Ayats Found (3)
Surah 2 : Ayat 251
فَهَزَمُوهُم بِإِذْنِ ٱللَّهِ وَقَتَلَ دَاوُۥدُ جَالُوتَ وَءَاتَـٰهُ ٱللَّهُ ٱلْمُلْكَ وَٱلْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُۥ مِمَّا يَشَآءُۗ وَلَوْلَا دَفْعُ ٱللَّهِ ٱلنَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ ٱلْأَرْضُ وَلَـٰكِنَّ ٱللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى ٱلْعَـٰلَمِينَ
آخر کا ر اللہ کے اذن سے اُنہوں نے کافروں کو مار بھگایا اور داؤدؑ نے جالوت کو قتل کر دیا 1اور اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت سے نوازا اور جن جن چیزوں کا چاہا، اس کو علم دیا اگر اس طرح اللہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے ہٹاتا نہ رہتا، تو زمین کا نظام بگڑ جاتا2، لیکن دنیا کے لوگوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے (کہ وہ اِس طرح دفع فساد کا انتظام کرتا رہتا ہے)
2 | یعنی اللہ تعالٰی نے زمین کا انتظام برقرار رکھنے کے لیے یہ ضابطہ بنا رکھا ہے کہ وہ انسانوں کے مختلف گروہوں کو ایک حدِ خاص تک تو زمین میں غلبہ و طاقت حاصل کرنے دیتا ہے ، مگر جب کوئی گروہ حد سے بڑھنے لگتا ہے، تو کسی دُوسرے گروہ کے ذریعے سے وہ اس کا زور توڑ دیتا ہے۔ اگر کہیں ایسا ہوتا کہ ایک قوم اور ایک پارٹی ہی کا اقتدار زمین میں ہمیشہ قائم رکھا جاتا اور اس کی قہر مانی لازوال ہوتی، تو یقیناً ملک خدا میں فسادِ عظیم برپا ہو جاتا |
1 | دا ؤ د علیہ السّلام اُس وقت ایک کم سن نوجوان تھے۔ اتفاق سے طالوت کے لشکر میں عین اس وقت پہنچے، جبکہ فلسطینیوں کی فوج کا گراں ڈیل پہلوان جالوت (جولِیَت) بنی اسرائیل کی فوج کو دعوتِ مبارزت دے رہا تھا اور اسرائیلیوں میں سے کسی کی ہمّت نہ پڑتی تھی کہ اس کے مقابلے کو نکلے۔ حضرت دا ؤ د یہ رنگ دیکھ کر بے محابا اس کے مقابلے پر میدان میں جا پہنچے اور اس کو قتل کر دیا۔ اس واقعے نے اُنھیں تمام اسرائیلیوں کی آنکھوں کا تارا بنا دیا، طالوت نے اپنی بیٹی ان سے بیاہ دی اور آخر کار وہی اسرائیلیوں کے فرمانروا ہوئے۔(تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو سموئیل اوّل۔ باب ۱۷ و ۱۸) |
Surah 38 : Ayat 30
وَوَهَبْنَا لِدَاوُۥدَ سُلَيْمَـٰنَۚ نِعْمَ ٱلْعَبْدُۖ إِنَّهُۥٓ أَوَّابٌ
اور داؤدؑ کو ہم نے سلیمانؑ (جیسا بیٹا) عطا کیا1، بہترین بندہ، کثرت سے اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والا
1 | حضرت سلیمان کا ذکر اس سے پہلے حسب ذیل مقامات پر گزر چکا ہے : تفہیم القرآن جلد اول، ص 97۔ جلد دوم، ص، 597 ۔598۔ جلد سوم، ص 173 تا 178۔ 560 تا 582۔ سورہ سبا، آیات 12۔ 14 |
Surah 27 : Ayat 15
وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا دَاوُۥدَ وَسُلَيْمَـٰنَ عِلْمًاۖ وَقَالَا ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ ٱلَّذِى فَضَّلَنَا عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّنْ عِبَادِهِ ٱلْمُؤْمِنِينَ
(دوسری طرف) ہم نے داؤدؑ و سلیمانؑ کو علم عطا کیا1 اور انہوں نے کہا کہ شکر ہے اُس خدا کا جس نے ہم کو اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا کی2
2 | یعنی دوسرے مومن بندے بھی ایسے موجود تھے جن کو خلافت عطاکی جاسکتی تھی۔ لیکن یہ ہماری کوئی ذاتی خوبی نہیں بلکہ محض اللہ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس مملکت کی فرمانروائی کےلیے منتخب فرمایا۔ |
1 | یعنی حقیقت کا علم۔ اس بات کا علم کہ درحقیقت ان کے پاس اپنا کچھ بھی نہیں ہے جو کچھ ہے اللہ کا عطیہ ہے اور اُس پر تصرف کرنے کے جو اختیار بھی ان کو بخشے گئے ہیں انہیں اللہ ہی کی مرضی کے مطابق استعمال کیا جانا چاہیئے اور اس اختیار کے صحیح و غلط استعمال پر انہیں مالک حقیقی کے حضور جواب دہی کرنی ہے۔ یہ علم اُس جہالت کی ضد ہے جس میں فرعون مبتلا تھا اُس جہالت نے جو سیرت تعمیر کی تھی اس کا نمونہ اوپر مذکور ہُوا۔ اب بتایا جاتا ہے کہ یہ علم کیسی سیرت کا نمونہ تیار کرتا ہے۔ بادشاہی، دولت، حشمت، طاقت، دونوں طرف یکساں ہے۔ فرعون کو بھی یہ ملی تھی اور داؤدوسلیمان علیہماالسلام کو بھی۔ لیکن جہالت اور علم کے فرق نے ان کے درمیان کتنا عظیم الشان فرق پیدا کردیا۔ |