Ayats Found (16)
Surah 2 : Ayat 53
وَإِذْ ءَاتَيْنَا مُوسَى ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
یاد کرو کہ (ٹھیک اس وقت جب تم یہ ظلم کر رہے تھے) ہم نے موسیٰؑ کو کتاب اور فرقان عطا کی 1تاکہ تم اس کے ذریعے سے سیدھا راستہ پاسکو
1 | فُرقَان: وہ چیز جس کے ذریعہ سے حق اور باطل کا فرق نمایاں ہو۔ اُردو میں اس کے مفہُوم سے قریب تر لفظ”کَسوَٹی“ ہے۔ یہاں فرقان سے مُراد دین کا وہ علم اور فہم ہے، جس سے آدمی حق اور باطل میں تمیز کرتا ہے |
Surah 2 : Ayat 87
وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا مُوسَى ٱلْكِتَـٰبَ وَقَفَّيْنَا مِنۢ بَعْدِهِۦ بِٱلرُّسُلِۖ وَءَاتَيْنَا عِيسَى ٱبْنَ مَرْيَمَ ٱلْبَيِّنَـٰتِ وَأَيَّدْنَـٰهُ بِرُوحِ ٱلْقُدُسِۗ أَفَكُلَّمَا جَآءَكُمْ رَسُولُۢ بِمَا لَا تَهْوَىٰٓ أَنفُسُكُمُ ٱسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ
ہم نے موسیٰؑ کو کتاب دی، اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے، آخر کار عیسیٰؑ ابن مریمؑ کو روشن نشانیاں دے کر بھیجا اور روح پاک سے اس کی مدد کی1 پھر یہ تمہارا کیا ڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشات نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر تمہارے پاس آیا، تو تم نے اس کے مقابلے میں سرکشی ہی کی، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کر ڈالا
1 | ” رُوحِ پاک“ سے مُراد علمِ وحی بھی ہے، اور جبریل بھی جو وحی کا علم لاتے تھے اور خود حضرت مسیح ؑ کی اپنی پاکیزہ رُوح بھی ، جس کو اللہ نے قدسی صفات بنایا تھا۔ ”روشن نشانیوں“ سے مُراد وہ کھلی کھلی علامات ہیں، جنہیں دیکھ کر ہر صداقت پسند طالب ِ حق انسان یہ جان سکتا تھا کہ مسیح علیہ السّلام اللہ کے نبی ہیں |
Surah 6 : Ayat 154
ثُمَّ ءَاتَيْنَا مُوسَى ٱلْكِتَـٰبَ تَمَامًا عَلَى ٱلَّذِىٓ أَحْسَنَ وَتَفْصِيلاً لِّكُلِّ شَىْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لَّعَلَّهُم بِلِقَآءِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ
پھر ہم نے موسیٰؑ کو کتاب عطا کی تھی جو بھلائی کی روش اختیار کرنے والے انسان پر نعمت کی تکمیل اور ہر ضروری چیز کی تفصیل اور سراسر ہدایت اور رحمت تھی (اور اس لیے بنی اسرائیل کو دی گئی تھی کہ) شاید لوگ اپنے رب کی ملاقات پر ایمان لائیں1
1 | رب کی ملاقات پر ایمان لانے سے مراد اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جواب دہ سمجھنا اور ذمہ دارانہ زندگی بسر کرنا ہے۔ یہاں اس ارشاد کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ خود بنی اسرسائیل میں اس کتاب کی حکیمانہ تعلیمات سے ذمّہ داری کا احساس بیدار ہو جائے۔ دوسرے یہ کہ عام لوگ اس اعلیٰ درجہ کے نظامِ زندگی کا مطالعہ کر کے اور نیکو کار انسانوں میں اِس نعمتِ ہدایت اور اس رحمت کے اثرات دیکھ کر یہ محسُوس کر لیں کہ انکارِ آخرت کی غیر ذمّہ دارانہ زندگی کے مقابلہ میں وہ زندگی ہر اعتبار سے بہتر ہے جو اقرارِ آخرت کی بُنیاد پر ذم دارانہ طریقہ سے بسر کی جاتی ہے ، اور اس طرح یہ مشاہدہ و مُطالعہ انھیں انکار سے ایمان کی طرف کھینچ لائے |
Surah 17 : Ayat 2
وَءَاتَيْنَا مُوسَى ٱلْكِتَـٰبَ وَجَعَلْنَـٰهُ هُدًى لِّبَنِىٓ إِسْرَٲٓءِيلَ أَلَّا تَتَّخِذُواْ مِن دُونِى وَكِيلاً
ہم نے اِس سے پہلے موسیٰؑ کو کتاب دی تھی اور اُسے بنی اسرائیل کے لیے ذریعہ ہدایت بنایا تھا1، اِس تاکید کے ساتھ کہ میرے سوا کسی کو اپنا وکیل نہ بنانا2
2 | وکیل، یعنی اعتماد اور بھروسے کا مدار، جس پر توکل کیا جائے،جس کے سپرد اپنے معاملات کر دیے جائیں، جس کی طرف ہدایت اور استمداد کے لیے رجوع کیا جائے۔ |
1 | یہ وہی واقعہ ہے جو اصطاحاً”معراج“اور ”اسراء“کے نام سے مشہور ہے۔ اکثر اور معتبر روایات کی رو سے یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں اس واقعہ کی تفصیلات بکثرت صحابہ ؓ سے مروی ہیں جن کی تعداد ۲۵ تک پہنچتی ہے۔ ان میں سے مفصل ترین روایات حضرت انس بن مالک ؓ ، حضرت مالک بن صَعصَعہ ؓ، حضرت ابو ذر غفاری ؓ اور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہیں۔ ان کے علاوہ حضرت عمر ؓ ، حضرت علی ؓ ، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ، حضرت ابو سعید خدری ؓ ، حضرت حذیفہ بن یمان ؓ ، حضرت عائشہ ؓ اور متعدد دوسرے صحابہ ؓ نے بھی اس کے بعض اجزاء بیان کیے ہیں۔ قرآن مجید یہاں صرف مسجد حرام (یعنی بیت اللہ)سے مسجد اقصٰی(یعنی بیت المقدس)تک حضور کے جانے کی تصریح کرتا ہے اور اس سفر کا مقصد یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالٰی اپنے بندے کو اپنی کچھ نشانیاں دکھانا چاہتا تھا۔ اس سے زیادہ کوئی تفصیل قرآن میں نہیں بتائی گئی ہے۔ حدیث میں جو تفصیلات آئی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ رات کے وقت جبریل علیہ السلام آپ کو اُٹھا کر مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک بُراق پر لے گئے۔ وہاں آپ نے انبیاء علہیم السلام کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر وہ آپ کو عالم بالا کی طرف لےچلے اور وہاں مختلف طبقات سماوی میں مختلف جلیل القدر انبیاء سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ آخر کار آپ انتہائی بلندیو ں پر پہنچ کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوئے اور اس حضوری کے موقع پر دوسری اہم ہدایات کے علاوہ آپ کو پنج وقتہ نماز کی فرضیت کا حکم ہوا۔ اس کے بعد آپ بیت المقدس کی طرف پلٹے اور وہاں سے مسجد حرام واپس تشریف لائے۔اس سلسلے میں بکثرت روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو جنت اور دوزخ کا بھی مشاہدہ کرایا گیا۔نیز معتبر روایات یہ بھی بتاتی ہیں کہ دوسرے روز جب آپ نے اس واقعہ کا لوگوں سے ذکر کیا تو کفار مکہ نے اس کا بہت مذاق اڑایا اور مسلمانوں میں سے بھی بعض کے ایمان متزلزل ہوگئے۔ حدیث کی یہ زائد تفصیلات قرآن کے خلاف نہیں ہیں بلکہ اس کے بیان پر اضافہ ہیں، اور ظاہر ہے کہ اضافے کو قرآن کے خلاف کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم اگر کوئی شخص اُن تفصیلات کے کسی حصے کو نہ مانےجو حدیث میں آئی ہیں تو اس کی تکفیر نہیں کی جاسکتی، البتہ جس واقعے کی تصریح قرآن کر رہا ہے اس کا انکار موجب کفر ہے۔ اس سفر کی کیفیت کیا تھی؟ یہ عالم خواب میں پیش آیا تھا یا بیداری میں؟ اور آیا حضور ؐ بذات خود تشریف لے گئے تھے یا اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے محض روحانی طور پر ہی آپ کو یہ مشاہدہ کرا دیا گیا؟ ان سوالات کا جواب قرآن مجید کے الفاظ خود دے رہے ہیں۔ سُبْحٰنَ الّذِیْ اَسْریٰ سے بیان کی ابتدا کرنا خود بتا رہا ہے کہ یہ کوئی بہت بڑا خارقِ عادت واقعہ تھا جو اللہ تعالٰی کی غیر محدود قدرت سے رونما ہوا۔ ظاہر ہے کہ خواب میں کسی شخص کا اس طرح کی چیزیں دیکھ لینا، یا کشف کے طور پر دیکھنا یہ اہمیت نہیں رکھتا کہ اسے بیان کرنے کے لیے اس تمہید کی ضرورت ہو کہ تمام کمزوریوں اور نقائص سے پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو یہ خواب دکھایا یا کشف میں یہ کچھ دکھایا۔ پھر یہ الفاظ بھی کہ ”ایک رات اپنے بندے کو لے گیا“جسمانی سفر مانے بغیر چارہ نہیں کہ یہ محض ایک روحانی تجربہ نہ تھا بلکہ ایک جسمانی سفر اور عینی مشاہد ہ تھا جو اللہ تعالٰی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کرایا۔ اب اگر ایک رات میں ہوائی جہاز کے بغیر مکہ سے بیت المقدس جانا اور آنا اللہ کی قدرت سےممکن تھا، تو آخر اُن دوسری تفصیلات ہی کو نا ممکن کہہ کر کیوں رد کر دیا جائے جو حدیث میں بیان ہوئی ہیں؟ ممکن اور نا ممکن کی بحث تو صرف اُس صورت میں پیدا ہوتی ہے جبکہ کسی مخلوق کے باختیار خود کوئٰ کام کرنے کا معاملہ زیربحث ہو۔ لیکن جب ذکر یہ ہو کہ خدا نے فلاں کام کیا، تو پھر امکان کا سوال وہی شخص اٹھا سکتا ہے جسے خدا کے قادر مطلق ہونے کا یقین نہ ہو۔ اس کے علاوہ جو دوسری تفصیلات حدیث میں آئی ہیں ان پر منکرین حدیث کی طرف سے متعدد اعتراضات کیے جاتے ہیں، مگر ان میں سے صرف دو ہی اعتراضات ایسے ہیں جو کچھ وزن رکھتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس سےاللہ تعالٰی کا کسی خاص مقام پر مقیم ہونا لازم آتا ہے، ورنہ اس کے حضور بندے کی پیشی کے لیے کیا ضرورت تھی اسے سفر کراکے ایک مقامِ خاص تک لے جایا جاتا؟ دوسرے یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دوزخ اور جنت کا مشاہدہ اور بعض لوگوں کے مبتلائے عذاب ہونے کا معائنہ کیسے کرا دیا گیا جبکہ ابھی بندوں کےمقدمات کا فیصلہ ہی نہیں ہوا ہے؟ یہ کیا کہ سزا و جزا کا فیصلہ تو ہونا ہے قیامت کے بعد، اور کچھ لوگوں کو سزا دے ڈالی گئی ابھی سے؟ لیکن دراصل یہ دونوں اعتراض بھی قلت فکر کا نتیجہ ہیں۔ پہلا اعتراض اس لیے غلط ہے کہ خالق اپنی ذات میں تو بلا شبہ اطلاقی شان رکھتا ہے۔ مگر مخلوق کے ساتھ معاملہ کرنے میں وہ اپنی کسی کمزوری کی بنا پر نہیں بلکہ مخلوق کی کمزوریوں کی بنا پر محدود و سائط اختیار کرتا ہے۔ مثلاً جب وہ مخلوق سے کلام کرتا ہے تو کلام کا وہ محدود طریقہ استعمال کرتا ہے جسے ایک انسان سن اور سمجھ سے، حالانکہ بجائے خود اس کا کلام ایک اطلاقی شان رکھتا ہے۔ اسی طرح جب وہ اپنے بندے کو اپنی سلطنت کی عظیم الشان نشانیاں دکھانا چاہتا ہے تو اسے لے جاتا ہے اور جہاں جو چیز دکھانی ہوتی ہے اسی جگہ دکھاتا ہے، کیونکہ وہ ساری کائنات کو بیک وقت اُس طرح نہیں دیکھ سکتا جس طرح خدا دیکھتا ہے۔ خدا کو کسی چیز کے مشاہدے کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی، مگر بندے کو ہوتی ہے۔ یہی معاملہ خالق کے حضور باریابی کا بھی ہے کہ خالق بذاتِ خود کسی مقام پر متمکن نہیں ہے، مگر بندہ اس کی ملاقات کے لیے ایک جگہ کا محتاج ہےجہاں اس کے لیے تجلیات کو مرکوز کیا جائے۔ ورنہ اُس کی شان اطلاق میں اس سے ملاقات بندہ محدود کے لیے ممکن نہیں ہے۔ رہا دوسرا اعتراض تو وہ اس لیے غلط ہے کہ معراج کے موقع پر بہت سے مشاہدات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کرائے گئے تھے ان میں بعض حقیقتوں کو ممثل کر کے دکھا یاگیا تھا۔ مثلاً ایک فتنہ انگیز بات کی یہ تمثیل کہ ایک ذرا سے شگاف میں سے ایک موٹا سا بیل نکلا اور پھر اس میں واپس نہ جا سکا۔ یا زناکاروں کی یہ تمثیل کہ ان کے پاس تازہ نفیس گوشت موجود ہے مگر وہ اسے چھوڑ کر سڑا ہوا گوشت کھا رہے ہیں۔ اسی طرح بُرے اعمال کی جو سزائیں آپ کو دکھائیں گئیں وہ بھی تمثیلی رنگ میں عالم آخرت کی سزاؤں کا پیشگی مشاہدہ تھیں۔ اصل بات جو معراج کے سلسلے سے سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ انبیاء علیم السلام میں سےہر ایک کو اللہ تعالٰی نے اُن کے منصب کی مناسبت سے ملکوتِ سٰموات و ارض کا مشاہدہ کرایا ہے اور مادی حجابات بیچ میں سے ہٹا کر آنکھوں سے وہ حقیقتیں دکھائی ہیں جن پر ایمان بالغیب لانے کی دعوت دینے پر وہ مامور کیے گئے تھے، تاکہ ان کا مقام ایک فلسفی کے مقام سے بالکل ممیز ہوجائے۔ فلسفی جو کچھ بھی کہتا ہے قیاس اور گمان سے کہتا ہے، وہ خود اگر اپنی حیثیت سے واقف ہو تو کبھی اپنی کسی رائے کی صداقت پر شہادت نہ دے گا۔ مگر انبیاء جو کچھ کہتے ہیں وہ براہ راست علم اور مشاہدے کے بنا پر کہتے ہیں، اور وہ خلق کے سامنے یہ شہادت دے سکتے ہیں کہ ہم ان باتوں کو جانتے ہیں اور یہ ہماری آنکھوں دیکھی حقیقتیں ہیں۔ |
Surah 19 : Ayat 51
وَٱذْكُرْ فِى ٱلْكِتَـٰبِ مُوسَىٰٓۚ إِنَّهُۥ كَانَ مُخْلَصًا وَكَانَ رَسُولاً نَّبِيًّا
اور ذکر کرو اس کتاب میں موسیٰؑ کا وہ ایک چیدہ1 شخص تھا اور رسول نبی 2تھا
2 | ’’رسول‘‘ کے معنی ہیں ’’فرستادہ‘‘،’’بھیجا ہوا‘‘ اس معنی کے لحاظ سے عربی زبان میں قاصد، پیغام بر، ایلچی اور سفیر کے لیے یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اور قرآن میں یہ لفظ یا تو ان ملائک کے لیے استعمال ہوا ہے جو اللہ تعالٰی کی طرف سے کسی کار خاص پر بھیجے جاتے ہیں، یا پھران انسانوں کو اس نام سے موسوم کیا گیا ہے جنہیں اللہ تعالٰی نے خلق کی طرف اپنا پیغام پہنچانے کے لیے مامور فرمایا۔ ’’نبی‘‘ کے معنی میں اہل لغت کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض اس کو لفظ ’’نبا‘‘سے مشتق قرار دیتے ہیں جس کے معنی خبر کے ہیں، اور اس اصل کے لحاظ سے نبی کے معنی، خبر دینے والے، کے ہیں۔ بعض کے نزدیک اس کا مادہ نبو ہے، یعنی رفعت اور بلندی اور اس معنی کے لحاظ سے بنی کا مطلب ہے ’’بلند مرتبہ‘‘ اور ’’عالی مقام‘‘۔ ازہری نے کسائی سے ایک تیسرا قول بھی نقل کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ لفظ دراصل نبی ہے جس کے معنی طریق اور راستے کے ہیں، اور انبیا کو نبی اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ اللہ کی طرف جانے کا راستہ ہیں۔ پس کسی شخص کو’’رسول نبی‘‘ کہنے کا مطلب یا تو ’’عالی مقام پیغمبر‘‘ ہے،یا ’’اللہ تعالٰی کی طرف سے خبریں دینے والا پیغمبر‘‘ یا پھر’’ وہ پیغمبر جواللہ کا راستہ بتانے والا ہے۔‘‘ قرآن مجید میں یہ دونوں الفاظ بالعموم ہم معنی استعمال ہوۓ ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی شخصیت کو کہیں صرف رسول کہا گیا ہے۔ اور کہیں صرف نبی اور کہیں رسول اور نبی ایک ساتھ ۔ لیکن بعض مقامات پر رسول اور نبی کے الفاظ اس طرح بھی استعمال ہوۓ ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں میں مرتبے یا کام کی نوعیت کے لحاظ سے کوئی اصطلاحی فرق ہے۔ مثلاً سورہ حج، رکوع 7 میں فرمایا وما ارسلنا من قبلک من رسول و لا نبی الا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’ہم نے تم سے پہلے نہیں بھیجا کوئی رسول اور نہ نبی مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ یہ الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ رسول اور نبی دو الگ اصطلاحیں ہیں جن کے درمیان کوئی معنوی فرق ضرور ہے۔ اسی بنا پر اہل تفسیر میں یہ بحث چل پڑی ہے کہ اس فرق کی نوعیت کیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قطعی دلائل کے ساتھ رسول اور نبی کی الگ الگ حیثیتوں کا تعین نہیں کر سکا ہے۔ زیادہ سے زیادہ جو بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے وہ یہ رسول کا لفظ ان جلیل القدر ہستیوں کے لیے بولا گیا ہے جن کو عام انبیاء کی بہ نسبت زیادہ اہم منصب سپرد کیا گیا تھا۔ اسی کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو امام احمد نے حضرت ابو امامہ سے اور حاکم نے حضرت ابو ذر سے نقل کی ہے کہ نبی ﷺ سے رسولوں کی تعداد پوچھی گئی تو آپ نے 313 یا 315 بتائی اور انبیاء کی تعداد پوچھی گئی تو آپ نے ایک لاکھ 24۔ ہزار بتائی۔ اگرچہ اس حدیث کی سندیں ضعیف ہیں، مگر کئی سندوں سے ایک بات کا نقل ہونا اس کے ضعف کو بڑی حد تک دور کر دیتا ہے۔ |
1 | اصل میں لفظ مخلص استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں ’’خالص کیا ہوا‘‘ مطلب یہ ہے کہ حضرت موسٰی ایک ایسے شخص تھے جن کو اللہ تعالٰی نے خالص اپنا کر لیا تھا۔ |
Surah 19 : Ayat 52
وَنَـٰدَيْنَـٰهُ مِن جَانِبِ ٱلطُّورِ ٱلْأَيْمَنِ وَقَرَّبْنَـٰهُ نَجِيًّا
ہم نے اُس کو طُور کے داہنی جانب سے پکارا1 اور راز کی گفتگو سے اس کو تقرب عطا کیا2
2 | تشریح کے لیۓ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، النساء حاشیہ 206 |
1 | کوہِ طور کے داہنی جانب سے مراد اس کا مشرقی دامن ہے۔ چونکہ حضرت موسٰی مدین سے مصر جاتے ہوۓ اس راستہ سے گزر رہے تھے جو کوہِ طور کے جنوب سے جاتا ہے، اور جنوب کی طرف سے اگر کوئی شخص طور کو دیکھے تو اس کے دائیں جانب مشرق اور بائیں جانب مغرب ہو گا، اس لیے حضرت موسٰی کی نسبت سے طور کے مشرقی دامن کو ’’داہنی جانب‘‘ فرمایا گیا۔ ورنہ ظاہر ہے کہ بجاۓ خود پہاڑ کا کوئی دائیاں یا بائیاں رخ نہیں ہوتا۔ |
Surah 20 : Ayat 41
وَٱصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِى
میں نے تجھ کو اپنے کام کا بنا لیا ہے
Surah 21 : Ayat 48
وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا مُوسَىٰ وَهَـٰرُونَ ٱلْفُرْقَانَ وَضِيَآءً وَذِكْرًا لِّلْمُتَّقِينَ
پہلے1 ہم موسیٰؑ اور ہارونؑ کو فرقان اور روشنی اور "ذکر" عطا کر چکے ہیں اُن متقی لوگوں کی بھَلائی کے لیے
1 | یہاں سے انبیاء علیہم السلام کا ذکر شروع ہوتا ہے اور پے در پے بہت سے انبیاء کی زندگی کے مفصل یا مختصر واقعات کی طرف اشارے کیے جاتے ہیں ۔ یہ ذکر جس سیاق و سباق میں آیا ہے اس پر غور کرنے سے صاف معکوم ہوتا ہے کہ اس سے حسب ذیل باتیں ذہن نشین کرنی مقصود ہیں : اول یہ کہ تمام پچھلے انبیاء بھی بشر ہی تھے ، یہ نئی نرالی مخلوق نہ تھے ۔ تاریخ میں یہ کوئی نیا واقعہ آج پہلی مرتبہ ہی پیش نہیں آیا ہے کہ ایک نشر کو رسول بنا کر بھیجا گیا ہے ۔ دوم یہ کہ پہلے انبیاء بھی اسی کام کے لیے آۓ تھے ، جو کام اب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کر ہے ہیں ۔ یہی ان کا مشن تھا اور یہی ان کی تعلیم تھی۔ سوم یہ کہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا خاص معاملہ رہا ہے ۔ بڑے بڑے مصائب سے وہ گزرے ہیں ۔ سالہا سال مصائب میں مبتلا رہے ہیں ۔ شخصی اور ذاتی مصائب میں بھی اور اپنے مخالفوں کے ڈلے ہوۓ مصائب میں بھی، مگر آخر کار اللہ کی نصرت و تائید ان کو حاصل ہوئی ہے ۔ اس نے اپنے فضل و رحمت سے انکو نوازا ہے ، ان کی دعاؤں کو قبول کیا ہے ، ان کی تکلیفوں کو رفع کیا ہے ، ان کے مخالفوں کو نیچا دکھایا ہے ، اور معجزانہ طریقوں پر ان کی مدد کی ہے ۔ چہارم یہ کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب اور مقبول بارگاہ ہونے کے باوجود، اور اس کی طرف سے بڑی بڑی حیرت انگیز طاقتیں پانے کے باوجود، تھے وہ بندے اور بشر ہی ۔ الوہیّت ان میں سے کسی کو حاصل نہ تھی۔ راۓ اور فیصلے میں ان سے غلطی بھی ہو جاتی تھی ۔ بہار بھی وہ ہوتے تھے ۔ آزمائشوں میں بھی ڈالے جاتے تھے ۔ حتٰی کہ قصور بھی ان سے ہو جاتے تھے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مواخذہ بھی ہوتا تھا |
Surah 21 : Ayat 49
ٱلَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِٱلْغَيْبِ وَهُم مِّنَ ٱلسَّاعَةِ مُشْفِقُونَ
جو بے دیکھے اپنے رب سے ڈریں اور جن کو (حساب کی) اُس گھڑی1 کا کھٹکا لگا ہُوا ہے
1 | جس کا ابھی اوپر ذکر گزرا ہے ، یعنی قیامت |
Surah 23 : Ayat 49
وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا مُوسَى ٱلْكِتَـٰبَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ
اور موسٰیؑ کو ہم نے کتاب عطا فرمائی تاکہ لوگ اس سے رہنمائی حاصل کریں