Ayats Found (4)
Surah 6 : Ayat 103
لَّا تُدْرِكُهُ ٱلْأَبْصَـٰرُ وَهُوَ يُدْرِكُ ٱلْأَبْصَـٰرَۖ وَهُوَ ٱللَّطِيفُ ٱلْخَبِيرُ
نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے، وہ نہایت باریک بیں اور باخبر ہے
Surah 67 : Ayat 14
أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ ٱللَّطِيفُ ٱلْخَبِيرُ
کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے1؟ حالانکہ وہ باریک بیں2 اور باخبر ہے
2 | اصل میں لفظ ’’لطیف‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے معنی غیر محسوس طریقے سے کام کرنے والے کے بھی ہیں اور پوشیدہ حقائق کو جاننے والے کے بھی |
1 | دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’کیا وہ اپنی مخلوق ہی کو نہ جانے گا‘‘؟ اصل میں من خلق استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی ’’جس نے پیدا کیا ہے‘‘ بھی ہو سکتے ہیں ، اور ’’جس کو اس نے پیدا کیا ہے‘‘ بھی۔ دونوں صورتوں میں مطلب ایک ہی رہتا ہے۔ یہ دلیل اس بات کی جو اوپر کے فقرے میں ارشاد ہوئی ہے۔ یعنی آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ خالق اپنی مخلوق سے بے خبر ہو؟ مخلوق خود اپنے آپ سے بے خبر ہو سکتی ہے، مگر خالق اس سے بے خبر نہیں ہو سکتا۔ تمہاری رگ رگ اس نے بنائی ہے۔ تمہارے دل و دماغ کا ایک ایک ریشہ اس کا بنایا ہوا ہے۔ تمہارا ہر سانس اس کے جارے رکھنے سے جاری ہے۔ تمہارا ہر عضو اس کی تدبیر سے کام کر رہا ہے۔ اس سے تمہاری کوئی بات کیسے چھپی رہ سکتی ہے |
Surah 22 : Ayat 63
أَلَمْ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ أَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَتُصْبِحُ ٱلْأَرْضُ مُخْضَرَّةًۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور اس کی بدولت زمین سرسبز ہو جاتی ہے؟1 حقیقت یہ ہے کہ وہ لطیف و خبیر ہے2
2 | ’’ لطیف‘‘ ہے ، یعنی غیر محسوس طریقوں سے اپنے ارادے پورے کرنے والا ہے۔ اسکی تدبیریں ایسی ہوتی ہیں کہ لوگ ان کے آغاز میں کبھی ان کے انجام کا تصور تک نہیں کر سکتے۔ لاکھوں بچے دنیا میں پیدا ہوتے ہیں ، کون جان سکتا ہے کہ ان میں سے کون ابراہیم ے جو تین چوتھائی دنیا کا روحانی پیشوا ہو گا اور کون چنگیز ہے جو ایشیا اور یورپ کو تہ و بالا کر ڈالے گا۔ خورد بین جب ایجاد ہوئی تھی اس وقت کون تصور کر سکتا تھا کہ ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم تک نوبت پہنچائے گی، کولمبس جب سفر کو نکل رہا تھا تو کسے معلوم تھا کہ یہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بنیاد ڈالی جا رہی ہے۔ غرض خدا کے منصوبے ایسے ایسے دقیق اور ناقابل ادراک طریقوں سے پورے ہوتے ہیں کہ جب تک وہ تکمیل کو نہ پہنچ جائیں کسی کو پتا نہیں چلتا کہ یہ کس چیز کے لیے کام ہو رہا ہے۔ ’’خبیر‘’ ہے ، یعنی وہ اپنی دنیا کے حالات ، مصالح اور ضروریات سے باخبر ہے ، اور جانتا ہے کہ اپنی خدائی کا کام کس طرح کرے |
1 | یہاں پھر ظاہر مفہوم کے پیچھے ایک لطیف اشارہ چھپا ہوا ہے۔ ظاہر مفہوم تو محض اللہ کی قدرت کا بیان ہے۔ مگر لطیف اشارہ اس میں یہ ہے کہ جس طرح خدا کی برسائی ہوئی بارش کا ایک چھینٹا پڑتے ہی تم دیکھتے ہو کہ سوکھی پڑی ہوئی زمین یکایک لہلہا اٹھتی ہے ، اسی طرح یہ وحی کا باران رحمت جو آج ہو رہا ہے ، عنقریب تم کو یہ منظر دکھانے والا ہے کہ یہی عرب کا بنجر ریگستان علم اور اخلاق اور تہذیب صالح کا وہ گلزار بن جائے گا جو چشم فلک نے کبھی نہ دیکھا تھا |
Surah 31 : Ayat 16
يَـٰبُنَىَّ إِنَّهَآ إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُن فِى صَخْرَةٍ أَوْ فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ أَوْ فِى ٱلْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا ٱللَّهُۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ
(اور لقمان نے کہا تھا کہ1) "بیٹا، کوئی چیز رائی کے دانہ برابر بھی ہو اور کسی چٹان میں یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھپی ہوئی ہو، اللہ اُسے نکال لائے گا2 وہ باریک بیں اور باخبر ہے
2 | یعنی اللہ کے علم سے اور اس کی گرفت سے کوئی چیز بچ نہیں سکتی۔ چٹان کے اندر ایک دانہ تمہارے لیے مخفی ہو سکتا ہے، مگر اُس کے لیے عیاں ہے۔ آسمانوں میں کوئی ذرہ تم سے بعید ترین ہو سکتا ہے، مگر اللہ کے لیے وہ بہت قریب ہے۔ زمین کی تہوں میں پڑی ہوئی کوئی چیز تمہارے لیے سخت تاریکی میں ہے مگر اس کے لیے بالکل روشنی میں ہے۔ لہٰذا تم کہیں کسی حال میں بھی نیکی یا بدی کا کوئی کام ایسا نہیں کر سکتے جو اللہ سے مخفی رہ جائے۔ وہ نہ صرف یہ کہ اس سے واقف ہے، بلکہ جب محا سبہ کا وقت آئے گا تو وہ تمہاری ایک ایک حرکت کا ریکارڈ سامنے لا کررکھ دے گا۔ |
1 | لقمان کے دوسرے نصائح کا ذکر یہاں یہ بتانے کے لیے کیا جا رہا ہے کہ عقائد کی طرح اخلاق کے متعلق بھی جو تعلیمات نبی صلی اللہ علیہ و سلم پیش کر رہے ہیں وہ بھی عرب میں کوئی انوکھی باتیں نہیں ہیں۔ |