Ayats Found (4)
Surah 21 : Ayat 82
وَمِنَ ٱلشَّيَـٰطِينِ مَن يَغُوصُونَ لَهُۥ وَيَعْمَلُونَ عَمَلاً دُونَ ذَٲلِكَۖ وَكُنَّا لَهُمْ حَـٰفِظِينَ
اور شیاطین میں سے ہم نے ایسے بہت سوں کو اس کا تابع بنا دیا تھا جو اس کے لیے غوطے لگاتے اور اس کے سوا دُوسرے کام کرتے تھے ان سب کے نگران ہم ہی تھے1
1 | سورہ سَبَا میں اس کی تفصیل یہ آئی ہے : وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ یَّعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْہِ بِاِ ذْنِ رَبِّہٖ وَمَنْ یَّزِغُ مِنْھُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْہُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیْرِ ۔ ہ ۔ یَعْمَلُوْنَ لَہٗ مَا یَشَآ ءُ مِنْ مَّحَارِیْبَ وَ تَمَاثِیْلَ وَجِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَقُدُوْرٍ رَّ اسِیَاتٍ .................... فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْہِ الْمَوْتَ مَا دَ لَّہُمْ عَلٰ مَوْتِہٖٓ اِلَّا دَآبَّۃُ الْاَرْضِ تَاْ کَلُ مِنْسَاَتَہٗ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ کَا نُوْ ا یَعْلَمُوْ نَ الْغَیْبَ مَلَبِثُوْ ا فِی الْعَذَابِ الْمُھِیْنِ ’’ اور جنوں میں سے ایسے جن ہم نے اس کے لیے مسخر کر دیے تھے جو اس کے رب کے حکم سے اس کے آگے کام کرتے تھے ، اور جو ہمارے حکم سے کوئی ان میں سے انحراف کر تا تو ہم اس کو بھڑکتی ہوئی آگ کا مزا چکھاتے ۔ وہ اس کے لیے جیسے وہ چاہتا قصر اور مجسمے اور حوض جیسے بڑے بڑے لگن اور بھاری جمی ہوئی دیگیں بناتے تھے ......................... پھر جب ہم نے سلیمان کو وفات دے دی تو ان جنوں کو اس کی موت پر مطلع کرنے والی کوئی چیز نہ تھی مگر زمین کا کیڑا (یعنی گھن) جو اس کے عصا کو کھا رہا تھا ۔ پس جب وہ گر پڑا تو جنوں کو پتہ چل گیا کہ اگر وہ واقعی غیب داں ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں اتنی مدت تک مبتلا نہ رہتے ‘‘۔ اس آیت سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ جو شیاطین حضرت سلیمان کے لیے مسخر ہوئے تھے ، اور جو ان کے لیے مختلف خدمات انجام دیتے تھے ، وہ جن تھے ، اور جن بھی جن جن کے بارے میں مشرکین عرب کا یہ عقیدہ تھا، اور جو خود اپنے بارے میں بھی یہ غلط فہمی رکھتے تھے کہ ان کو علم غیب حاصل ہے ۔ اب ہر شخص جو قرآن مجید کو آنکھیں کھول کر پڑھے ، اور اس کو اپنے تعصبات اور پیشگی قائم کیے ہوۓ نظریات کا تابع بناۓ بغیر پڑھے ، یہ خود دیکھ سکتا ہے کہ جہاں قرآن مطلق ’’ شیطان ‘‘ اور ’’جن ‘‘کے الفاظ استعمال کرتا ہے وہاں اس کی مراد کونسی مخلوق ہوتی ہے ، اور قرآن کی رو سے وہ کون سے جِن ہیں جن کو مشرکین عرب عالم الغیب سمجھتے تھے ۔ جدید زمانے کے مفسرین یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں کہ وہ جن اور شیاطین جو حضرت سلیمان کے لیے مسخر کیے گئے تھے ، انسان تھے اور آس پاس کی قوموں میں سے فراہم ہوئے تھے ۔ لیکن صرف یہی نہیں کہ قرآن کے الفاظ میں ان کی اس تاویل کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے ، بلکہ قرآن میں جہا ں جہاں بھی یہ قصہ آیا ہے وہاں کا سیاق و سباق اور انداز بیان اس تاویل کو راہ دینے صاف انکار کرتا ہے ۔ حضرت سلیمان کے لیے عمارتیں بنانے والے اگر انسان ہی تھے تو آخر یہ ان ہی کی کونسی خصوصیت تھی جس کو اس شان سے قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے ۔ اہرام مصری سے لے کر نیویارک کی فلک شگاف عمارتوں تک کس چیز کو انسان نے نہیں بنایا ہے اور کس بادشاہ یا رئیس یا ملک التجار کے لیے وہ ’’جن‘‘ اور ’’ شیاطین‘‘ فراہم نہیں ہوۓ جو آپ حضرت سلیمان کے لیے فراہم کر رہے ہیں ؟ |
Surah 34 : Ayat 12
وَلِسُلَيْمَـٰنَ ٱلرِّيحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌۖ وَأَسَلْنَا لَهُۥ عَيْنَ ٱلْقِطْرِۖ وَمِنَ ٱلْجِنِّ مَن يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِۖۦ وَمَن يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ ٱلسَّعِيرِ
اور سلیمانؑ کے لیے ہم نے ہوا کو مسخر کر دیا، صبح کے وقت اس کا چلنا ایک مہینے کی راہ تک اور شام کے وقت اس کا چلنا ایک مہینے کی راہ تک1 ہم نے اُس کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہا دیا2 اور ایسے جن اس کے تابع کر دیے جو اپنے رب کے حکم سے اس کے آگے کام کرتے تھے3 اُن میں سے جو ہمارے حکم سے سرتابی کرتا اس کو ہم بھڑکتی ہوئی آگ کا مزہ چکھاتے
3 | یہ جن جو سلیمان علیہ السلام کے لیے مسخر کیے گیے تھے، آیا یہ دہقانی اور کوہستانی انسان تھے یا واقعی وہی جن تھے جو ایک پوشیدہ مخلوق کی حیثیت سے دنیا بھر میں معروف ہیں، اس مسئلے پر بھی سورہ انبیا اور سورہ نحل کی تفسیر میں ہم مفصل بحث کر چکے ہیں۔(ملا حظہ ہو تفہم القرآن،جلد سوم،الانبیاء،حاشیہ ۷۵،النمل،۲۳۔۴۵۔۵۲۔ |
2 | بعض قدیم مفسرین نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ زمین سے ایک چشمہ حضرت سلیمانؑ کے لیے پھوٹ نکلا تھا جس میں سے پانی کے بجائے پگھلا ہوا تانبہ بہتا تھا۔ لیکن آیت کی دوسری تاویل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے زمانے میں تانبے کو پگھلا نے اور اس سے طرح طرح کی چیزیں بنانے کا کام بڑے پیمانے پر کیا گیا کہ گویا وہاں تانبے کے چشمے بہ رہے تھے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، ص 176) |
1 | یہ مضمون بھی سورہ انبیا آیت 81 میں گزر چکا ہے اور اس کی تشریح وہاں کی جا چکی ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم 176۔177) |
Surah 38 : Ayat 37
وَٱلشَّيَـٰطِينَ كُلَّ بَنَّآءٍ وَغَوَّاصٍ
اور شیاطین کو مسخر کر دیا، ہر طرح کے معمار اور غوطہ خور
Surah 38 : Ayat 39
هَـٰذَا عَطَآؤُنَا فَٱمْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسَابٍ
(ہم نے اُس سے کہا) 1"یہ ہماری بخشش ہے، تجھے اختیار ہے جسے چاہے دے اور جس سے چاہے روک لے، کوئی حساب نہیں"
1 | اس آیت کے تین مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ ہماری بے حساب بخشش ہے، تمہیں اختیار ہے کہ جسے چاہو دو اور جسے چاہے نہ دو۔ دوسرے یہ کہ یہ ہماری بخشش ہے، جسے چاہو دو نہ دو، دینے یا نہ دینے پر تم سے کوئی محاسبہ نہ ہو گا۔ ایک اور مطلب بعض مفسرین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ یہ شیاطین کلیۃً تمہارے تصرف میں دے دیے گئے ہیں، ان میں سے جسے چاہو رہا کر دو اور جسے چاہو روک رکھو، اس پر کوئی محاسبہ تم سے نہ ہو گا۔ |