Ayats Found (1)
Surah 27 : Ayat 17
وَحُشِرَ لِسُلَيْمَـٰنَ جُنُودُهُۥ مِنَ ٱلْجِنِّ وَٱلْإِنسِ وَٱلطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ
سلیمانؑ کے لیے جن اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے تھے اور وہ پورے ضبط میں رکھے جاتے تھے1
1 | بائیبل میں اس کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے کہ جن حضرت سلیمان کے لشکروں میں شامل تھے اور وہ ان سے خدمت لیتے تھے۔ لیکن تلمود اور ربّیوں کی روایات میں اس کا تفصیلی ذکر ملتا ہے (جیوش انسائکلوپیڈیاجلد ۱۱صفحہ۴۴۰)۔ موجودہ زمانہ کے بعض لوگوں نے یہ ثابت کرنے کےلیے ایڑی چوٹی کا زورلگایا ہے کہ جن اور طیر سے مراد جنات اور پرندے نہیں بلکہ انسان ہی ہیں جو حضرت سلیمان ؑکے لشکرمیں مختلف کام کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ جن سے مراد پیہاڑی قبائل کے وہ لوگ ہیں جنہیں حضرت سلیمان مسخر کیا تھا اور وہ ان کے ہاں حیرت انگیز طاقت اور محنت کے کام کرتے تھےاور طیر سے مراد گھوڑے سواروں کے دستے ہیں جو پیدل دستوں کی بہ نسبت بہت زیادہ تیزی سے نقل و حرکت کرتے تھے۔ لیکن یہ قرآن مجید میں بےجا تاویل کی بد ترین مثالیں ہیں۔ قرآن یہاں جن، انس اور طیر، تین الگ الگ اقسام کے لشکر بیان کررہاہے اور تینوں پر الف ل تعریف جنس کےلیےلایا گیا ہے۔ اس لیے لا محالہ الجن اور الطیر،الانس میں شامل نہیں ہوسکتے بلکہ وہ اس سے مختلف دو الگ اجناس ہی ہو سکتی ہیں۰ علاوہ بریں کو ئی شخص جو عربی زبان سے ذڑہ برابر بھی واقفیت رکھتا ہو، یہ تصویر نہیں کرسکتا کہ اس زبان میں محض لفظ الجن بول کر انسانوں کا کوئی گروہ، یا محض الطیر بول کر سواروں کا رسالہ کبھی مراد کبھی مراد لیا جاسکتا ہےاورکوئی عرب ان الفاظ کو سن کر ان کے معنی سمجھ سکتا ہے ۔محض محاورے میں کسی انسان کو اس کے فوق العادۃ کام کی وجہ سے جن، یا کسی عورت کو اس کے حسن کی وجہ سے پری، اور کسی تیز آدمی کوپرندہ کہہ دینا یہ معنی نہیں رکھتا کہ اب جن کے معنی طاقت ور آدمی اور پری کےمعنی عور اور پرندے کے معنی تیز رفتار انسان ہی کے ہوجائیں ۔ ان الفاظ کےیہ معنی تو مجازی ہیں نہ کہ حقیقی، اور کسی کلام میں کسی لفظ کو حقیقی معنی چھوڑ کر مجازی معنوں میں صرف اُسی وقت استعمال کیا جاتا ہے اور سننے والے بھی ان کو مجازی معنوں میں صرف اُسی وقت لےسکتے ہیں جب کہ آس پاس کوئی واضح قرینہ ایسا موجود ہو جو اس کے مجاز ہونے پردلالت کرتا ہو یہاں آخر کونسا قرینا پایاجاتا ہےجس سےیہ گمان کیا جاسکے کہ جن اور طیر کے الفاظ اپنے حقیقی لغوی معنوں میں نہیں بلکہ مجازی معنوں میں استعمال کیےگئے ہیں؟ بلکہ آگے ان دونوں گروہوں کے ایک ایک فرد کا جو حال اور کام بیان کیا گیا ہے وہ تو اس تاویل کے بالکل خلاف معنی پرصریح دلالت کر رہا ہے۔ کسی شخص کا دل اگر قرآن کی بات پر یقین نہ کرنا چاہتا ہو تو اسے صاف کہنا چاہیے کہ میں اس باگت کو نہیں مانتا۔ لیکن یہ بڑی اخلاقی بزدلی اور علمی خیانت ہے کہ آدمی قرآن کے صاف صاف الفاظ کو توڑ مروڑ کر اپنے من مانے معنی پر ڈھالےوہ یہ ظاہر کرے کہ وہ قرآن کے بیان کو مانتا ہے، حالانکہ دراصل قرآن نے جوکچھ بیان کیا ہے وہ اسے نہیں بلکہ خود اپنے زبردستی گھڑے ہوئے مفہوم کو مانتا ہے۔ |