Ayats Found (2)
Surah 21 : Ayat 79
فَفَهَّمْنَـٰهَا سُلَيْمَـٰنَۚ وَكُلاًّ ءَاتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًاۚ وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُۥدَ ٱلْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَٱلطَّيْرَۚ وَكُنَّا فَـٰعِلِينَ
اُس وقت ہم نے صحیح فیصلہ سلیمانؑ کو سمجھا دیا، حالانکہ حکم اور علم ہم نے دونوں ہی کو عطا کیا تھا1 داؤدؑ کے ساتھ ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخّر کر دیا تھا جو تسبیح کرتے تھے2، اِس فعل کے کرنے والے ہم ہی تھے
2 | مَعَ دَاوٗدَ کے الفاظ ہیں ، لِدَاوٗ د کے الفاظ نہیں ہیں ، یعنی ’’ داوٗد علیہ السلام کے لیے ‘‘ نہیں بلکہ ’’ ان کے ساتھ‘‘ پہاڑ اور پرندے مسخر کیے گئے تھے ، اور اس تسخیر کا حاصل یہ تھا کہ وہ بھی حضرت ممدوح کے ساتھ اللہ کی تسبیح کرتے تھے ۔ یہی بات سورہ ص میں بیان کی گئی ہے ، : اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَلَ مَعَہٗ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِشْرَانِی ہ وَالظَّیْرَ مَحْشُوْرَۃٌ لَّہٗ اَوَّابٌ’’ ہم نے اس کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کر دیا تھا کہ صبح و شام تسبیح کرتے تھے ، اور پرندے بھی مسخر کردیے تھے جو اکٹھے ہو جاتے تھے ، سب اس کی تسبیح کو دوہراتے ‘‘۔ سورہ سبا میں اس کی مزید وضاحت یہ ملتی ہے : یَاجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ ۔ ’’ پہاڑوں کو ہم نے حکم دیا کہ اس کے ساتھ تسبیح دہراؤ اور یہی حکم پرندوں کو دیا‘‘۔ ان ارشادات سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت داؤد جب اللہ کی حمد و ثنا کے گیت گاتے تھے تو ان کی بلند اور سریلی آواز سے پہاڑ گونج اٹھتے تھے ، پرندے ٹھیر جاتے تھے اور ایک سماں بندھ جاتا تھا ۔ اس معنی کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں ذکر آیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ، جو غیر معمولی طور پر خود آواز بزرگ تھے ، قرآن کی تلاوت کر رہے تھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ادھر سے گزرے تو ان کی آواز سن کر کھڑے ہو گئے اور دیر تک سنتے رہے ۔ جب وہ ختم کر چکے تو آپ نے فرمایا : لقداو تی مز ماراً من مزا میراٰل داوٗ د ، یعنی اس شخص کو داؤد ، کی خوش آوازی کا ایک حصہ ملا ہے |
1 | اس واقعے کا ذکر بائیبل میں نہیں ہے ، اور یہودی لٹریچر میں بھی ہمیں اس کا کوئی نشان نہیں ملا ۔ مسلمان مفسرین نے اس کی جو تشریح کی ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص کے کھیت میں دوسرے شخص کی بکریاں رات کے وقت گھس گئی تھیں ۔ اس نے حضرت داؤد کے ہاں استغاثہ کیا ۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس کی بکریاں چھین کر اسے دے دی جائیں ۔ حضرت سلیمان نے اس سے اختلاف کیا اور یہ راۓ دی کہ بکریاں اس وقت تک کھیت والے کے پاس رہیں جب تک بکری والا اس کے کھیت کو پھر سے تیار نہ کر دے ۔ اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ یہ فیصلہ ہم نے سلیمان کو سمجھایا تھا۔ مگر چونکہ مقدمے کی یہ تفصیل قرآن میں بیان نہیں ہوئی ہے اور نہ کسی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کی تصریح نقل ہوئی ہے ، اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس طرح کے مقدمے میں یہی ثابت شدہ اسلامی قانون ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ اور دوسرے فقہاۓ اسلام کے درمیان اس امر میں اختلاف واقع ہوا ہے کہ اگر کسی کا کھیت دوسرے شخص کے جانور خراب کر دیں تو کوئی تاوان عائد ہو گا یا نہیں اور عائد ہو گا تو کس صورت میں ہو گا اور کس صورت میں نہیں ، نیز یہ کہ تاوان کی شکل کیا ہو گی۔ اس سیاق و سباق میں حضرت داؤد و سلیمانؑ کے اس خاص واقعے کا ذکر کرنے سے مقصود یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ انبیاء علیہم السلام نبی ہونے اور اللہ کی طرف سے غیر معمولی طاقتیں اور قابلیتیں پانے کے باوجود ہوتے انسان ہی تھے ، الوہیت کا کوئی شائبہ ان میں نہ ہوتا تھا۔ اس مقدمے میں حضرت داؤد کی رہنمائی وحی کے ذریعہ سے نہ کی گئی اور وہ فیصلہ کرنے میں غلطی کر گئے ، حضرت سلیمان کی رہنمائی کی گئی اور انہوں نے صحیح فیصلہ کیا ، حالانکہ نبی دونوں ہی تھے آگے ان دونوں بزرگوں کے جن کمالات کا ذکر کیا گیا ہے وہبی یہی بات سمجھانے کے لیے ہے کہ یہ وہبی کمالات تھے اور اس طرح کے کمالا ت کسی کو خدا نہیں بنا دیتے ۔ صمناً اس آیت سے عدالت کا یہ اصول بھی معلوم ہوا کہ اگر دو جج ایک مقدمے کا فیصلہ کریں ، اور دونوں کے فیصلے مختلف ہوں تو اگر چہ صحیح فیصلہ ایک ہی کا ہو گا، لیکن دونوں بر حق ہوں گے ، بشرط یہ کہ عدالت کرنے کی ضروری استعداد و دونوں میں موجود ہو، ان میں سے کوئی جہالت اور نا تجربہ کاری کے ساتھ عدالت کرنے نہ بیٹھ جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی احادیث میں اس بات کو اور زیادہ کھول کر بیان فرما دیا ہے ۔ بخاری میں عمروؓ بن العاص کی روایات ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : اذا اجتہد الحاکم فاصاب فلہ اجران و اذا اجتھد فاخطأ فلہ اجرٌ ۔ ’’ اگر حاکم اپنی حد تک فیصلہ کرنے کی پوری کوشش کرے تو صحیح فیصلہ کرنے کی صورت میں اس کے لیے دوہرا اجر ہے اور غلط فیصلہ کرنے کی صورت میں اکہرا اجر ‘‘۔ ابو داؤد اورت ابن ماجہ میں بریدہؓ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ’’ قاضی تین قسم کے ہیں ، ایک ان میں سے جنتی ہے اور دو جہنمی ۔ جنتی وہ قاضی ہے جو حق کو پہچان جائے تو اس کے مطابق فیصلہ دے ۔ مگر جو شخص حق کو پہچاننے کے باوجود خلاف حق فیصلہ دے تو وہ جہنمی ہے ۔ اور اسی طرح وہ بھی جہنمی ہے جو علم کے بغیر لوگوں کے فیصلے کرنے کے لیے بیٹھ جائے |
Surah 27 : Ayat 15
وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا دَاوُۥدَ وَسُلَيْمَـٰنَ عِلْمًاۖ وَقَالَا ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ ٱلَّذِى فَضَّلَنَا عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّنْ عِبَادِهِ ٱلْمُؤْمِنِينَ
(دوسری طرف) ہم نے داؤدؑ و سلیمانؑ کو علم عطا کیا1 اور انہوں نے کہا کہ شکر ہے اُس خدا کا جس نے ہم کو اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا کی2
2 | یعنی دوسرے مومن بندے بھی ایسے موجود تھے جن کو خلافت عطاکی جاسکتی تھی۔ لیکن یہ ہماری کوئی ذاتی خوبی نہیں بلکہ محض اللہ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس مملکت کی فرمانروائی کےلیے منتخب فرمایا۔ |
1 | یعنی حقیقت کا علم۔ اس بات کا علم کہ درحقیقت ان کے پاس اپنا کچھ بھی نہیں ہے جو کچھ ہے اللہ کا عطیہ ہے اور اُس پر تصرف کرنے کے جو اختیار بھی ان کو بخشے گئے ہیں انہیں اللہ ہی کی مرضی کے مطابق استعمال کیا جانا چاہیئے اور اس اختیار کے صحیح و غلط استعمال پر انہیں مالک حقیقی کے حضور جواب دہی کرنی ہے۔ یہ علم اُس جہالت کی ضد ہے جس میں فرعون مبتلا تھا اُس جہالت نے جو سیرت تعمیر کی تھی اس کا نمونہ اوپر مذکور ہُوا۔ اب بتایا جاتا ہے کہ یہ علم کیسی سیرت کا نمونہ تیار کرتا ہے۔ بادشاہی، دولت، حشمت، طاقت، دونوں طرف یکساں ہے۔ فرعون کو بھی یہ ملی تھی اور داؤدوسلیمان علیہماالسلام کو بھی۔ لیکن جہالت اور علم کے فرق نے ان کے درمیان کتنا عظیم الشان فرق پیدا کردیا۔ |