Ayats Found (1)
Surah 27 : Ayat 16
وَوَرِثَ سُلَيْمَـٰنُ دَاوُۥدَۖ وَقَالَ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ ٱلطَّيْرِ وَأُوتِينَا مِن كُلِّ شَىْءٍۖ إِنَّ هَـٰذَا لَهُوَ ٱلْفَضْلُ ٱلْمُبِينُ
اور داؤدؑ کا وارث سلیمانؑ ہوا1 اور اس نے کہا "“لوگو، ہمیں پرندوں کی بولیاں سکھائی گئی ہیں2 اور ہمیں ہر طرح کی چیزیں دی گئی ہیں3، بیشک یہ (اللہ کا) نمایاں فضل ہے"
3 | یعنی اللہ کادیا ہمارے پاس سب کچھ موجود ہے۔ اس بات کو لفظی معنوں میں لینا درست نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد اللہ کےبخشے ہوئے مال ودولت اور سازوسامان کی کثرت ہے۔ یہ بات حضرت سلیمانؑ نے فخریہ نہیںفرمائی تھی بلکہ اللہ کے فضل اور اس کی عطاوبخشش کا شکریہ ادا کرنا مقصود تھا۔ |
2 | بائیبل اس ذکر سے خالی ہے کہ حضرت سلیمانؑ کو پرندوں اور جانوروں کی بولیوں کا علم دیا گیا تھا۔ لیکن بنی اسرائیل کی روایات میں اس کی صرحت موجود ہے(جیوش اسائکلو پیڈیا۔ جلد ۱۱۔۴۳۹) |
1 | وراثت سے مراد مال و جائداد کی وراثت نہیں بلکہ نبوت اور خلافت میں حضرت داؤد کی جانشینی ہے۔ مال و جائیداد کی میراث اگر بالفرض منتقل ہوئی بھی ہو تو وہ تنہا حضرت سلیمان ہی کی طرف منتقل نہیں ہوسکتی تھی، کیونکہ حضرت داؤدکی دوسری اولاد بھی موجود تھی۔ اس لیے اس آیت کو اُس حدیث کی تردید میں پیش نہیں کیاجاسکتا جو نبی ﷺ سے مروی ہے کہ لا نورث ماترکناصدقۃ، ’’ہم انبیاء کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی، جو کچھ ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے‘‘ (بخاری، کتاب فرض الخمس) اور ان النبی لا یورث انما میراثہ فی فقراء المسلمین والمساکین، ’’نبی کا وارث کوئی نہیں ہوتا ، جو کچھ وہ چھوڑتا ہے وہ مسلمانوں کے فقراء اور مساکین میں تقسیم کیا جاتا ہے‘‘ (مسند احمد، مرویات ابوبکر صدیقؓاحدیث نمبر۷۸،۶۰) حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔ ان کا اصل عبرانی نام سولومون تھا جو ’’سلیم‘‘ کا ہم معنی ہے ۹۶۵قبل مسیح میں حضرت داؤد کے جانشین ہوئے اور۹۲۶ق م تک تقریباََ ۴۰ سال فرمانروارہے۔ ان کے حالات کی تفصیل کےلیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الحجر، حاشیہ۷۔ جلد سوم، الانبیاء، حواشی ۷۴۔۷۵۔ ان کے حدود سلطنت کے متعلق ہمارے مفسرین نے بہت مبالغہ سےکام لیا ہے۔ وہ انہیں دنیا کے بہت بڑے حصّے کا حکمران بتاتے ہیں، حالانکہ ان کی مملکت صرف موجودہ فلسطین وشرقِ اردن پر مشتمل تھی اور شام کا ایک حصّہ بھی اس میں شامل تھا۔ (ملاحظہ ہو نقشہء ملک سلیمان، تفہیم القرآن جلد دوم ص ۵۹۸) |