Ayats Found (8)
Surah 20 : Ayat 83
۞ وَمَآ أَعْجَلَكَ عَن قَوْمِكَ يَـٰمُوسَىٰ
اور کیا چیز تمہیں اپنی قوم سے پہلے لے آئی موسیٰؑ؟1
1 | اس فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم کو راستے ہی میں چھوڑ کر حضرت موسیٰ اپنے رب کی ملاقات کے شوق میں آگے چلے گۓ تھے۔ طور کی جانب ایمن میں، جہاں کا وعدہ بنی اسرائیل سے کیا گیا تھا، ابھی قافلہ پہنچنے بھی نہ پایا تھا کہ حضرت موسیٰ اکیلے روانہ ہو گۓ اور حاضری دے دی۔ اس موقع پر جو معاملات خدا اور بندے کے درمیان ہوۓ ان کی تفصیلات سورہ اعراف رکوع 17 میں درج ہیں۔ حضرت موسیٰ کا دیدار الہٰی کی استدعا کرنا اور اللہ تعالٰی کا فرمانا کہ تو مجھے نہیں دیکھ سکتا، پھراللہ کا ایک پہاڑ پر ذرا سی تجلی فرما کر اسے ریزہ ریزہ کر دینا اور حضرت موسیٰ کا بیہوش ہو کر گر پڑنا، اس کے بعد پتھر کی تختیوں پر لکھے ہوۓ احکام عطا ہونا، یہ سب اسی وقت کے واقعات ہیں۔ یہاں ان واقعات کا صرف وہ حصہ بیان کیا جا رہا ہے جو بنی اسرائیل کی گو سالہ پرستی سے متعلق ہے۔ اس کے بیان سے مقصود کفار مکہ کو یہ بتانا ہے کہ ایک قوم میں بت پرستی کا آغاز کس طرح ہوا کرتا ہے اوراللہ کے نبی اس فتنے کو اپنی قوم میں سر اٹھاتے دیکھ کر کیسے بے تاب ہو جایا کرتے ہیں۔ |
Surah 20 : Ayat 85
قَالَ فَإِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِنۢ بَعْدِكَ وَأَضَلَّهُمُ ٱلسَّامِرِىُّ
فرمایا 1"اچھا، تو سنو، ہم نے تمہارے پیچھے تمہاری قوم کو آزمائش میں ڈال دیا اور سامری نے انہیں گمراہ کر ڈالا"
1 | یہ اس شخص کا نام نہیں ہے، بلکہ یاۓ نسبتی کی صریح علامت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بہرحال کوئی نہ کوئی نسبت ہی ہے، خواہ قبیلے کی طرف ہو یا نسل کی طرف یا مقام کی طرف۔ پھر قرآن جس طرح ’’السامری‘‘ کہہ کر اس کا ذکر کر رہا ہے اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں سامری قبیلے یا نسل یا مقام کے بہت سے لوگ موجود تھے جن میں سے ایک خاص سامری وہ شخص تھا جس نے بنی اسرائیل میں سنہری بچھڑے کی پرستش پھیلائی۔ اس سے زیادہ کوئی تشریح قرآن کے اس مقام کی تفسیر کے لیے فی الحقیقت درکار نہیں ہے۔ لیکن یہ مقام ان اہم مقامات میں سے ہے جہاں عیسائی مشنریوں، اور خصوصاً مغربی مستشرقین نے قرآن پر حرف گیر کی حد کر دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ، معاذ اللہ، قرآن کے مصنف کی جہالت کا صریح ثبوت ہے، اس لیے کہ دولت اسرائیل کا دارالسلطنت’’سامریہ‘‘ اس واقعہ کے کئی صدی بعد 965 ق م کے قریب زمانے میں تعمیر ہوا، پھر اس کے بھی کئی صدی بعد اسرائیلیوں اور غیر اسرائیلیوں کی وہ مخلوط نسل پیدا ہوئی جس نے ’’سامریوں‘‘ کے نام سے شہرت پائی۔ ان کا خیال یہ ہے کہ ان سامریوں میں چونکہ دوسری مشرکانہ بدعات کے ساتھ ساتھ سنہری بچھڑے کی پرستش کا رواج بھی تھا، اور یہودیوں کے ذریعہ سے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) نے اس بات کی سن گن پالی ہو گی، اس لئے انہوں نے لے جا کر اس کا تعلق حضرت موسیٰ کے عہد سے جوڑ دیا اور یہ قصہ تصنیف کر ڈالا کہ وہاں سنہری بچھڑے کی پرستش رائج کرنے والا ایک سامری شخص تھا۔ اسی طرح کی باتیں ان لوگوں نے ہامان کے معاملہ میں بنائی ہیں جسے قرآن فرعون کے وزیر کی حیثیت سے پیش کرتا ہے، اور عیسائی مشنری اور مستشرقین اسے اخسویرس (شاہ ایران) کے درباری امری ’’ہامان‘‘ سے لے جا کر ملا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن کے مصنف کی جہالت کا ایک اور ثبوت ہے۔ شاید ان مدعیان علم و تحقیق کا گمان یہ ہے کہ قدیم زمانے میں ایک نام کا ایک ہی شخص یا قبیلہ یا مقام ہوا کرتا تھا اور ایک نام کے دو یا زائد اشخاص یا قبیلہ و مقام ہونے کا قطعاً کوئی امکان نہ تھا۔ حالانکہ سُمیری قدیم تاریخ کی ایک نہایت مشہور قوم تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور میں عراق اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر چھائی ہوئی تھی، اور اس بات کا بہت امکان ہے کہ حضرت موسیٰ کے عہد میں اس قوم کے، یا اس کی کسی شاخ کے لوگ مصر میں سامری کہلاتے ہوں۔ پھر خود اس سامریہ کی اصل کو بھی دیکھ لیجیے جس کی نسبت سے شمالی فلسطین کے لوگ بعد میں سامری کہلانے لگے۔ بائیبل کا بیان ہے کہ دولت اسرائیل کے فرمانروا عمری نے ایک شخص ’’سمر‘‘ نامی سے وہ پہاڑ خریدا تھا جس پر اس نے بعد میں اپنا دار السلطنت تعمیر کیا۔ اور چونکہ پہاڑ کے سابق مالک کا نام سمر تھا اس لیے اس شہر کا نام سامریہ رکھا گیا (سلاطین 1، بابا 16۔ آیت 24)۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ سامریہ کے وجود میں آنے سے پہلے ’’سمر‘‘ نام کے اشخاص پاۓ جاتے تھے اور ان سے نسبت پا کر ان کی نسل یا قبیلے کا نام سامری، اور مقامات کا نام سامریہ ہونا کم ازکم ممکن ضرور تھا۔ |
Surah 7 : Ayat 148
وَٱتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَىٰ مِنۢ بَعْدِهِۦ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلاً جَسَدًا لَّهُۥ خُوَارٌۚ أَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّهُۥ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلاًۘ ٱتَّخَذُوهُ وَكَانُواْ ظَـٰلِمِينَ
موسیٰؑ کے پیچھے1 اس کی قوم کے لوگوں نے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑے کا پتلا بنا لیا جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی کیا اُنہیں نظر نہ آتا تھا کہ وہ نہ ان سے بولتا ہے نہ کسی معاملہ میں ان کی رہنمائی کرتا ہے؟ مگر پھر بھی اُنہوں نے اسے معبود بنا لیا اور وہ سخت ظالم تھے2
2 | یہ اُس مصریّت زندگی کا دوسرا ظہور تھا جسے لیے ہوئے بنی اسرائیل مصر سے نکلے تھے۔ مصر میں گائے کی پرستش اور تقدیس کا جو رواج تھا اس سے یہ قوم اتنی شدّت کے ساتھ متاثر ہو چکی تھی کہ قرآن کہتا ہے وَاُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِھِمُ العِجْلَ۔یعنی ان کے دلوں میں بچھڑا بس کر رہ گیا تھا۔ سب سے زیادہ حیرت کا مقام یہ ہے کہ ابھی مصر سے نکلے ہوئے ان کو صرف تین مہینے ہی گزرے تھے۔ سمندر کا پھٹنا ، فرعون کا غرق ہونا ، اِن لوگوں کا بخیریت اُس بندِ غلامی سے نِکل آنا جس کے ٹوٹنے کی کوئی اُمید نہ تھی ، اور اس سلسلے کے دوسرے واقعات ابھی بالکل تازہ تھے، اور انہیں خوب معلوم تھا کہ یہ جو کچھ ہوا محض اللہ کی قدرت سے ہوا ہے ، کِسی دوسرے کی طاقت و تصرف کا اس میں کچھ دخل نہ تھا۔ مگر اس پر بھی انہوں نے پہلے تو پیغمبر سے ایک مصنوعی خدا طلب کیا ، اور پھر پیغمبر کے پیٹھ موڑتے ہی خود ایک مصنوعی خدا بنا ڈالا ۔ یہی وہ حرکت ہے جس پر بعض انبیاء بنی اسرا ئیل نے اپنی قوم کو اُس بدکار عورت سے تشبیہ دی ہے جو اپنے شوہر کے سوا ہر دوسرے مرد سے دل لگاتی ہو اور جو شب اوّل میں بھی بے وفائی سے نہ چُوکی ہو |
1 | یعنی اُن چالیس دِنوں کے دوران میں جب کہ حضرت موسیٰ ؑ اللہ تعالیٰ کی طلبی پر کوہ سینا گئے ہوئے تھے اور یہ قوم پہاڑ کے نیچے میدانُ الرَّاحَہ میں ٹھہری ہوئی تھی |
Surah 7 : Ayat 152
إِنَّ ٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُواْ ٱلْعِجْلَ سَيَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَذِلَّةٌ فِى ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَاۚ وَكَذَٲلِكَ نَجْزِى ٱلْمُفْتَرِينَ
(جواب میں ارشاد ہوا کہ) "جن لوگوں نے بچھڑے کو معبود بنایا وہ ضرور اپنے رب کے غضب میں گرفتار ہو کر رہیں گے اور دنیا کی زندگی میں ذلیل ہوں گے جھوٹ گھڑنے والوں کو ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں
Surah 7 : Ayat 154
وَلَمَّا سَكَتَ عَن مُّوسَى ٱلْغَضَبُ أَخَذَ ٱلْأَلْوَاحَۖ وَفِى نُسْخَتِهَا هُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلَّذِينَ هُمْ لِرَبِّهِمْ يَرْهَبُونَ
پھر جب موسیٰؑ کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو اس نے وہ تختیاں اٹھا لیں جن کی تحریر میں ہدایت اور رحمت تھی اُن لوگوں کے لیے جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں
Surah 20 : Ayat 86
فَرَجَعَ مُوسَىٰٓ إِلَىٰ قَوْمِهِۦ غَضْبَـٰنَ أَسِفًاۚ قَالَ يَـٰقَوْمِ أَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًاۚ أَفَطَالَ عَلَيْكُمُ ٱلْعَهْدُ أَمْ أَرَدتُّمْ أَن يَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَخْلَفْتُم مَّوْعِدِى
موسیٰؑ سخت غصّے اور رنج کی حالت میں اپنی قوم کی طرف پلٹا جا کر اُس نے کہا 1"اے میری قوم کے لوگو، کیا تمہارے رب نے تم سے اچھے وعدے نہیں کیے تھے؟ کیا تمہیں دن لگ گئے ہیں؟ 2یا تم اپنے رب کا غضب ہی اپنے اوپر لانا چاہتے تھے کہ تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی؟3"
3 | اس سے مراد وہ وعدہ ہے جو ہر قوم اپنے نبی سے کرتی ہے۔ اس کے اتباع کا وعدہ۔ اس کی دی ہوئی ہدایت پر ثابت قدم رہنے کا وعدہ۔ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرنے کا وعدہ۔ |
2 | دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’کیا وعدہ پورا ہونے میں بہت دیر لگ گئی کہ تم بے صبر ہو گۓ؟‘‘ پہلے ترجمے کا مطلب یہ ہو گا کہ تم پر اللہ تعالٰی ابھی ابھی جو عظیم الشان احسانات کر چکا ہے، کیا ان کو کچھ بہت زیادہ مدت گزر گئی ہے کہ تم انہیں بھول گۓ؟ کیا تمہاری مصیبت کا زمانہ بیتے قرنیں گزر چکی ہیں کہ تم سرمست ہو کر بہکنے لگے؟ دوسرے ترجمے کا مطلب صاف ہے کہ ہدایت نامہ عطا کرنے کا جو وعدہ کیا گیا تھا، اس کے وفا ہونے میں کوئی تاخیر تو نہیں ہوئی ہے جس کو تم اپنے لیے عذر اور بہانہ بنا سکو۔ |
1 | ’’اچھا وعدہ نہیں کیا تھا‘‘ بھی ترجمہ ہو سکتا ہے۔ متن میں جو ترجمہ ہم نے اختیار کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آج تک تمہارے رب نے تمہارے ساتھ جتنی بھلائیوں کا وعدہ بھی کیا ہے وہ سب تمہیں حاصل ہوتی رہی ہیں۔ تمہیں مصر سے بخیریت نکالا، غلامی سے نجات دی، تمہارے دشمن کو تہس نہس کیا، تمہارے لیے ان صحراؤں اور پہاڑی علاقوں میں ساۓ اور خوراک کا بندوبست کیا۔ کیا یہ سارے اچھے وعدے پورے نہیں ہوۓ؟ دوسرے ترجمے کا مطلب یہ ہو گا کہ تمہیں شریعت اور ہدایت نامہ عطا کرنے کا جو وعدہ کیا گیا تھا، کیا تمہارے نزدیک وہ کسی خیر اور بھلائی کا وعدہ نہ تھا۔ |
Surah 20 : Ayat 98
إِنَّمَآ إِلَـٰهُكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَۚ وَسِعَ كُلَّ شَىْءٍ عِلْمًا
لوگو، تمہارا خدا تو بس ایک ہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے، ہر چیز پر اُس کا علم حاوی ہے"
Surah 2 : Ayat 54
وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِۦ يَـٰقَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُم بِٱتِّخَاذِكُمُ ٱلْعِجْلَ فَتُوبُوٓاْ إِلَىٰ بَارِئِكُمْ فَٱقْتُلُوٓاْ أَنفُسَكُمْ ذَٲلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلتَّوَّابُ ٱلرَّحِيمُ
یاد کرو جب موسیٰؑ (یہ نعمت لیتے ہوئے پلٹا، تو اُس) نے اپنی قوم سے کہا کہ 1"لوگو، تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنے اوپر سخت ظلم کیا ہے، لہٰذا تم لوگ اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنی جانوں کو ہلاک کرو، اسی میں تمہارے خالق کے نزدیک تمہاری بہتری ہے" اُس وقت تمہارے خالق نے تمہاری توبہ قبول کر لی کہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
1 | یعنی اپنے اُن آدمیوں کو قتل کرو جنہوں نے گوسالے کو معبُود بنایا اور اس کی پرستش کی |