Ayats Found (2)
Surah 38 : Ayat 21
۞ وَهَلْ أَتَـٰكَ نَبَؤُاْ ٱلْخَصْمِ إِذْ تَسَوَّرُواْ ٱلْمِحْرَابَ
پھر تمہیں کچھ خبر پہنچی ہے اُن مقدمے والوں کی جو دیوار چڑھ کر اُس کے بالا خانے میں گھس آئے تھے1؟
1 | حضرت داؤد کا ذکر جس غرض کے لیے اس مقام پر کیا گیا ہے اس سے مقصود دراصل یہی قصہ سنانا ہے جو یہاں سے شروع ہوتا ہے۔ اس سے پہلے ان کی جو صفات عالیہ بطور تمہید بیان کی گئی ہیں ان کا مقصد صرف یہ بتانا تھا کہ داؤد علیہ السلام، جن کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا ہے، کس مرتبے کے انسان تھے۔ |
Surah 38 : Ayat 24
قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَىٰ نِعَاجِهِۦۖ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ ٱلْخُلَطَآءِ لَيَبْغِى بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ إِلَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ وَقَلِيلٌ مَّا هُمْۗ وَظَنَّ دَاوُۥدُ أَنَّمَا فَتَنَّـٰهُ فَٱسْتَغْفَرَ رَبَّهُۥ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ ۩
داؤدؑ نے جواب دیا: 1"اِس شخص نے اپنی دنبیوں کے ساتھ تیری دنبی ملا لینے کا مطالبہ کر کے یقیناً تجھ پر ظلم کیا، اور واقعہ یہ ہے کہ مل جل کر ساتھ رہنے والے لوگ اکثر ایک دوسرے پر زیادتیاں کرتے رہتے ہیں، بس وہی لوگ اس سے بچے ہوئے ہیں جو ایمان رکھتے اور عمل صالح کرتے ہیں، اور ایسے لوگ کم ہی ہیں2" (یہ بات کہتے کہتے) داؤدؑ سمجھ گیا کہ یہ تو ہم نے دراصل اس کی آزمائش کی ہے، چنانچہ اس نے اپنے رب سے معافی مانگی اور سجدے میں گر گیا اور رجوع کر لیا
2 | اس امر میں اختلاف ہے کہ اس مقام سجدہ تلاوت واجب ہے یا نہیں۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ یہاں سجدہ واجب نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک نبی کی توبہ ہے۔اور امام ابوحنیفہ وجوب کے قائل ہیں۔اس سلسلے میں ابن عباس سے تین روایتیں محدثین نے نقل کی ہیں۔عکرمہ کی روایت یہ ہے کہ ابن عباس نے فرمایا ’’یہ ان آیات میں سے نہیں ہے جن پر سجدہ لازم ہے مگر میں نے اس مقام پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو سجدہ کرتے دیکھا ہے۔‘‘ (بخاری،ابوداؤد، ترمذی، نسائی، مسند احمد)۔ دوسری روایات جو ان سے سعید بن جُبیر نے نقل کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’سورہ ص میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سجدہ کیا اور فرمایا: داؤد علیہ السلام نے توبہ کے طور پر سجدہ کیا تھا اور ہم شکر کے طور پر سجدہ کرتے ہیں‘‘ یعنی اس بات پر کہاں کی توبہ قبول ہوئی (نسائی)۔ تیسری روایت جو مجاہد نے ان سے نقل کی ہے اس میں وہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیا ہے کہ اُلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللہُ فَبھُِدٰ ھُمُ اقْتَدِہ، ’’یہ وہ لوگ تھے جن کو اللہ نے راہ راست دکھائی تھی، لہٰذا تم ان کے طریقے کی پیروی کرو‘‘۔ اب چونکہ حضرت داؤد بھی ایک نبی تھے اور انہوں نے اس موقع پر سجدہ کیا تھا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی ان کے اقتدا میں یہاں سجدہ فرمایا (بخاری)۔ یہ تین بیانا ت تو حضرت ابن عباس کے ہیں۔اور حضرت ابوسعید خدری کا بیان یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ خطبہ میں سورہ ص پڑھی اور جب آپؐ اس آیت پر پہنچے تو آپؐ نے منبر پر سے اتر کر سجدہ کیا اور آپؐ کے ساتھ سب حاضرین نے بھی سجدہ کیا۔ پھر ایک دوسرے موقع پر اسی طرح آپؐ نے یہی سورہ پڑھی تو اس آیت کو سنتے ہی لوگ سجدہ کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ حضورؐ نے فرمایا’’یہ ایک نبی کی توبہ ہے، مگر میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ سجدے کے لیے تیار ہو گئے ہو‘‘ ــــــ یہ فرما کر آپؐ منبر سے اترے اور سجدہ کیا اور سب حاضرین نے بھی کیا (ابوداؤد)۔، ان روایات سے اگرچہ وجوب سجدہ کی قطعی دلیل تو نہیں ملتی، لیکن کم از کم اتنی بات تو ضرور ثابت ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مقام پر اکثر سجدہ فرمایا ہے، اور سجدہ نہ کرنے کی بہ نسبت یہاں سجدہ کرنا بہرحال افضل ہے۔بلکہ ابن عباس کی تیسری روایت،جو ہم نے اوپربخاری کے حوالہ سے نقل کی ہے،عدم وجوب کی بہ نسبت وجوب کے حکم کا پلڑا جھکا دیتی ہے۔ ایک اور مضمون جو اس آیت سے نکلتا ہے، یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے یہاں خَرَّرَا کِعاً(رکوع میں گر پڑا) کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں، مگر تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ اس سے مراد خَرَّ سَاجِداً (سجدہ میں گر پڑا) ہے۔ اسی بنا پر امام ابو حنیفہؒ اور ان کے اصحاب نے یہ رائے ظاہر فرمائی ہے کہ نماز یا غیر نماز میں آیت سجدہ سن کر یا پڑھ کر آدمی سجدے کے بجائے صرف رکوع بھی کر سکتا ہے، کیونکہ جب اللہ تعالٰی نے رکوع کا لفظ استعمال کر کے سجدہ مراد لیا ہے تو معلوم ہوا کہ رکوع سجدے کا قائم مقام ہو سکتا ہے۔ فقہائے شافعیہ میں سے امام خَطَّابی کی بھی یہی رائے ہے۔ یہ رائے اگرچہ بجائے خود صحیح اور معقول ہے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام کے عمل میں ہم کو ایسی کوئی نظیر نہیں ملی کہ آیت سجدہ پر سجدہ کرنے کے بجائے رکوع ہی کر لینے پر اکتفا کیا گیا ہو۔ لہٰذا اس رائے پر عمل صرف اس صورت میں کرنا چاہیے جب سجدہ کرنے میں کوئی امر مانع ہو۔ اسے معمول بنا لینا درست نہیں ہے،اور خود امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا منشا بھی یہ نہیں ہے کہ اسے معمول بنایا جائے،بلکہ وہ صرف اس کے جواز کے قائل ہیں۔ |
1 | آگے کی بات سمجھنے کے لیے یہ بات نگاہ میں رہنی ضروری ہے کہ استغاثہ کا یہ فریق یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ اس شخص نے میری وہ ایک دُنبی چھین لی اور اپنی دُنبیوں میں ملا لی، بلکہ یہ کہہ رہا ہے کہ یہ مجھ سے میری دنبی مانگ رہا ہے ، اور اس نے گفتگو میں مجھ دبا لیا ہے ، کیونکہ یہ بڑی شخصیت کا آدمی ہے اور میں ایک غریب آدمی ہوں ، میں اپنے اندر اتنی سکت نہیں پاتا کہ اس کا مطالبہ رد کر دوں |