Ayats Found (2)
Surah 2 : Ayat 251
فَهَزَمُوهُم بِإِذْنِ ٱللَّهِ وَقَتَلَ دَاوُۥدُ جَالُوتَ وَءَاتَـٰهُ ٱللَّهُ ٱلْمُلْكَ وَٱلْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُۥ مِمَّا يَشَآءُۗ وَلَوْلَا دَفْعُ ٱللَّهِ ٱلنَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ ٱلْأَرْضُ وَلَـٰكِنَّ ٱللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى ٱلْعَـٰلَمِينَ
آخر کا ر اللہ کے اذن سے اُنہوں نے کافروں کو مار بھگایا اور داؤدؑ نے جالوت کو قتل کر دیا 1اور اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت سے نوازا اور جن جن چیزوں کا چاہا، اس کو علم دیا اگر اس طرح اللہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے ہٹاتا نہ رہتا، تو زمین کا نظام بگڑ جاتا2، لیکن دنیا کے لوگوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے (کہ وہ اِس طرح دفع فساد کا انتظام کرتا رہتا ہے)
2 | یعنی اللہ تعالٰی نے زمین کا انتظام برقرار رکھنے کے لیے یہ ضابطہ بنا رکھا ہے کہ وہ انسانوں کے مختلف گروہوں کو ایک حدِ خاص تک تو زمین میں غلبہ و طاقت حاصل کرنے دیتا ہے ، مگر جب کوئی گروہ حد سے بڑھنے لگتا ہے، تو کسی دُوسرے گروہ کے ذریعے سے وہ اس کا زور توڑ دیتا ہے۔ اگر کہیں ایسا ہوتا کہ ایک قوم اور ایک پارٹی ہی کا اقتدار زمین میں ہمیشہ قائم رکھا جاتا اور اس کی قہر مانی لازوال ہوتی، تو یقیناً ملک خدا میں فسادِ عظیم برپا ہو جاتا |
1 | دا ؤ د علیہ السّلام اُس وقت ایک کم سن نوجوان تھے۔ اتفاق سے طالوت کے لشکر میں عین اس وقت پہنچے، جبکہ فلسطینیوں کی فوج کا گراں ڈیل پہلوان جالوت (جولِیَت) بنی اسرائیل کی فوج کو دعوتِ مبارزت دے رہا تھا اور اسرائیلیوں میں سے کسی کی ہمّت نہ پڑتی تھی کہ اس کے مقابلے کو نکلے۔ حضرت دا ؤ د یہ رنگ دیکھ کر بے محابا اس کے مقابلے پر میدان میں جا پہنچے اور اس کو قتل کر دیا۔ اس واقعے نے اُنھیں تمام اسرائیلیوں کی آنکھوں کا تارا بنا دیا، طالوت نے اپنی بیٹی ان سے بیاہ دی اور آخر کار وہی اسرائیلیوں کے فرمانروا ہوئے۔(تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو سموئیل اوّل۔ باب ۱۷ و ۱۸) |
Surah 38 : Ayat 20
وَشَدَدْنَا مُلْكَهُۥ وَءَاتَيْنَـٰهُ ٱلْحِكْمَةَ وَفَصْلَ ٱلْخِطَابِ
ہم نے اس کی سلطنت مضبوط کر دی تھے، اس کو حکمت عطا کی تھے اور فیصلہ کن بات کہنے کی صلاحیت بخشی تھی1
1 | یعنی ان کا کلام الجھا ہوا نہ تھا کہ ساری تقریر سن کر بھی آدمی نہ سمجھ سکے کہ کہنا کیا چاہتے ہیں، بلکہ وہ جس معاملہ پر بھی گفتگو کرتے، اس کے تمام بنیادی نکات کو منقح کر کے رکھ دیتے، اور اصل فیصلہ طلب مسئلے کو ٹھیک ٹھیک متعین کر کے اس کا بالکل دو ٹوک جواب دے دیتے تھے۔ یہ بات کسی شخص کو اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک وہ عقل و فہم اور قادرالکلامی کے اعلیٰ مرتبہ پر پہنچا ہوا نہ ہو۔ |