Ayats Found (3)
Surah 38 : Ayat 17
ٱصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَٱذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُۥدَ ذَا ٱلْأَيْدِۖ إِنَّهُۥٓ أَوَّابٌ
اے نبیؐ، صبر کرو اُن باتوں پر جو یہ لوگ بناتے ہیں1، اور اِن کے سامنے ہمارے بندے داؤدؑ کا قصہ بیان کرو2 جو بڑی قوتوں کا مالک تھا3 ہر معاملہ میں اللہ کی طرف رجوع کرنے والا تھا
3 | اصل الفاظ ہیں ذَالْاَیْد، ’’ہاتھوں والا‘‘۔ہاتھ کا لفظ صرف عربی زبان ہی میں نہیں، دوسرے زبانوں میں بھی وقت و قدرت کے لیے استعارے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔حضرت داؤد کے لیے جب ان کی صفت کے طور پر یہ فرمایا گیا کہ وہ ’’ہاتھوں والے‘‘ تھے تو اس کا مطلب لازماً یہی ہو گا کہ وہ بڑی قوتوں کے مالک تھے۔ان قوتوں سے بہت سی قوتیں مراد ہوسکتی ہیں۔مثلاً جسمانی طاقت، جس کا مظاہرہ انہوں نے جالوت سے جنگ کے موقع پر کیا تھا۔فوجی اور سیاسی طاقت، جس سے انہوں نے گرد و پیش کی مشرک قوموں کو شکست دے کر ایک مضبوط اسلامی سلطنت قائم کر دی تھی۔ اخلاقی طاقت، جس کی بدولت انہوں نے بادشاہی میں فقیری کی اور ہمیشہ اللہ سے ڈرتے اور اس کے حدود کی پابندی کرتے رہے۔ اور عبادت کی طاقت، جس کا حال یہ تھا کہ حکومت و فرمانروائی اور جہاد فی سبیل اللہ کی مصروفیتوں کے باوجود، صحیحین کی روایت کے مطابق، وہ ہمیشہ ایک دن بیچ روزہ رکھتے تھے اور روزانہ ایک تہائی رات نماز میں گزارتے تھے۔ امام بخاریؒ نے اپنی تاریخ میں حضرت ابوالدّرواء کے حوالہ وے نقل کیا ہے کہ جب حضرت داؤد کا ذکر آتا تھا تو نبی صلی اللہ و الیہ و سلم فرمایا کرتے تھے کَا نَ اَعْبَدَ الْبَشَرِ،’’وہ سب سے زیادہ عبادت گزار آدمی تھے‘‘۔ |
2 | اس فقرے کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ہمارے بندے داؤد کو یاد کرو۔‘‘ پہلے ترجمے کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ اس قصے میں ان لوگوں کے لیے ایک سبق ہے۔ اور دوسرے ترجمے کے لحاظ سے مراد یہ ہے کہ اس قصے کی یاد خود تمہیں صبر کرنے میں مدد دے گی۔ چونکہ یہ قصہ بیان کرنے سے دونوں ہی باتیں مقصود ہیں، اس لیے الفاظ ایسے استعمال کیے گئے ہیں جو دونوں مفہوموں پر دلالت کرتے ہیں (حضرت داؤد کے قصے کی تفصیلات اس سے پہلے حسب ذیل مقامات پر گزر چکی ہیں : تفہیم القرآن جلد اول، صفحہ 191۔ جلد دوم، صفحات 597 و 624۔ جلد سوم، صفحات 173 تا 176 و 560۔ 561۔ جلد چہارم، حواشی سورہ صفحہ نمبر 14 تا 16)۔ |
1 | اشارہ ہے کفار مکہ کی ان باتوں کی طرف جن کا ذکر اوپر گزر چکا ہے، یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق ان کی یہ بکواس کہ یہ شخص ساحر اور کذاب ہے،اور ان کا یہ اعتراض کہ اللہ میاں کے پاس رسول بنانے کے لیے کیا بس یہی ایک شخص رہ گیا تھا۔اور یہ الزام کہ اس دعوت توحید سے اس شخص کا مقصد کوئی مذہبی تبلیغ نہیں ہے بلکہ اس کی نیت کچھ اور ہی ہے۔ |
Surah 38 : Ayat 17
ٱصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَٱذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُۥدَ ذَا ٱلْأَيْدِۖ إِنَّهُۥٓ أَوَّابٌ
اے نبیؐ، صبر کرو اُن باتوں پر جو یہ لوگ بناتے ہیں1، اور اِن کے سامنے ہمارے بندے داؤدؑ کا قصہ بیان کرو2 جو بڑی قوتوں کا مالک تھا3 ہر معاملہ میں اللہ کی طرف رجوع کرنے والا تھا
3 | اصل الفاظ ہیں ذَالْاَیْد، ’’ہاتھوں والا‘‘۔ہاتھ کا لفظ صرف عربی زبان ہی میں نہیں، دوسرے زبانوں میں بھی وقت و قدرت کے لیے استعارے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔حضرت داؤد کے لیے جب ان کی صفت کے طور پر یہ فرمایا گیا کہ وہ ’’ہاتھوں والے‘‘ تھے تو اس کا مطلب لازماً یہی ہو گا کہ وہ بڑی قوتوں کے مالک تھے۔ان قوتوں سے بہت سی قوتیں مراد ہوسکتی ہیں۔مثلاً جسمانی طاقت، جس کا مظاہرہ انہوں نے جالوت سے جنگ کے موقع پر کیا تھا۔فوجی اور سیاسی طاقت، جس سے انہوں نے گرد و پیش کی مشرک قوموں کو شکست دے کر ایک مضبوط اسلامی سلطنت قائم کر دی تھی۔ اخلاقی طاقت، جس کی بدولت انہوں نے بادشاہی میں فقیری کی اور ہمیشہ اللہ سے ڈرتے اور اس کے حدود کی پابندی کرتے رہے۔ اور عبادت کی طاقت، جس کا حال یہ تھا کہ حکومت و فرمانروائی اور جہاد فی سبیل اللہ کی مصروفیتوں کے باوجود، صحیحین کی روایت کے مطابق، وہ ہمیشہ ایک دن بیچ روزہ رکھتے تھے اور روزانہ ایک تہائی رات نماز میں گزارتے تھے۔ امام بخاریؒ نے اپنی تاریخ میں حضرت ابوالدّرواء کے حوالہ وے نقل کیا ہے کہ جب حضرت داؤد کا ذکر آتا تھا تو نبی صلی اللہ و الیہ و سلم فرمایا کرتے تھے کَا نَ اَعْبَدَ الْبَشَرِ،’’وہ سب سے زیادہ عبادت گزار آدمی تھے‘‘۔ |
2 | اس فقرے کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ہمارے بندے داؤد کو یاد کرو۔‘‘ پہلے ترجمے کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ اس قصے میں ان لوگوں کے لیے ایک سبق ہے۔ اور دوسرے ترجمے کے لحاظ سے مراد یہ ہے کہ اس قصے کی یاد خود تمہیں صبر کرنے میں مدد دے گی۔ چونکہ یہ قصہ بیان کرنے سے دونوں ہی باتیں مقصود ہیں، اس لیے الفاظ ایسے استعمال کیے گئے ہیں جو دونوں مفہوموں پر دلالت کرتے ہیں (حضرت داؤد کے قصے کی تفصیلات اس سے پہلے حسب ذیل مقامات پر گزر چکی ہیں : تفہیم القرآن جلد اول، صفحہ 191۔ جلد دوم، صفحات 597 و 624۔ جلد سوم، صفحات 173 تا 176 و 560۔ 561۔ جلد چہارم، حواشی سورہ صفحہ نمبر 14 تا 16)۔ |
1 | اشارہ ہے کفار مکہ کی ان باتوں کی طرف جن کا ذکر اوپر گزر چکا ہے، یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق ان کی یہ بکواس کہ یہ شخص ساحر اور کذاب ہے،اور ان کا یہ اعتراض کہ اللہ میاں کے پاس رسول بنانے کے لیے کیا بس یہی ایک شخص رہ گیا تھا۔اور یہ الزام کہ اس دعوت توحید سے اس شخص کا مقصد کوئی مذہبی تبلیغ نہیں ہے بلکہ اس کی نیت کچھ اور ہی ہے۔ |
Surah 38 : Ayat 30
وَوَهَبْنَا لِدَاوُۥدَ سُلَيْمَـٰنَۚ نِعْمَ ٱلْعَبْدُۖ إِنَّهُۥٓ أَوَّابٌ
اور داؤدؑ کو ہم نے سلیمانؑ (جیسا بیٹا) عطا کیا1، بہترین بندہ، کثرت سے اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والا
1 | حضرت سلیمان کا ذکر اس سے پہلے حسب ذیل مقامات پر گزر چکا ہے : تفہیم القرآن جلد اول، ص 97۔ جلد دوم، ص، 597 ۔598۔ جلد سوم، ص 173 تا 178۔ 560 تا 582۔ سورہ سبا، آیات 12۔ 14 |