Ayats Found (8)
Surah 6 : Ayat 66
وَكَذَّبَ بِهِۦ قَوْمُكَ وَهُوَ ٱلْحَقُّۚ قُل لَّسْتُ عَلَيْكُم بِوَكِيلٍ
تمہاری قوم اُس کا انکار کر رہی ہے حالانکہ وہ حقیقت ہے اِن سے کہہ دو کہ میں تم پر حوالہ دار نہیں بنایا گیا ہوں1
1 | یعنی میرا یہ کام نہیں ہے کہ جو کچھ تم نہیں دیکھ رہے ہو وہ زبر دستی تمہیں دکھاؤں اور جو کچھ تم نہیں سمجھ رہے ہو وہ بزور تمہاری سمجھ میں اتار دوں۔ اور میرا یہ کام بھی نہیں ہے کہ اگر تم نہ دیکھو اور نہ سمجھو تو تم پر عذاب نازل کر دوں۔ میرا کام صرف حق اور باطل کو ممیز کر کے تمہارے سامنے پیش کردینا ہے۔ اب اگر تم نہیں مانتے تو جس بُرے انجام سے میں تمہیں ڈراتا ہوں وہ اپنے وقت پر خود تمہارے سامنے آجائے گا |
Surah 6 : Ayat 107
وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ مَآ أَشْرَكُواْۗ وَمَا جَعَلْنَـٰكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًاۖ وَمَآ أَنتَ عَلَيْهِم بِوَكِيلٍ
اگر اللہ کی مشیت ہوتی تو (وہ خود ایسا بندوبست کرسکتا تھا کہ) یہ لوگ شرک نہ کرتے تم کو ہم نے ان پر پاسبان مقرر نہیں کیا ہے اور نہ تم ان پر حوالہ دار ہو1
1 | مطلب یہ ہے کہ تمھیں داعی اور مبلّغ بنایا گیا ہے، کوتوال نہیں بنایا گیا۔ تمہارا کام صرف یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے اِس روشنی کو پیش کردو اور اظہارِ حق کا حق ادا کرنے میں اپنی حد تک کوئی کسر اُٹھا نہ رکھو۔ اب اگر کوئی اس حق کو قبول نہیں کرتا تو نہ کرے۔ تم کو نہ اس کام پر مامور کیا گیا ہے کہ لوگوں کو حق پرست بنا کر ہی رہو، اور نہ تمہاری ذمّہ داری وہ جواب دہی میں یہ بات شامل ہے کہ تمہارے حلقۂ نبوّت میں کوئی شخص باطل پر ست نہ رہ جائے۔ لہٰذا اس فکر میں خواہ مخواہ اپنے ذہن کو پریشان نہ کرو کہ اندھوں کو کس طرح بینا بنایا جائے اور جو آنکھیں کھول کر نہیں دیکھنا چاہتے انہیں کیسے دکھایا جائے۔ اگر فی الواقع حکمت ِ الٰہی کا تقاضا یہی ہوتا کہ دنیا میں کوئی شخص باطل پرست نہ رہنے دیا جائے تو اللہ کو یہ کام تم سے لینے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا اس کا ایک ہی تکوینی اشارہ تمام انسانوں کو حق پرست نہ بنا سکتا تھا؟ مگر وہاں تو مقصُود سرے سے یہ ہے ہی نہیں۔ مقصُود تو یہ ہے کہ انسان کے لیے حق اور باطل کے انتخاب کی آزادی باقی رہے اور پھر حق کی روشنی اس کے سامنے پیش کر کے اُس کی آزمائش کی جائے کہ وہ دونوں چیزوں میں سے کس کو انتخاب کرتا ہے ۔ پس تمہارے لیے صحیح طرزِ عمل یہ ہے کہ جو روشنی تمھیں دکھا دی گئی ہے اُس کے اُجالے میں سیدھی راہ پر خود چلتے رہو اور دُوسروں کو اُس کی دعوت دیتے رہو۔ جو لوگ اس دعوت کو قبول کر لیں انھیں سینے سے لگاؤ اور ان کا ساتھ نہ چھوڑو خواہ وہ دنیا کی نگاہ میں کیسے ہی حقیر ہوں۔ اور جو اسے قبول نہ کریں ان کے پیچھے نہ پڑو۔ جس انجامِ بد کی طرف وہ خود جانا چاہتے ہیں اور جانے پر مُصِر ہیں اس کی طرف جانے کے لیے انھیں چھوڑ دو |
Surah 10 : Ayat 108
قُلْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ قَدْ جَآءَكُمُ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْۖ فَمَنِ ٱهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِى لِنَفْسِهِۦۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَاۖ وَمَآ أَنَا۟ عَلَيْكُم بِوَكِيلٍ
اے محمدؐ، کہہ دو کہ “لوگو، تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق آ چکا ہے اب جو سیدھی راہ اختیار کرے اس کی راست روی اسی کے لیے مفید ہے، اور جو گمراہ رہے اس کی گمراہی اسی کے لیے تباہ کن ہے اور میں تمہارے اوپر کوئی حوالہ دار نہیں ہوں"
Surah 17 : Ayat 54
رَّبُّكُمْ أَعْلَمُ بِكُمْۖ إِن يَشَأْ يَرْحَمْكُمْ أَوْ إِن يَشَأْ يُعَذِّبْكُمْۚ وَمَآ أَرْسَلْنَـٰكَ عَلَيْهِمْ وَكِيلاً
تمہارا رب تمہارے حال سے زیادہ واقف ہے، وہ چاہے تو تم پر رحم کرے اور چاہے تو تمہیں عذاب دے دے1 اور اے نبیؐ، ہم نے تم کو لوگوں پر حوالہ دار بنا کر نہیں بھیجا ہے2
2 | یعنی نبی کا کام دعوت دینا ہے۔ لوگوں کی قسمتیں اس کے ہاتھ میں نہیں دے دی گئی ہیں کہ وہ کسی کہ حق میں رحمت کا اور کسی کے حق میں عذاب کا فیصلہ کرتا پھرے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کی کوئی غلطی سر زد ہوئی تھی جس کی بنا پر اللہ تعالٰی نے آپ کو یہ تنبیہ فرمائی۔ بلکہ دراصل اس سے مسلمانوں کو متنبہ کرنا مقصود ہے۔ ان کو بتایا جا رہا ہے کہ جب نبی تک کا یہ منصب نہیں ہے تو تم جنت اور دوزخ کے ٹھیکیدار کہاں بنے جا رہے ہو۔ |
1 | یعنی اہل ایمان کی زبان پر کبھی ایسے دعوے نہ آنے چاہییں کہ ہم جنتی اور فلاں شخص یا گروہ دوزخی ہے۔ اس چیز کا فیصلہ اللہ کےاختیار میں ہے۔ وہی سب انسانوں کے ظاہر و باطن اور ان کے حال و مستقبل سے واقف ہے۔ اسی کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کس پر رحمت فرمائے اور کسے عذاب دے۔ انسان اصولی حیثیت سے تو یہ کہنے کا ضرور مجاز ہے کہ کتاب اللہ کی رو سے کس قسم کے انسان رحمت کے مستحق ہیں اور کس قسم کے انسان عذاب کے مستحق۔ مگر کسی انسان کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ فلاں شخص کو عذاب دیا جائے گا او ر فلاں شخص بخشا جائے گا۔ غالبًا یہ نصیحت اس بنا پر فرمائی گئی ہے کہ کبھی کبھی کفار کی زیادتیوں سے تنگ آکر مسلمان کی زبان سے ایسے فقرے نکل جاتے ہوں گے کہ تم لوگ دوزخ میں جاؤ گے، یا تم کو خدا عذاب دے گا۔ |
Surah 25 : Ayat 43
أَرَءَيْتَ مَنِ ٱتَّخَذَ إِلَـٰهَهُۥ هَوَٮٰهُ أَفَأَنتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلاً
کبھی تم نے اُس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟1 کیا تم ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو؟
1 | خواہش نفس کا خدا بنا لینے سے مراد اس کی بندگی کرنا ہے ، اور یہ بھی حقیقت کے اعتبار سے ویسا ہی شرک ہے جیسا بُت کو پوجنا یا کسی مخلوق کو معبود بنانا ۔ حضرت ابو امامہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ماتحت ظل السمآء من الٰہ یعبد من دون اللہ تعالیٰ اعظم عند اللہ عزوجل من ھوی یتبع، ’’اس آسمان کے نیچے اللہ تعالیٰ کے سوا جتنے معبود بھی پوجے جا رہے ہیں ان میں اللہ کے نزدیک بد ترین معبود وہ خواہش نفس ہے جس کی پیروی کی جا رہی ہو‘‘۔ (طبرانی) ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الکہف، حاشیہ 50 ۔ جو شخص اپنی خواہش کو عقل کے تابع رکھتا ہو اور عقل سے کام لے کر فیصلہ کرتا ہو کہ اس کے لیے صحیح راہ کون سی ہے اور غلط کونسی، وہ اگر کسی قسم کے شرک یا کفر میں مبتلا بھی ہو تو اس کو سمجھا کر سیدھی راہ پر لایا جا سکتا ہے ، اور یہ اعتماد بھی کیا جا سکتا ہے کہ جب وہ راہ راست اختیار کرنے کا فیصلہ کر لے گا تو اس پر ثابت قدم رہے گا۔ لیکن نفس کا بندہ اور خواہشات کا غلام ایک شتر بے مہار ہے ۔ اسے تو اس کی خواہشات جدھر جدھر لے جائیں گی وہ ان کے ساتھ ساتھ بھٹکتا پھرے گا۔ اس کو سرے سے یہ فکر ہی نہیں ہے کہ صحیح و غلط اور حق و باطل میں تمیز کرے اور ایک کو چھوڑ کر دوسرے کو اختیار کرے ۔ پھر بھلا کون اسے سمجھا کر راستی کا قائل کر سکتا ہے ۔ اور بالفرض اگر وہ بات مان بھی لے تو اسے کسی ضابطہ اخلاق کا پابند بنا دینا تو کسی انسان کے بس میں نہیں ہے |
Surah 39 : Ayat 41
إِنَّآ أَنزَلْنَا عَلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ لِلنَّاسِ بِٱلْحَقِّۖ فَمَنِ ٱهْتَدَىٰ فَلِنَفْسِهِۦۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَاۖ وَمَآ أَنتَ عَلَيْهِم بِوَكِيلٍ
(اے نبیؐ) ہم نے سب انسانوں کے لیے یہ کتاب برحق تم پر نازل کر دی ہے اب جو سیدھا راستہ اختیار کرے گا اپنے لیے کرے گا اور جو بھٹکے گا اُس کے بھٹکنے کا وبال اُسی پر ہوگا، تم اُن کے ذمہ دار نہیں ہو1
1 | یعنی تمہارے سپرد انہیں راہِ راست پر لے آنا نہیں ہے۔ تمہارا کام صرف یہ ہے کہ ان کے سامنے راہِ راست پیش کر دو۔ اس کے بعد اگر یہ گمراہ رہیں تو تم پر کوئی ذ مہ داری نہیں ہے |
Surah 42 : Ayat 6
وَٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُواْ مِن دُونِهِۦٓ أَوْلِيَآءَ ٱللَّهُ حَفِيظٌ عَلَيْهِمْ وَمَآ أَنتَ عَلَيْهِم بِوَكِيلٍ
جن لوگوں نے اُس کو چھوڑ کر اپنے کچھ دوسرے سرپرست بنا رکھے ہیں1، اللہ ہی اُن پر نگراں ہے، تم ان کے حوالہ دار نہیں ہو2
2 | ’’ اللہ ہی ان پر نگراں ہے ‘‘ یعنی وہ ان کے سارے افعال دیکھ رہا ہے اور ان کے نامۂ اعمال تیار کر رہا ہے۔ ان کا محاسبہ اور مواخذہ کرنا اسی کا کام ہے۔ ‘‘ تم ان کے حوالہ دار نہیں ہو‘‘ ، یہ خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی قسمت تمہارے حوالے نہیں کر دی گئی ہے کہ جو تمہاری بات نہ مانے گا اسے تم جلا کر خاک کر دو گے یا اس کا تختہ الٹ دو گے ، یا اسے تہس نہس کر کے رکھ دو گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذ اللہ، نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنے آپ کو ایسا سمجھتے تھے اور آپ کی غلط فہمی یا بر خود غلطی کو رفع کرنے کے لیے یہ بات ارشاد ہوئی ہے۔ بلکہ اس سے مقصود کفار کو سنانا ہے۔ اگر چہ بظاہر مخاطب حضورؐ ہی ہیں ، لیکن اصل مدّعا کفار کو یہ بتانا ہے کہ اللہ کا نبی اس طرح کا کوئی دعویٰ نہیں رکھتا جیسے بلند بانگ دعوے خدا رسیدگی اور روحانیت کے ڈھونگ رچانے والے عموماً تمہارے ہاں کیا کرتے ہیں۔ جاہلیت کے معاشروں میں بالعموم یہ خیال پایا جاتا ہے کہ ’’حضرت‘‘ قسم کے لوگ ہر اس شخص کی قسمت بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں جو ان کی شان میں کوئی گستاخی کرے۔ بلکہ مر جانے کے بعد ان کی قبر کی بھی اگر کوئی توہین کر گزرے ، یا اور کچھ نہیں تو ان کے متعلق کوئی برا خیال ہی دل میں لے آۓ تو وہ اس کا تختہ الٹ دیتے ہیں۔ یہ خیال زیادہ تر ’’ حضرتوں ‘‘ کا اپنا پھیلایا ہوا ہوتا ہے ، اور نیک لوگ جو خود ایسی باتیں نہیں کرتے ، ان کے نام اور ان کی ہڈیوں کو اپنے کاروبار کا سرمایہ بنانے کے لیے کچھ دوسرے ہوشیار لوگ ان کے متعلق اس خیال کو پھیلاتے ہیں۔ بہر حال عوام میں اسے روحانیت و خدا رسیدگی کا لازمہ سمجھا جاتا ہے کہ آدمی کو قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کے اختیارات حاصل ہوں۔ اسی فریب کا طلسم توڑنے کے لیے اللہ تعالیٰ کفار کو سناتے ہوۓ اپنے رسول پاک سے فرما رہا ہے کہ بلا شبہ تم ہمارے پیغمبر ہو اور ہم نے اپنی وحی سے تمہیں سرفراز کیا ہے ، مگر تمہارا کام صرف لوگوں کو سیدھا راستہ دکھانا ہے۔ ان کی قسمتیں تمہارے حوالہ نہیں کر دی گئی ہیں۔ وہ ہم نے اپنے ہی ہاتھ میں رکھی ہیں۔ بندوں کے اعمال کو دیکھنا اور ان کو عذاب دینا یا نہ دینا ہمارا اپنا کام ہے |
1 | اصل میں لفظ ’’ اولیا ء‘ ‘استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم عربی زبان میں بہت وسیع ہے۔ معبود ان باطل کے متعلق گمراہ انسانوں کے مختلف عقائد اور بہت سے مختلف طرز عمل ہیں جن کو قرآن مجید میں ’’ اللہ کے سوا دوسروں کو اپنا ولی بنانے ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن پاک کا تتبّع کرنے سے لفظ ’’ولی‘‘ کے حسب ذیل مفہومات معلوم ہوتے ہیں : 1) جس کے کہنے پر آدمی چلے ، جس کی ہدایات پر عمل کرے ، اور جس کے مقرر کیے ہوۓ طریقوں ، رسموں اور قوانین و ضوابط کی پیروی کرے (النساء، آیات 118 تا 120۔ الاعراف 3،27 تا 30)۔ 2) جس کی رہنمائی (Guidance)پر آدمی اعتماد کرے اور یہ سمجھے کہ وہ اسے صحیح راستہ بتانے والا اور غلطی سے بچانے والا ہے (بقرہ 257۔ بنی اسرائیل 97۔ الکہف 17۔50۔الجاثیہ 19)۔ 3) جس کے متعلق آدمی یہ سمجھے کہ میں دنیا میں خواہ کچھ کرتا رہوں ، وہ مجھے اس کے برے نتائج سے اور اگر خدا ہے اور آخرت بھی ہونے والی ہے ، تو اس کے عذاب سے بچا لے گا (انساء 123۔173۔الانعام 51۔ الرعد 37۔ العنکبوت 22۔ الاحزاب 65۔ الزمر 3) 4) جس کے متعلق آدمی یہ سمجھے کہ وہ دنیا میں فوق الفطری طریقے سے اس کی مدد کرتا ہے ، آفات و مصائب سے اس کی حفاظت کرتا ہے ، اسے روزگار دلواتا ہے ، اولاد دیتا ہے ، مرادیں بر لاتا ہے ، اور دوسری ہر طرح کی حاجتیں پوری کرتا ہے (ہود،20۔الرعد،16۔ العنکبوت، 41) بعض مقامات پر قرآن میں ولی کا لفظ ان میں سے کسی ایک معنی میں استعمال کیا گیا ہے ، اور بعض مقامات پر جامعیت کے ساتھ اس کے سارے ہی مفہومات مراد ہیں۔ آیت زیر تشریح بھی انہی میں سے ایک ہے۔ یہاں اللہ کے سوا دوسروں کو ولی بنانے سے مراد مذکورہ بالا چاروں معنوں میں ان کو اپنا سرپرست بنانا اور حامی و مدد گار سمجھنا ہے |
Surah 4 : Ayat 80
مَّن يُطِعِ ٱلرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ ٱللَّهَۖ وَمَن تَوَلَّىٰ فَمَآ أَرْسَلْنَـٰكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا
جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی اور جو منہ موڑ گیا، تو بہرحال ہم نے تمہیں ان لوگوں پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے1
1 | یعنی اپنے عمل کے یہ خود ذمّہ دار ہیں۔ ان کے اعمال کی باز پُرس تم سے نہ ہوگی۔ تمہارے سپرد جو کام کیا گیا ہے وہ تو صرف یہ ہے کہ اللہ کے احکام و ہدایات ان تک پہنچا دو۔ یہ کام تم نے بخوبی انجام دے دیا۔ اب یہ تمہارا کام نہیں ہے کہ ہاتھ پکڑ کر انہیں زبردستی راہِ راست پر چلاؤ۔ اگر یہ اُس ہدایت کی پیروی نہ کریں جو تمہارے ذریعہ سے پہنچ رہی ہے، تو اس کی کوئی ذمّہ داری تم پر نہیں ہے۔ تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ یہ لوگ کیوں نافرمانی کرتے تھے |