک چیونٹی کے نہیں ہیں بلکہ یہ ایک قبیلہ کانام ہے ۔اس طرح وہ آیت کا مطلب یہ بیان کرتےہیں کہ ’’جب حضرت سلیمان ؑ وادی النمل میں پہنچے تو ایک نملی نے کہا کہ اے قبیلہ نمل کےلوگو۔۔۔۔۔۔۔‘‘ لیکن یہ بھی ایسی تاویل ہے جس کا ساتھ قرآن کے الفاظ نہیں دیتے۔ اگربالفرض وادی کو اُس وادی کانام مان لیا جائے، اور یہ بھی مان لیا جائے کہ وہاں بنی النمل نام کاکوئی قبیلہ رہتا تھا، تب بھی یہ بات عربی زبان کےاستعمال کے بالکل خلاف ہے کہ قبیلہء نمل کے ایک فرد کو نملہ کہا جائے۔ اگرچہ جانوروں کے نام پر عرب کے بہت سے قبائل کےنام ہیں، مثلاََ کلب ، اسد وغیرہ۔ لیکن کوئی عرب قبیلہء کلب کے کسی فرد کے متعلق قال کلب (ایک کتے نےیہ کہا) یا قبیلہ اسد کے کسی شخص کے متعلق قَالَ اَسَدٌ (ایک شیر نے کہا) ہرگز نہیں بولے گا اس لیے بنی النمل کےایک فرد کے متعلق یہ کہنا کہ قالتنملۃٌ(ایک چیونٹی یہ بولی) قطعاََ عربی محاورہ واستعمال کےخلاف ہے۔ پھر قبیلہ نمل کے ایک فرد کا بنی النمل کو پکاکر کہتا کہ ’’اے نملیو، اپنے گھروں میں گھُس جاؤ کہیں ایسانہ ہو کہ سلیمان ؑ کے لشکر تم کو کچل ڈالیں اور انہیں خبر بھی نہ ہو‘‘ بالکل بے معنی ہے۔ انسانوں کے کسی گروہ کو انسانوں کا کوئی لشکر بے خبری میں نہیں کچلا کرتا۔ اگر وہ اُن پر حملے کی نیت سے ہو تو اُن کا اپنے گھروں میں جانالا حاصل ہے۔ حملہ آور اُن کے گھروں میں گھس کر انہیں اور زیادہ اچھی طرح کچلیں گے۔ اوراگر وہ محض کوچ کرتا ہُواگزررہا ہو تو اس کےلیے بس راستہ صاف چھوڑدینا کافی ہے۔ کوچ کرنے والوں کی لبیٹ میں آکر انسانوں کو نقصان تو پہنچ سکتا ہے، مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ جلتے ہوئے انسان بے خبری میں انسانوں کو کچل ڈالیں۔ لٰہزا اگر بنی النمل کوئی انسانی قبیلہ ہوتا اور س کا کوئی فرد اپنے قبیلے کے لوگوں کو خبردار کرنا چاہتا تو حملے کے خطرے کی صورت میں وہ کہتا کہ ’’اے نمیلوبھاگ چلواور پہاڑوں میں پناہ لوتاکہ سلیمان کے لشکر تمہیں تباہ کردیں‘‘ اور حملے کاخطرہ نہ ہونے کی صورت میں وہ کہتا کہ’’اے نمیلو راستہ سے ہٹ جاؤ کہ تم سے کوئی شخص سلیمانؑ کے لشکروں کی جھپیٹ میں نہ آجائے‘‘۔ یہ تو وہ غلطی ہے جو اس تاویل میں عربی زبان اور مضمونِِ عبارت کے اعتبارسے ہے۔ رہی یہ بات کہ وادی النمل دراصل اس وادی کانام تھا، اوروہاں بنی النمل نامی کوئی قبیلہ رہتا تھا، یہ محض ایک مفروضہ ہے جس کےلیے کوئی علمی ثبوت موجود نہیں ہے۔ جن لوگوں نے اسے وادی کانام قراردیا ہے انہوں نے خود یہ تصریح کی ہے کہ اسے چیونٹیوں کی کثرت کے باعث یہ نام دیا گیا۔ قرادہ اور مقاتل کہتے ہین کہ وادبارض الشام کثیرالنمل ’’ وہ ایک وادی ہےسرزمین شام جہاں چیونٹیاں بہت ہیں‘‘۔ لیکن تاریخ وجغرافیہ کی کسی کتاب میں اور آثار قدیمہ کی کسی تحقیقات میں یہ مزکور نہیں ہے کہ وادی میں بنی النمل نامی کوئی قبیلہ بھی رہتا تھا۔ یہ صرف ایک من گھڑت ہے جو اینی تاویل کی گاڑی چلانے لےلیے وضع کرلی گئی ہے۔ بنی اسرائیل کی روایات میں بھی یہ قصہ پایا جاتا ہے۔ مگر اس کا آخری حصّہ قرآن کے خلاف ہے اور حضرت سلیمانؑ کی شان کے خلاف بھی ہے۔ اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت سلیمان ؑ جب ایک وادی سے گزر رہے تھے جس میں چیونٹیاں بہت تھیں تو انہوں نے سنا کہ ایک چیونٹی بکار کر دوسری چیونٹیوں سے کہہ رہی ہے کہ ’’ اپنے گھروں میں داخل ہوجاؤ ورنہ سلیمانؑ کے لشکر تمہیں کچل ڈالیں گے‘‘ اس پر حضرت سلیمانؑ نے اس چیونٹی کے سامنے بڑےتکبر کااظہار کیا اور جواب میں اس چیونٹی نے ان سے کہا کہ تمہاری حقیقت کیا ہے ایک حقیر بوند سے تو تم پیداہوئے ہو۔ یہ سن کر حضرت سلیمانؑ شرمندہ ہوگئے (جیوش انسائکلو پیڈیا،ج۱۱،ص۴۴۰)۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن کس طرح بنی اسرئیل کی غلط روایات کی تصیح کرتا ہے اور ان گندگیوں کو صاف کرتا ہے جو انہوں نے خود اپنے پیغمبروں کی سیرتوں پر ڈال دی تھیں ان روایات کے متعلق مغربی مستشرقین بےشرمی کے ساتھ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن نے سب کچھ ان سے سرقہ کرلیاہے۔ عملی حثیت سے یہ بات کچھ بھی بعید نہیں ہے کہ ایک چیونٹی اپنی جنس کے افراد کو کسی آتے ہوئے خطرلے سے خبردار کرے اور بلوں میں گھس جانے کےلیے کہے۔ رہی یہ بات حضرت سلیمانؑ نے اس کی بات کیسے سُن لی، تو جس شخص کے حواس کلامِ وحی جیسی لطیف چیز کا ادراک کرسکتے ہوں، اس کےلیے چیونٹی کے کلام جیسی کثیف (Crude) چیز کا ادراک کرلینا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ |
Surah 27 : Ayat 19
فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّن قَوْلِهَا وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِىٓ أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ ٱلَّتِىٓ أَنْعَمْتَ عَلَىَّ وَعَلَىٰ وَٲلِدَىَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَـٰلِحًا تَرْضَـٰهُ وَأَدْخِلْنِى بِرَحْمَتِكَ فِى عِبَادِكَ ٱلصَّـٰلِحِينَ
سلیمانؑ اس کی بات پر مُسکراتے ہوئے ہنس پڑا اور بولا "اے میرے رب، مجھے قابو میں رکھ1 کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کرتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور ایسا عمل صالح کروں جو تجھے پسند آئے اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر"2
2 | صالح بندوں میںداخل کرنے سے مراد غالباََ یہ ہے کہ آخرت میں میرا انجام صالح بندوں کے ساتھ ہواور میں ان کے ساتھ جنت میں داخل ہوں۔ اس لیے کہ آدمی جب عمل کرے صالح کرے گا تو صالح تو وہ آپ سے آپ ہوگاہی البتہ آخرت میں کسی کا جنت میں داخل ہونا محض اس کے عمل صالح کے بل بوتے پر نہیں ہوسکتا بلکہ یہ اللہ کی رحمت پر موقوف ہے حدیث میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ ﷺ نے فرمایا کہ لن یدخل احدکم الجنۃ عملہ’’ تم میں سے کسی کو بھی محض اس کا عمل جنت میں نہیں پہنچائے گا‘‘ عرض کیا گیا کہ ولا انت یارسول اللہ ’’ کیا حضورﷺ کے ساتھ یہی معاملہ ہے‘‘فرمایا ولا انا الا ان یتغمد نی اللہ تعالٰی برحمتہ’’ہاں میں بھی اپنے عمل کے بل بوتے پرجنت میں نہ چلاجاؤں گا جب تک اللہ تعالٰی اپنی رحمت سے مجھے نہ ڈھانک لے‘‘ حضرت سلیمانؑ کی یہ دیا اس موقع پر بلکل بےمحل ہوجاتی ہے کہ اگر النمل سے مراد انسانوں کاکوئی قیبلہ لے لیا جائے اور نملتہ کے معنی قبیلہ نمل کے ایک فرد کےلیے جائیں۔ ایک بادشاہ کے لشکرجرارسے ڈرکرکسی انسانی قبیلہ کے ایک فرد کا اپنے قبیلے کو خطرہ سے خبردار کرنا آخر کونسی ایسی غیر معمولی بات ہے کہ جلیل القدر بادشاہ اس پر خدا سے یہ دعا کرنے لگے۔ البتہ ایک شخص کو اتنی زبردست قوت ادراک حاصل ہونا کہ وہ دور سے ایک چیونٹی کی آواز بھی سن لے اور اس کا مطلب سمجھ جائے ضرور ایسی بات ہے جس سے آدمی کے غرورنفس میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہو۔ اسی صورت میں حضرت سلیمانؑ کی یہ دعا برمحل ہے |
1 | اصلی الفاظ ہیں رب اوزدعنی۔ وزع کے اصل معنی زبان میں روکنے کے ہیں۔ اس موقع پرحضرت سلیمانؑ کایہ کہنا کہ اوزعنی ان اشکرنعمتک (مجھے روک کہ میںتیرے احسان کا شکرادا کروں) ہمارے نزدیک دراصل یہ معنی دیتا ہےکہ اے میرے رب جو عظیم الشان قوتیں اور قابلیتیں تو نے مجھے دی ہین وہ ایسی ہیں کہ اگر میں ذرا سی غفلت میں بھی مبتلا ہوجان تو حدّ بندگی سے خارج ہوکر اپنی کبریائی کے خبط میں نہ معلوم کہاں سے کہاں نکل جاؤں۔ اس لیے اے میرے پروردگار ،تو مجھے قابو میں رکھ تاکہ میں کافر نعمت بننے کے بجائے شکر نعمت پر قائم رہوں۔ |