Ayats Found (2)
Surah 17 : Ayat 55
وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِمَن فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۗ وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ ٱلنَّبِيِّــۧنَ عَلَىٰ بَعْضٍۖ وَءَاتَيْنَا دَاوُۥدَ زَبُورًا
تیرا رب زمین اور آسمانوں کی مخلوقات کو زیادہ جانتا ہے ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض سے بڑھ کر مرتبے دیے1، اور ہم نے ہی داؤدؑ کو زبور دی تھی2
2 | یہاں خاص طور پر داؤد علیہ السلام کی زبور دیے جانے کا ذکر غالباً اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ داؤد علیہ السلام بادشاہ تھے، اور بادشاہ بالعموم خدا سے زیادہ دور ہوا کرتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصرین جس وجہ سے آپ کی پیغمبری وخدا رسیدگی ماننے سے انکار کرتے تھے وہ ان کے اپنے بیان کے مطابق یہ تھی کہ آپ عام انسانوں کی طرح بیوی بچے رکھتے تھے، کھاتے پیتے تھے، بازاروں میں چل پھر کر خریدوفروخت کرتے تھے، اور وہ سارے ہی کام کرتے تھے جو کوئی دنیا دار آدمی اپنی انسانی حاجات کے لیے کیا کرتے ہے۔ کفار مکہ کا کہنا یہ تھا کہ تم تو ایک دنیا دار آدمی ہو۔ تمہیں خدا رسیدگی سے کیا تعلقِ پہنچے ہوئے لوگ تو وہ ہوتے ہیں جنہیں اپنےتن بدن کا ہوش بھی نہیں ہوتا، بس ایک گوشے میں بیٹھے اللہ کی یاد میں غرق رہتے ہیں۔ وہ کہاں اور گھر کےآٹے دال کی فکر کہاں! اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ ایک پوری بادشاہت کے انتظام سے بڑھ کر دنیا داری اور کیا ہوگی۔ مگر اس کے باوجود داؤد کو نبوت اور کتاب سے سرفراز کیا گیا۔ |
1 | اس فقرے کہ اصل مخاطب کفار مکہ ہیں، اگرچہ بظاہر خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔جیسا کہ معاصرین کا بالعموم قاعدہ ہوتاہے، آنحضرت ؐ کے ہم عصر اور ہم قوم لوگوں کےآپ کے اندر کوئی فضل و شرف نظر نہ آتا تھا۔ وہ آپ کو اپنی بستی کا ایک معمولی انسان سمجھتے تھے، اور جن مشہور شخصیتوں کو گزرے ہوئے چند صدیاں گزر چکی تھیں، ان کے متعلق یہ گمان کرتے تھے کہ عظمت تو بس اُن پر ختم ہو گئی ہے۔ اس لیے آپ کی زبان سے نبوت کا دعوٰی سُن کر وہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ یہ شخص دوں کی لیتا ہے، اپنے آپ کو نہ معلوم کیا سمجھ بیٹھا ہے، بھلا کہاں یہ اور کہاں اگلے وقتوں کے وہ بڑے بڑے پیغمبر جن کی بزرگی کا سکہ ایک دنیا مان رہی ہے۔ اس کا مختصر جواب اللہ تعالٰی نے یہ دیا ہے کہ زمین اور آسمان کی ساری مخلوق ہماری نگاہ میں ہے۔ تم نہیں جانتے کہ کون کیا ہے اور کس کا کیا مرتبہ ہے۔ اپنے فضل کے ہم خود مالک ہیں اور پہلے بھی ایک سے ایک بڑھ کر عالی مرتبہ نبی پیدا کر چکے ہیں۔ |
Surah 34 : Ayat 10
۞ وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا دَاوُۥدَ مِنَّا فَضْلاًۖ يَـٰجِبَالُ أَوِّبِى مَعَهُۥ وَٱلطَّيْرَۖ وَأَلَنَّا لَهُ ٱلْحَدِيدَ
ہم نے داؤدؑ کو اپنے ہاں سے بڑا فضل عطا کیا تھا1 (ہم نے حکم دیا کہ) اے پہاڑو، اس کے ساتھ ہم آہنگی کرو (اور یہی حکم ہم نے) پرندوں کو دیا2 ہم نے لوہے کو اس کے لیے نرم کر دیا
2 | یہ مضمون اس سے پہلے سورہ انبیا آیت 79 میں گزر چکا ہے اور وہاں ہم اس کی تشریح بھی کر چکے ہیں۔ (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم 174۔175) |
1 | اشارہ ہے ان بے شمار عنایات کی طرف جن سے اللہ تعالٰی نے حضرت داؤد علیہ السلام کو نوازا تھا۔ وہ بیت اللحم کے رہنے والے قبیلہ یہوداہ کے ایک معمولی نوجوان تھے۔ فلستیوں کے خلاف ایک معرکے میں جالوت جیسے گرانڈیل دشمن کو قتل کر کے یکایک وہ بنی اسرائیل کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ اس واقعہ سے ان کا عروج شروع ہوا یہاں تک کہ طالوت کی وفات کے بعد پہلے وہ خبرون (موجودہ الخلیل) میں یہودیہ کے فرمانروا بنائے گئے، پھر چند سال بعد تمام قباؑیل بنی اسرائیل نے مل کر ان کو اپنا بادشاہ منتخب کیا، اور انہوں نے یروشلم کو فتح کر کے اسے دولت اسرائیل کا پایہ تخت بنایا۔ یہ انہی کی قیادت تھی جس کی بدولت تاریخ میں پلی مرتبہ ایک ایسی خدا پرست سلطنت وجود میں آئی جس کے حدود خلیج عقبہ سے دریائے فرات کے مغربی کناروں تک پھیلے ہوئے تھے۔ اس عنایات پر مزید وہ فضل خداوندی ہے جو علم و حکمت، عدل و انصاف، اور خدا ترسی و بندگی حق کی صورت میں ان کو نصیب ہوا (تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول۔ ص 595 تا 598) |