Ayats Found (5)
Surah 20 : Ayat 29
وَٱجْعَل لِّى وَزِيرًا مِّنْ أَهْلِى
اور میرے لیے میرے اپنے کنبے سے ایک وزیر مقرر کر دے
Surah 20 : Ayat 35
إِنَّكَ كُنتَ بِنَا بَصِيرًا
تو ہمیشہ ہمارے حال پر نگران رہا ہے"
Surah 26 : Ayat 13
وَيَضِيقُ صَدْرِى وَلَا يَنطَلِقُ لِسَانِى فَأَرْسِلْ إِلَىٰ هَـٰرُونَ
میرا سینہ گھٹتا ہے اور میری زبان نہیں چلتی آپ ہارونؑ کی طرف رسالت بھیجیں1
1 | سورہ طٰہٰ رکوع 2، اور سورہ قصص رکوع 4 میں اس کی جو تفصیل آئی ہے اسے ان آیات کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسٰیؑ علیہ السلام اول تو اتنے بڑے مشن پر تنہا جاتے ہوئے گھبراتے تھے (میرا سینہ گھٹتا ہے کے الفاظ اسی کی نشان دہی کرتے ہیں )، دوسرے ان کو یہ بھی احساس تھا کہ وہ روانی کے ساتھ تقریر نہیں کرسکتے۔ اس لیے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ حضرت ہارون کو ان کے ساتھ مدد گار کی حیثیت سے نبی بنا کر بھیجا جائے کیونکہ وہ زیادہ زبان آور ہیں ، جب ضرورت پیش آئے گی تو وہ ان کی تائید و تصدیق کر کے ان کی پشت مضبوط کریں گے۔ ممکن ہے کہ ابتداءً حضرت موسٰیؑ کی درخواست یہ رہی ہو کہ آپ کے بجائے حضرت ہارون کو اس منصب پر مامور کیا جائے ، اور بعد میں جب آپ نے محسوس کیا ہو کہ مرضی الٰہی آپ ہی کو مامور کرنے کی ہے تو پھر یہ درخواست کی ہو کہ انہیں آپ کا وزیر اور مدد گار بنایا جائے۔ یہ شبہہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ یہاں حضرت موسٰیؑ ان کو وزیر بنانے کی درخواست نہیں کر رہے ہیں بلکہ یہ عرض کر رہے ہیں یہ : فَاَرْسِلْ لِّیْ اِلیٰ ھَارُوْنَ، ’’ آپ ہارون کی طرف رسالت بھیجیں ‘‘۔ اور سورہ طٰہٰ میں وہ یہ گزارش کرتے ہیں کہ وَجْعَلْ لِّیْ وَزِیْراً مِّنْ اَھْلِیْھَارُوْنَ اَخِیْ، ’’ میرے لیے میرے خاندان میں سے ایک وزیر مقرر فرما دیجیے ، میرے بھائی ہارون کو ‘‘۔ نیز سورہ قصص میں وہ یہ عرض کرتے ہیں کہ : وَاَخِیْ ھٰرُوْنَ ھُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَاناً فَاَرْسِلْہُ مَعِیَ رِدْ اءً یُّصَدِّ قُنِیْ، ’’میرے بھائی ہارون مجھ سے زیادہ زبان آور ہیں لہٰذا آُ انہیں مدد گار کے طور پر میرے ساتھ بھیجیے تاکہ وہ میری تصدیق کریں ‘‘۔ اس سے خیال ہوتا ہے کہ غالباً یہ مؤخر الذکر دونوں درخواستیں بعد کی تھیں ، اور پہلی بات وہی تھی جو حضرت موسٰیؑ سے اس سورے میں نقل ہوئی ہے۔ بائیبل کا بیان اس سے مختلف ہے۔ وہ کہتی ہے کہ حضرت موسٰیؑ نے قوم فرعون کی تکذیب کا خوف اور اپنی زبان کے کندے ہونے کا عذر پیش کر کے یہ منصب قبول کرنے سے بالکل ہی انکار کر دیا تھا : ’’ اے خداوند میں تیری منت کرتا ہوں۔ کسی اور کے ہاتھ سے جسے تو چاہے یہ پیغام بھیج ‘‘۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بطور خود حضرت ہارون کو ان کے لیے مدد گار مقرر فرما کر انہیں اس بات پر راضی کیا کہ دونوں بھائی مل کر فرعون کے پاس جائیں (خروج باب 4۔ آیات ا تا 71 ) مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، طٰہٰ، حاشیہ 19 |
Surah 28 : Ayat 34
وَأَخِى هَـٰرُونُ هُوَ أَفْصَحُ مِنِّى لِسَانًا فَأَرْسِلْهُ مَعِىَ رِدْءًا يُصَدِّقُنِىٓۖ إِنِّىٓ أَخَافُ أَن يُكَذِّبُونِ
اور میرا بھائی ہارونؑ مجھے سے زیادہ زبان آور ہے، اسے میرے ساتھ مدد گار کے طور پر بھیج تاکہ وہ میری تائید کرے، مجھے اندیشہ ہے کہ وہ لوگ مجھے جھٹلائیں گے"
Surah 10 : Ayat 89
قَالَ قَدْ أُجِيبَت دَّعْوَتُكُمَا فَٱسْتَقِيمَا وَلَا تَتَّبِعَآنِّ سَبِيلَ ٱلَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ
اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا “تم دونوں کی دعا قبول کی گئی ثابت قدم رہو اور اُن لوگوں کے طریقے کی ہرگز پیروی نہ کرو جو علم نہیں رکھتے"