Ayats Found (2)
Surah 28 : Ayat 76
۞ إِنَّ قَـٰرُونَ كَانَ مِن قَوْمِ مُوسَىٰ فَبَغَىٰ عَلَيْهِمْۖ وَءَاتَيْنَـٰهُ مِنَ ٱلْكُنُوزِ مَآ إِنَّ مَفَاتِحَهُۥ لَتَنُوٓأُ بِٱلْعُصْبَةِ أُوْلِى ٱلْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُۥ قَوْمُهُۥ لَا تَفْرَحْۖ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلْفَرِحِينَ
یہ ایک واقعہ ہے1 کہ قارون موسیٰؑ کی قوم کا ایک شخص تھا، پھر وہ اپنی قوم کے خلاف سرکش ہو گیا2 اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ ان کی کنجیاں طاقت ور آدمیوں کی ایک جماعت مشکل سے اُٹھا سکتی تھی3 ایک دفعہ جب اس کی قوم کے لوگوں نے اُس سے کہا "پھول نہ جا، اللہ پھولنے والوں کو پسند نہیں کرتا
3 | بائیبل(گنتی، باب ۱۶) میں اس کاجوقصہ بیان کیاگیا ہےاس میں اس شخص کی دولت کاکوئی ذکر نہیں ہے مگر یہودی روایات یہ بتاتی ہیں کہ یہ شخص غیر معمولی دولت کامالک تھا حتٰی کہ اس کےخزانوں کی کنجیاں اُٹھانے کےلیے تین سوچر درکار ہوتے تھے(جیوش اسائیکلوپیڈیا،ج ۷ ص۵۵۶ )۔ یہ بیان اگرچہ انتہائی مبالغہ آمیز ہے، لیکن اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اسرئیلی روایات کی روسے بھی قارون اپنے وقت کابہت بڑا دولت مند آدمی تھا۔ |
2 | قارون، جس کانام بائیبل اورتلمود میںقورح (Korah) بیان کیاگیا ہے، حضرت موسٰی علیہ السلام کاچچازاد بھائی تھا۔ بائیبل کی کتاب خروج (باب۶۔آیت۱۸۔۱۶) میں جونسب نامہ درج ہے اس کی روسے حضرت موسٰیؑ اورقارون کےوالد باہم سگے بھائی تھے۔ قرآن مجید میںدوسری جگہ یہ بتایا گیا ہےکہ یہ شخص بنی اسرائیل میںسے ہونے کےباوجود فرعون کےساتھ جاملا تھااوراس کامقرب بن کراس حد کوپہنچ گیا تھا کہ موسٰی علیہ السلام کی دعوت کےمقابلے میں فرعون کےبعد مخالفت کےجودوسب سےبڑے سرغنے تھے ان میںسے ایک یہی قارون تھا: وَلَقَدْ اَرْسَلْنا مُوْسٰی بِاٰیِتِنَا وَسُلْطٰنِِ مُّبِِیْنِِ، اِلٰی فِرْعَوْنَ وَھَاَمَانَ وَقَارُوْنَ فَقَالُوْا سٰحِرٌکَذَّابٌْ (المومن۔آیت ۲۳۔۲۴) ہم نے موسٰیؑ کواپنی نشانیوں اورکھلی دلیل کے ساتھ فرعون اورہامان اورقارون کی طرف بھیجا،مگر انہوں نے کہاکہ یہ ایک جادوگرہےسخت جھوٹا۔اس سے واضح ہوجاتاہے کہ قارون اپنی قوم سے باغی ہوکراُس دشمن طاقت کاپٹھوبن گیاتھاجوبنی اسرئیل کوجڑ بنیاد سے ختم کردینےپرتلی ہوئی تھی۔ اوراس قومی غداری کی بدولت اس نے فرعونی سلطنت میںیہ مرتبہ حاصل کرلیا تھاکہ حضرت موسٰی ؑ فرعون کے علاوہ مصر کی جن دوبڑی ہستیوں کی طرف بھیجے گئے تھے وہ دوہی تھی، ایک فرعون کاوزیر ہامان اوردوسرا ی ہاسرئیلی سیٹھ۔ باقی سب اعیان سلطنت اوردربار ان سے کم تر درجے میںتھے جس کا خاص طور پرنام لینے کی ضرورت نہ تھی۔ قارون کی یہی پوزیشن سورہ عنکبوت کی آیت ۳۹ میںبھی بیان گی گئی ہے۔ |
1 | یہ واقعہ بھی کفار مکہ کے اُسی عزر کےجواب میںبیان کیاجارہا ہےجس پرآیت ۵۷ سے ملسل تقریر ہورہی ہے۔ اس سلسلہ میںیہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ جن لوگوں نے محمد ﷺ کی دعوت سے قومی مفاد پرضرب لگنے کاخطرہ ظاہر کیاتھا وہ دراصل مکہ کے بڑےبڑے سیٹھ ساہیوکار اورسرمایہ دارتھے جنہیں بین الاقوامی تجارے اورسود خواری نے قارون وقت بنارکھاتھا۔ یہی لوگ اپنی جگہ یہ سمجھےبیٹھے تھے کہ اصل حق بس یہ ہے کہ ذیادہ سے ذیادہ دولت سمیٹو۔ اس مقصد پر جس چیز سے بھی آنچ آنے اندیشہ ہووہ سراسر باطل ہےجسے کسی حال میںقبول نہیں کیاجاسکتا۔دوسری طرف عوام الناس دولت کے ان میناروں کوآرزو بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے اوران کی غایت تمنا بس یہ تھی کہ جس بلندی پریہ لوگ پہنچےہوئے ہیں، کاش ہمیں بھی اس تک پہنچنا نصیب ہوجائے۔اس زرپرستی کے ماحول میں یہ دلیل بڑی وزنی سمجھی جارہی تھی کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) جس توحید وآخرت کی، اورجس ضابطہ اخلاق کی دعوت دے رہے ہیں اسے مان لیا جائے توقریش کی عظمت کایہ فلک بوس قصر زمین پرآرہے گااورتجارتی کاروبار تودرکنار جینے تک کےلالےپڑجائیں گے |
Surah 28 : Ayat 80
وَقَالَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْعِلْمَ وَيْلَكُمْ ثَوَابُ ٱللَّهِ خَيْرٌ لِّمَنْ ءَامَنَ وَعَمِلَ صَـٰلِحًا وَلَا يُلَقَّـٰهَآ إِلَّا ٱلصَّـٰبِرُونَ
مگر جو لوگ علم رکھنے والے تھے وہ کہنے لگے "افسوس تمہارے حال پر، اللہ کا ثواب بہتر ہے اُس شخص کے لیے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے، اور یہ دولت نہیں ملتی مگر صبر کرنے والوں کو1"
1 | یعنی یہ سیرت، یہ انداز فکر اوریہ ثواب الٰہی کی بخشش صرف انہی لوگوں کےحصہ میں آتی ہے جن مین اتنا تحمل اوراتنی ثابت قدمی موجود ہوکہ حلال طریقے ہی اختیار کرنے پرمضبوطی کےساتھ جمے رہیں، خواہ ان سےصرف چٹنی روٹی میسر ہویا کروڑ پتی بن جانا نصیب ہوجائے، اورحرام طریقوں کی طرف قطعََا مائل نہ ہوں خواہ ان سے دنیا بھر کےفائدے سمیٹ لینے کاموقع مل رہا ہو۔ اس آیت میںاللہ کےثواب سے مراد ہےوہ رزق کریم جوحدود اللہ کے اندررہتے ہوئے محنت وکوشش کرنے کے نتیجے میں انسان کودنیا اورٓآخرت میںنصیب ہو۔ اورصبر سے مراد ہےاپنے جزبات اورخواہشات پرقابو رکھنا، لالچ اورحرص وآزکےمقابلے میںایمانداری اورراستبازی پرثابت قدم رہنا، صداقت ودیانت دسےجونقصان ہویاجوفائدہ بھی ہاتھ سے جاتا ہواسے برداشت کرلینا، ناجائز تدبیروں سے جومنفعت بھی حاصل ہوسکتی ہواسےٹھوکر ماردینا، حلال کی روزی خواہ بقدر سدرمق ہی ہواس پرقانع ومطمئن رہنا، حرام خوروں کےٹھاٹھ باٹھ دیکھ کررشک وتمناکےجزبات سے بےچین ہونے کےبجائے اس پرایک نگاہ غلط اندازہ بھی نہ ڈالنا اورٹھنڈےدل سےیہ سمجھ لینا کہ ایک ایماندار آدمی کےلیے اس چمکدارگندگی کی بہ تسبت وہ بےرونق طہارت ہی بہتر ہےجواللہ نےاپنےفضل سے اس کوبخشی ہے۔ رہا یہ ارشاد کہ’’ یہ دولت نہیں ملتی مگر صبر کرنے والوں کو‘‘، تواس دولت سے مراد اللہ کاثواب بھی ہےاوروہ پاکیزہ ذہنیت بھی جس کی بنا پرآدمی ایمان وعمل صالح کےساتھ فاقہ کشی کرلینے کواس بہتر سمجھتا ہے کہ بےایمانی اختیار کرکے ارب پتی بن جائے۔ |