Ayats Found (2)
Surah 18 : Ayat 60
وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِفَتَـٰهُ لَآ أَبْرَحُ حَتَّىٰٓ أَبْلُغَ مَجْمَعَ ٱلْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِىَ حُقُبًا
(ذرا اِن کو وہ قصہ سناؤ جو موسیٰؑ کو پیش آیا تھا) جبکہ موسیٰؑ نے اپنے خادم سے کہا تھا کہ 1"میں اپنا سفر ختم نہ کروں گا جب تک کہ دونوں دریاؤں کے سنگم پر نہ پہنچ جاؤں، ورنہ میں ایک زمانہ دراز تک چلتا ہی رہوں گا"
1 | اس مرحلے پر یہ قصہ سنانے سے مقصود کفار اور مومنین دونوں کو ایک اہم حقیقت پر متنبہ کرنا ہے اور وہ یہ ہے کہ ظاہر بین نگاہ دنیا میں بظاہر جو کچھ ہوتے دیکھتی ہے اس سے بالکل غلط نتائج اخذ کر لیتی ہے کیونکہ اس کے سامنے اللہ تعالٰی کی وہ مصلحتیں نہیں ہوتیں جنہیں ملحوظ رکھ کر وہ کام کرتا ہے۔ ظالموں کا پھلنا پھولنا اور بے گناہوں کا تکلیفوں میں مبتلا ہونا۔ نافرمانوں پر انعامات کی بارش اور فرمانبرداروں پر مصائب کا ہجوم، بد کاروں کا عیش اور نیکو کاروں کی خستہ حالی، یہ وہ مناظر ہیں جو آئے دن انسانوں کے سامنے آتے رہتے ہیں، اور محض اس لیے کہ لوگ ان کے کنَہ کو نہیں سمجھتے، ان سے عام طور پر ذہنوں میں اُلجھنیں، بلکہ غلط فہمیاں تک پیدا ہو جاتی ہیں۔ کافر اور ظالم ان سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ دنیا اندھیر نگری ہے، کوئی اس کا راجہ نہیں، اور ہے تو چوپٹ ہے۔ یہاں جن کا جو کچھ جی چاہے کرتا رہے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ مومن اس طرح کے واقعات کو دیکھ کر دل شکستہ ہوتے ہیں اور بسا اوقات سخت آزمائشوں کے مواقع پر ان کے ایمان تک متزلزل ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی حالات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے کار خانہ مشیت کا پردہ اُٹھا کر ذرا اس کی ایک جھلک دکھائی تھی تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ یہاں شب و روز جو کچھ ہو رہا ہے کیسے اور کن مصلحتوں سے ہو رہا ہے اور کس طرح واقعات کا ظاہر ان کے باطن سے مختلف ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰ کو یہ واقعہ کب اور کہاں پیش آیا؟ اس کی کوئی تصریح قرآن نے نہیں کی ہے۔ حدیث میں عوفی کی ایک روایت ہمیں ضرور ملتی ہے جس میں وہ ابن عباس کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب فرعون کی ہلاکت کے بعد حضرت موسیٰ نے مصر میں اپنی قوم کو آباد کیا تھا۔ لیکن ابن عباس سے جو قومی تر روایات بخاری اور دوسری کتب حدیث میں منقول ہیں وہ اس بیان کی تائید نہیں کرتیں، اور نہ کسی دوسرے ذریعے سے ہی یہ ثابت ہوتا ہے کہ فرعون کی ہلاکت کے بعد حضرت موسیٰ کبھی مصر میں رہے تھے۔ بلکہ قرآن اس کی تصریح کرتا ہے کہ مصر سے خروج کے بعد ان کا سارا زمانہ سینا اور تَیہ میں گزرا۔ اس لیے یہ روایت تو قابل قبول نہیں ہے۔ البتہ جب ہم خود اس قصے کی تفصیلات پر غور کرتے ہیں تو دو باتیں صاف سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک یہ کہ یہ مشاہدات حضرت موسیٰؑ کو ان کی نبوت کے ابتدائی دور میں کرائے گئے ہوں گے، کیونکہ آغاز نبوت ہی میں انبیاء علیہم السلام کو اس طرح کی تعلیم و تربیت درکار ہوا کرتی ہے۔ دوسرے یہ کہ حضرت موسیٰؑ کوان مشاہدات کی ضرورت اس زمانے میں پیش آئی ہوگی جبکہ بنی اسرائیل کو بھی اسی طرح کے حالات سے سابقہ پیش آ رہا تھا جن سے مسلمان مکہ معظمہ میں دو چار تھے۔ ان دو وجوہ سے ہمارا قیاس یہ ہے (والعلم عند اللہ) کہ اس واقعہ کا تعلق اس دور سے ہے جبکہ مصر میں بنی اسرائیل پر فرعون کے مظالم کا سلسلہ جاری تھا اور سرداران قریش کی طرح فرعون اور اس کے درباری بھی عذاب میں تاخیر دیکھ کر یہ سمجھ رہے تھے کہ اوپر کوئی نہیں ہے جو اس سے باز پرس کرنے والا ہو، اور مکے کے مظلوم مسلمانوں کی طرح مصر کے مظلوم مسلمان بھی بے چین ہو ہو کر پوچھ رہے تھے کہ خدا یا ان ظالموں پر انعامات کی اور ہم پر مصائب کی یہ بارش کب تک؟ حتیٰ کہ خود حضرت موسیٰ یہ پکار اٹھے تھے کہ رَبَّنَآ اِنَّکَ اٰتَیْتَ فِرْ عَوء نَ وَ مَلَاَہٗ زِیْنَۃً وَّ اَمْوَالاً فِی الْحَیٰوۃِ الدُّ نْیَا رَبَّنَا لِیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِکَ ’’اے پروردگار، تو نے فرعون اور اس کے درباریوں کو دنیا کی زندگی میں بڑی شان و شوکت اور مال و دولت دے رکھی ہے، اے پروردگار، کیا یہ اس لیے ہے کہ وہ دنیا کو تیرے راستے سے بھٹکا دیں؟‘‘ (تفہیم القرآن، ج 2 ص 308)۔ اگر ہمارا یہ قیاس درست ہو تو پھر یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ غالباً حضرت موسیٰؑ کا یہ سفر سوڈان کی جانت تھا اور مجمع البحرین سے مراد وہ مقام ہے جہاں موجودہ شہر خرطوم کے قریب دریاۓ نیل کی دو بڑی شاخیں البحرلابیض ور البحر الْاَزْرَق آ کر ملتی ہیں (ملاحظہ ہو نقشہ نمبر 1 صفحہ 34) حضرت موسیٰ نے اپنی پوری زندگی جن علاقوں میں گزاری ہے ان میں اس ایک مقام کے سوا اور کوئی مجمع البحرین نہیں پایا جاتا۔ بائیبل اس واقعے کے باب میں بالکل خاموش ہے۔ البتہ تَلْمُود میں اس کا ذکر موجود ہے، مگر وہ اسے حضرت موسیٰؑ کے بجاۓ ربی یہوحا نان بن لادی کی طرف منسوب کرتی ہے اور اس کا بیان یہ ہے کہ ربی مذکور کو یہ واقعہ حضرت الیاس کے ساتھ پیش آیا تھا جو دنیا سے زندہ اٹھاۓ جانے کے بعد فرشتوں میں شامل کر لیے گۓ ہیں اور دنیا کے انتظام پر مامور ہیں۔ (The Talmud Selections By H Polano, pp. 313 .16 ) ممکن ہے کہ خروج سے پہلے کے بہت سے واقعات کی طرح یہ واقعہ بھی بنی اسرائیل کے ہاں اپنی صحیح صورت میں محفوظ نہ رہا ہو اور صدیوں بعد انہوں نے قصے کی کڑیاں کہیں سے کہیں لے جا کر جوڑ دی ہوں۔ تلمود کی اسی روایت سے متاثر ہو کر مسلمانوں میں سے بعض لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ قرآن میں اس مقام پر موسیٰ سے مراد حضرت موسیٰ علیہ السلام نہیں بلکہ کوئی اور موسیٰ ہیں۔ لیکن نہ تو تلمود کی ہر روایت لازماً صحیح تاریخ قرار دی جا سکتی ہے، نہ ہمارے لیے یہ گمان کرنے کی کوئی معقول وجہ ہے کہ قرآن میں کسی اور مجہول الحال موسیٰ کا ذکر اس طریقہ سے کیا گیا ہو گا، اور پھر جب کہ معتبر احادیث میں حضرت اُبَیّ بن کعب کی یہ روایت موجود ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس قصے کی تشریح فرماتے ہوۓ موسیٰ سے مراد حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو بتایا ہے تو کسی مسلمان کے لیے تلمود کا بیان لائق التفات نہیں رہتا۔ مستشرقین مغرب نے اپنے معمول کے مطابق قرآن مجید کے اس قصے کے بھی مآخذ کا کھوج لگانے کی کوشش کی ہے، اور تین قصوں پر انگلی رکھ دی ہے کہ یہ ہیں وہ مقامات جہاں سے محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) نے نقل کر کے یہ قصہ بنا لیا اور پھر دعویٰ کر دیا کہ یہ تو میرے اوپر بذریعہ وحی نازل ہوا ہے۔ ایک داستان گل گامیش، دوسرے سکندر نامۂسرُیانی، اور تیسرے وہ یہودی روایت جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ لیکن یہ بد طینت لوگ علم کے نام سے جو تحقیقات کرتے ہیں اس میں پہلے اپنی جگہ یہ طے کر لیتے ہیں کہ قرآن کو بہر حال منزل مِن اللہ تو نہیں ماننا ہے، اب کہیں نہ کہیں سے اس امر کا ثبوت بہم پہنچانا ضروری ہے کہ جو کچھ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) نے اس میں پیش کیا ہے یہ فلاں فلاں مقامات سے چراۓ ہوۓ مضامین اور معلومات ہیں۔ اس طرز تحقیق میں یہ لوگ اس قدر بے شرمی کے ساتھ کھینچ تان کرزمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں کہ بے اختیار گھن آنے لگتی ہے اور آدمی کو مجبوراً کہنا پڑتا ہے کہ اگر اسی کا نام علمی تحقیق ہے تو لعنت ہے اس علم پر اور اس تحقیق پر۔ ان کی اس متعصبانہ افترا پردازی کا پردہ بالکل چاک ہو جاۓ اگر کوئی طالب علم ان سے صرف چار باتوں کا جواب طلب کرے : اول یہ کہ آپ کے پاس وہ کیا دلیل ہے جس کی بنا پر آپ دو چار قدیم کتابوں میں قرآن کے کسی بیان سے ملتا جلتا مضمون پا کر یہ دعویٰ کر دیتے ہیں کہ قرآن کا بیان لازماً انہی کتابوں سے ماخوذ ہے؟ دوسرے یہ کہ مختلف زبانوں کی جتنی کتابیں آپ لوگوں نے قرآن مجید کے قصوں اور دوسرے بیانات کی ماخذ قرار دی ہیں اگر ان کی فہرست بنائی جاۓ تو اچھے خاصے ایک کتب خانے کہ فہرست بن جاۓ۔ کیا ایسا کوئی کتب خانہ مکے میں اس وقت موجود تھا اور مختلف زبانوں کے مترجمین بیٹھے ہوۓ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے مواد فراہم کر رہے تھے؟ اگر ایسا نہیں ہے اور آپ کا سارا انحصار ان دو تین سفروں پر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے نبوت سے کئی سال پہلے عرب سے باہر کیے تھے، تو سوال یہ ہے کہ آخر ان تجارتی سفروں میں آنحضرت کتنے کتب خانے نقل یا حفظ کر لائے تھے؟ اور اعلان معقول وجہ ہے؟ تیسرے یہ کہ کفار مکہ اور یہودی اور نصرانی، سب آپ ہی لوگوں کی طرح اس تلاش میں تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم یہ مضامین کہاں سے لاتے ہیں۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آنحضرت کے معاصرین کو اس سرقے کا پتہ نہ چلنے کی کیا وجہ ہے؟ انہیں تو بار بار تحدّی کی جا رہی تھی کہ یہ قرآن منزل من اللہ ہے، وحی کے سوا اس کا کوئی ماخذ نہیں ہے، اگر تم اسے بشر کلام کہتے ہو تو ثابت کرو کہ بشر ایسا کلام کہہ سکتا ہے۔ اس چیلنج نے آنحضرت کے معاصر دشمنان اسلام کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ مگر وہ ایک ماخذ کی بھی نشان دہی نہ کر سکے جس سے قرآن کے ماخوذ ہونے کا کوئی معقول آدمی یقین تو درکنار، شک ہی کر سکتا۔ سوال یہ ہے کہ معاصرین اس سراغ رسانی میں ناکام کیوں ہوۓ اور ہزار بارہ سو برس کے بعد آج معاندین کو اس میں کیسے کامیابی نصیب ہو رہی ہے؟ آخری اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس بات کا امکان تو بہرحال ہے نا کہ قرآن منزّل من اللہ ہو اور وہ پچھلی تاریخ کے انہی واقعات کی صحیح خبریں دے رہا ہو جو دوسرے لوگوں تک صدیوں کے دوران میں زبانی روایات سے مسخ ہوتی ہوئی پہنچی ہوں اور افسانوں میں جگہ پا گئی ہوں۔ اس امکان کو کس معقل دلیل کی بنا پر بالکل ہی خارج از بحث کر دیا گیا اور کیوں صرف اسی ایک امکان کو باۓ بحث و تحقیق بنا لیا گیا کہ قرآن ان قصوں ہی سے ماخوذ ہوا جو لوگوں کے پاس زبانی روایات اور افسانوں کی شکل میں موجود تھے؟ کیا مذہبی تعصب اور عناد کے سوا اس ترجیح کی کوئی دوسری وجہ بیان کی جا سکتی ہے؟ ان سوالات پر جو شخص بھی غور کرے گا وہ اس نتیجے تک پہنچے بغیر نہ رہ سکے گا کہ مستشرقین نے ’’علم‘‘ کے نام سے جو کچھ پیش کیا ہے وہ در حقیقت کسی سنجیدہ طالب علم کے لیے قابل التفات نہیں ہے۔ |
Surah 18 : Ayat 82
وَأَمَّا ٱلْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَـٰمَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِى ٱلْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُۥ كَنزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَـٰلِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَن يَبْلُغَآ أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنزَهُمَا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَۚ وَمَا فَعَلْتُهُۥ عَنْ أَمْرِىۚ ذَٲلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا
اور اس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ یہ دو یتیم لڑکوں کی ہے جو اس شہر میں رہتے ہیں اس دیوار کے نیچے اِن بچّوں کے لیے ایک خزانہ مدفون ہے اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا اس لیے تمہارے رب نے چاہا کہ یہ دونوں بچّے بالغ ہوں اور اپنا خزانہ نکال لیں یہ تمہارے رب کی رحمت کی بنا پرکیا گیا ہے، میں نے کچھ اپنے اختیار سے نہیں کر دیا ہے یہ ہے حقیقت اُن باتوں کی جن پر تم صبر نہ کر سکے1"
1 | اس قصے میں ایک بڑی پیچیدگی ہے جسے رفع کرنا ضروری ہے۔ حضرت خضر نے یہ تین کام جو کیے ہیں ان میں سے تیسرا کام تو خیر شریعت سے نہیں ٹکراتا، مگر پہلے دونوں کام یقیناً ان احکام سے متصادم ہوتے ہیں جو ابتداۓ عہد انسانیت سے آج تک تمام شرائع الہٰیہ میں ثابت رہے ہیں۔ کوئی شریعت بھی کسی انسان کو یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ کسی کی مملوکہ چیز کو خراب کر دے، اور کسی متنفس کو بے قصور قتل کر ڈالے۔ حتیٰ کہ اگر کسی انسان کو بطریق الہام بھی یہ معلوم ہو جاۓ کہ ایک کشتی کو آگے جا کر ایک غاصب چھین لے گا، اور فلاں لڑکا بڑا ہو کر سرکش اور کافر نکلے گا، تب بھی اس کے لیے خدا کی بھیجی ہوئی شریعتوں میں سے کسی شریعت کی رو سے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے اس الہامی علم کی بنا پر کشتی میں چھید کر دے اور ایک بے گناہ لڑکے کو مار ڈالے۔اس کے جواب میں یہ کہنا کہ حضرت خضر نے یہ دونوں کام اللہ کے حکم سے کیے تھے، فی الواقع اس پیچیدگی کو کچھ بھی رفع نہیں کرتا۔ سوال یہ نہیں ہے کہ حضرت خضر نے یہ کام کس کے حکم سے کیے تھے۔ ان کا حکم الہٰی سے ہونا تو بالیقین ثابت ہے کیونکہ حضرت خضر خود فرماتے ہیں کہ ان کے یہ افعال ان کے اختیاری نہیں ہیں بلکہ اللہ کی رحمت ان کی محرک ہوئی ہے، اور اس کی تصدیق اللہ تعالٰی خود فرما چکا ہے کہ حضرت حضر کو اللہ کی طرف سے ایک علم خاص حاصل تھا۔ پس یہ امر تو ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ کام اللہ کے حکم سے کیے تھے۔ مگر اصل سوال جو یہاں پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے ان احکام کی نوعیت کیا تھی؟ ظاہر ہے کہ یہ تشریعی احکام نہ تھے، کیونکہ شرائع الٰہیہ کے جو بنیادی اصول قرآن اور اس سے پہلے کی کتب آسمانی سے ثابت ہیں ان میں کبھی کسی انسان کے لیے یہ گنجائش نہیں رکھی گئی کہ وہ بلا ثبوت جرم کسی دوسرے انسان کو قتل کر دے۔ اس لیے لا محالہ یہ ماننا پڑے گا کہ یہ احکام اپنی نوعیت میں اللہ تعالٰی کے ان تکوینی احکام سے مشابہت رکھتے ہیں جن کے تحت دنیا میں ہر آن کوئی بیمار ڈالا جاتا ہے اور کوئی تندرست کیا جاتا ہے، کسی کو موت دی جاتی ہے اور کسی کو زندگی سے نوازا جاتا ہے، کسی کو تباہ کیا جاتا ہے اور کسی پر نعمتیں نازل کی جاتی ہیں۔اب اگر یہ تکوینی احکام ہیں تو ان کے مخاطب صرف فرشتے ہی ہو سکتے ہیں جن کے بارے میں شرعی جواز و عدم جواز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ وہ اپنے ذاتی اختیار کے بغیر صرف اوامر الہٰیہ کی تعمیل کرتے ہیں۔ رہا انسان تو خواہ وہ بلا ارادہ کسی تکوینی حکم کے نفاذ کا ذریعہ بنے، اور خواہ الہاماً اس طرح کا کوئی غیبی علم اور حکم پا کر اس پر عمل در آمد کرے، بہرحال وہ گنہ گار ہونے سے نہیں بچ سکتا اگر وہ کام جو اس نے کیا ہے کسی حکم شرعی سے ٹکراتا ہو۔ اس لیے کہ انسان بحیثیت اس کے کہ وہ انسان ہے، احکام شرعیہ کا مکلف ہے اور اصول شریعت میں کہیں یہ گنجائش نہیں پائی جاتی کہ کسی انسان کے لیے محض اس بنا پر احکام شرعیہ میں سے کسی حکم کی خلاف ورزی جائز ہو کہ اسے بذریعہ الہام اس خلاف کا حکم ملا ہے اور بذریعہ علم غیب اس خلاف ورزی کی مصلحت بتائی گئی ہے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس پر نہ صرف تمام علماۓ شریعت متفق ہیں، بلکہ اکابر صوفیہ بھی بالاتفاق یہی بات کہتے ہیں۔ چنانچہ علامہ آلوسی نے تفصیل کے ساتھ عبد الوہاب شعرانی، محی الدین ابن عربی، مجدو الف ثانی، شیخ عبد القادر جیلانیؒ، جنید بغدادی، سَری سقطی، ابلوحسین النوری، ابو سعید الخر از، ابو العباس احمد الدینوری اور امام غزالی جیسے نامور بزرگوں کے اقوال نقل کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ اہل تصوف کے نزدیک بھی کسی ایسے الہام پر عمل کرنا خود صاحب الہام تک کے لیے جائز نہیں ہے جو نص شرعی کے خلاف ہو۔(روح المعانی۔ج،16۔ ص 16۔ 18) اب کیا ہم یہ مان لیں کہ اس قاعدہ کلیہ سے صرف ایک انسان مستثنیٰ کیا گیا ہے اور وہ ہیں حضرت خضر؟ یا یہ سمجھیں کی خضر کوئی انسان نہ تھے بلکہ اللہ کے ان بندوں میں سے تھے جو مشیت الٰہی کے تحت (نہ کہ شریعت الہٰی تحت) کام کرتے ہیں؟ پہلی صورت کو ہم تسلیم کر لیتے اگر قرآن بالفاظ صریح یہ کہہ دیتا کہ وہ ’’بندہ‘‘ جس کے پاس حضرت موسیٰ اس تربیت کے لیے بھیجے گۓ تھے، انسان تھا۔ لیکن قرآن اس کے انسان ہونے کی تصریح نہیں کرتا بلکہ صرف عَبْدً ا مَّنْ عِبَادِ نَا (ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ) کے الفاظ بولتا ہے جو ظاہر ہے کہ اس بندے کے انسان ہونے کو مستلزم نہیں ہیں، قرآن مجید میں متعدد جگہ فرشتوں کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے، مثال کے طور پر ملاحظہ ہو سورہ انبیاء، آیت 26۔ اور سورہ زخرف، آیت 19۔ پھر کسی صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی کوئی ایسا ارشاد منقول نہیں ہے جس میں صراحت کے ساتھ حضرت خضر کو نوع انسانی کا ایک فرد قرار دیا گیا ہو۔ اس باب میں مستند ترین روایات وہ ہیں جو عن سعید بن جبیر، عن ابن عباس، عن اُبی بن کعب، عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سند سے ائمۃً حدیث کو پہچی ہیں۔ ان میں حضرت خضر کے لیے صرف رَجُل کا لفظ آیا ہے، جو اگرچہ مرد انسانوں کے لیے استعمال ہوتا ہے مگر انسانوں کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ چنانچہ خود قرآن میں یہ لفظ جِنوں کے لیے مستعمل ہو چکا ہے جیسا کہ سورہ جِن یا فرشتہ یا کوئی اور غیر مرئی وجود جب انسانوں کے سامنے آۓ گا تو انسانی شکل ہی میں آۓ گا اور اس حالت میں اس کو بشر یا انسان ہی کہا جاۓ گا۔ ضرت مریم کے سامنے جب فرشتہ آیا تھا تو قرآن اس واقعہ کو یوں بیان کرتا ہے کہ فَتَمَثَّلَ لَھَا بَشَرً ا سَوِیًّا۔ پس نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد کہ ’’وہاں انہوں نے ایک مرد کو پایا‘‘ حضرت خضر کے انسان ہونے پر صریح دلالت نہیں کرتا۔ اس کے بعد ہمارے لیے اس پیچیدگی کو رفع کرنے کی صرف یہی ایک صورت باقی رہ جاتی ہے کہ ہم ’’خضر‘‘ کو انسان نہ مانیں بلکہ فرشتوں میں سے، یا اللہ کی کسی اور ایسی مخلوق میں سے سمجھیں جو شرائع کی مکلف نہیں ہے بلکہ کار گاہ مشیت کی کارکن ہے۔ متقدمین میں سے بھی بعض لوگوں نے یہ راۓ ظاہر کی ہے جسے ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ماوردی کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔ |