Ayats Found (1)
Surah 21 : Ayat 80
وَعَلَّمْنَـٰهُ صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُم مِّنۢ بَأْسِكُمْۖ فَهَلْ أَنتُمْ شَـٰكِرُونَ
اور ہم نے اُس کو تمہارے فائدے کے لیے زرہ بنانے کی صنعت سکھا دی تھی، تاکہ تم کو ایک دُوسرے کی مار سے بچائے1، پھر کیا تم شکر گزار ہو؟2
2 | حضرت داؤد کے متعلق مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو البقرہ، آیت 251 ، بنی اسرائیل حاشیہ 7 ۔ 63 |
1 | ۔ سورہ سبا میں مزید تفصیل یہ ہے : وَاَلَنَّا لَہُ الْحَدِیْدَ اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّ قَدِّرْفِیالسَّرْدِ ، ’’ اور ہم نے لوہے کو اس کے لیے نرم کر دیا (اور اس کو ہدایت کی) کہ پوری پوری زر ہیں بنا اور ٹھیک اندازے سے کڑیاں جوڑ‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو لوہے کے استعمال پر قدرت عطا کی تھی، اور خاص طور پر جنگی اغراض کے لیے زرہ سازی کا طریقہ سکھایا تھا ۔ موجودہ زمانے کی تاریخی و اثری تحقیقات سے ان آیات کے معنی پر جو روشنی پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ نیا میں لوہے کے استعمال کادور(Iron -Age)، اور ۱۲۰۰اور۱۰۰۰ ق م کے درمیان شروع ہوا ہے اوریہی حضرت داؤد کا زمانہ ہے ۔ اول اول شام اور ایشیائے کو چک کی حِتّی قوم (Hittites) کو جس کے عروج کا زمانہ 2000 ق م سے 1200 ق م تک رہا ہے ، لوہے کے پگھلانے اور تیار کرنے کا ایک پیچیدہ طریقہ معلوم ہوا اور وہ شدت کے ساتھ اس کو دنیا بھر سے راز میں رکھ رہی۔ مگر اس طریقے سے جو لوہا تیار ہوتا تھا وہ سونے چاندی کی طرح اتنا قیمتی ہوتا تھا کہ عام استعمال میں نہ آ سکتا تھا۔ بعد میں فِلِستیوں نے یہ طریقہ معلوم کر لیا ، اور وہ بھی اسے راز ہی میں رکھتے رہے ۔ طالوت کی بادشاہی سے پہلے حتّیوں اور فِلِستیوں نے نبی اسرائیل کو پیہم شکستیں دے کر جس طرح فلسطین سے تقریباً بے دخل کر دیا تھا ، بائیبل کے بیان کے مطابق اس کے وجوہ میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ یہ لوگ لوہے کی رتھیں استعمال کرتے تھے ۔ اور ان کے پاس دوسرے آہنی ہتھیار بھی تھے (یشوع باب 17 ۔ آیت 16 ۔ قُضاۃ باب 1 ۔آیت 19 ۔ باب 4 ۔ آیت 2۔3) ۔ 1020 ق م میں جب طالوت خدا کے حکم سے بنی اسرائیل کا فرمانروا ہوا تو اس نے پیہم شکستیں دے کر ان لوگوں سے فلسطین کا بڑا حصہ واپس لے لیا، اور پھر حضرت داؤد (1004 ق م 965 ق م ) نے نہ صرف فلسطین و شرق اُردُن ، بلکہ شام کے بھی بڑے حصے پر اسرائیلی سلطنت قائم کر دی ۔ اس زمانہ میں آہن سازی کا وہ راز جو حتیوں اور فلستیوں کے قبضے میں تھا، بے نقاب ہو گیا، اور صرف بے نقاب ہی نہ ہوا بلکہ آہن سازی کے ایسے طریقے بھی نکل آئے جن سے عام استعمال کے لیے لوہے کی سستی چیزیں تیار ہونے لگیں ۔ فلسطین کے جنوب میں ادوم کا علاقہ خام لوہے (Iron ore) کی دولت سے مالا مال ہے ، اور حال میں آثار قدیمہ کی جو کھدائیاں اس علاقے میں ہوئی ہیں ، ان میں بکثرت ایسی جگہوں کے آثار ملے ہیں جہاں لوہا پگھلانے کی بھٹیاں لگی ہوئی تھیں ۔ عَقبہ اور اَیَلہ سے متصل حضرت سلیمان کے زمانے کی بندرگاہ ، عِصیُون جابر کے آثار قدیمہ میں جو بھٹی ملی ہے اس کے معائنے سے اندازہ کیا گیا کہ اس میں بعض وہ اصول استعمال کیے جاتے تھے جو آج جدید ترین زمانے کی (Blast Furnace) میں استعمال ہوتے ہیں ۔ اب یہ ایک قدرتی بات ہے کہ حضرت داؤد نے سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر اس جدید دریافت کو جنگی اغراض کے لیے استعمال کیا ہو گا، کیونکہ تھوڑی ہی مدت پہلے آس پاس کی دشمن قوموں نے اسی لوہے کے ہتھیاروں سے ان کی قوم پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا تھا |