Ayats Found (4)
Surah 2 : Ayat 55
وَإِذْ قُلْتُمْ يَـٰمُوسَىٰ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ نَرَى ٱللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ ٱلصَّـٰعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ
یاد کرو جب تم نے موسیٰؑ سے کہا تھا کہ ہم تمہارے کہنے کا ہرگز یقین نہ کریں گے، جب تک کہ اپنی آنکھوں سے علانیہ خدا کو (تم سے کلام کرتے) نہ دیکھ لیں اس وقت تمہارے دیکھتے دیکھتے ایک زبردست صاعقے نے تم کو آ لیا
Surah 2 : Ayat 56
ثُمَّ بَعَثْنَـٰكُم مِّنۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
تم بے جان ہو کر گر چکے تھے، مگر پھر ہم نے تم کو جِلا اٹھایا، شاید کہ اس احسان کے بعد تم شکر گزار بن جاؤ1
1 | یہ اشارہ جس واقعہ کی طرف ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ چالیس شبانہ روز کی قرار داد پر جب حضرت موسیٰ ؑ طُور پر تشریف لے گئے تھے، تو آپ ؑ کو حکم ہوا تھا کہ اپنے ساتھ بنی اسرائیل کے ستّر نمائندے بھی لے کر آئیں ۔ پھر جب اللہ تعالی ٰ نے موسیٰ ؑ کو کتاب اور فُرقان عطا کی، تو آپ نے اسے ان نمائندوں کے سامنے پیش کیا۔ اس موقع پر قرآن کہتا ہے کہ ان میں سے بعض شریر کہنے لگے کہ ہم محض تمہارے بیان پر کیسے مان لیں کہ خدا تم سے ہم کلام ہوا ہے۔ اس پر اللہ تعالی ٰ کا غضب نازل ہوا اور اُنہیں سزا دی گئی ۔ لیکن بائیبل کہتی ہے کہ : ”انہوں نے اسرائیل کے خدا کو دیکھا۔ اس کے پا ؤ ں کے نیچے نیلم کے پتھر کا چبُوترا تھا ، جو آسمان کی مانند شفاف تھا۔ اور اس نے بنی اسرائیل کے شُرفا پر اپنا ہاتھ نہ بڑھایا۔ سو انہوں نے خدا کو دیکھا اور کھایا اور پیا۔“(خرُوج، باب ۲۴ ۔ آیت ۱۱-۱۰) لُطْف یہ ہے کہ اسی کتاب میں آگے چل کر لکھا ہے کہ جب حضرت موسیٰ ؑ نے خدا سے عرض کیا کہ مجھے اپنا جلال دکھا دے، تو اُس نے فرمایا کہ تُو مجھے نہیں دیکھ سکتا ۔( دیکھو خرُوج، باب ۳۳- آیت ۲۳-۱۸) |
Surah 7 : Ayat 155
وَٱخْتَارَ مُوسَىٰ قَوْمَهُۥ سَبْعِينَ رَجُلاً لِّمِيقَـٰتِنَاۖ فَلَمَّآ أَخَذَتْهُمُ ٱلرَّجْفَةُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ أَهْلَكْتَهُم مِّن قَبْلُ وَإِيَّـٰىَۖ أَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ ٱلسُّفَهَآءُ مِنَّآۖ إِنْ هِىَ إِلَّا فِتْنَتُكَ تُضِلُّ بِهَا مَن تَشَآءُ وَتَهْدِى مَن تَشَآءُۖ أَنتَ وَلِيُّنَا فَٱغْفِرْ لَنَا وَٱرْحَمْنَاۖ وَأَنتَ خَيْرُ ٱلْغَـٰفِرِينَ
اور اُس نے اپنی قوم کے ستر آدمیوں کو منتخب کیا تاکہ وہ (اُس کے ساتھ) ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر حاضر ہوں1 جب اِن لوگوں کو ایک سخت زلزلے نے آ پکڑا تو موسیٰؑ نے عرض کیا 2"اے میرے سرکار، آپ چاہتے تو پہلے ہی اِن کو اور مجھے ہلاک کرسکتے تھے کیا آپ اُس قصور میں جو ہم میں سے چند نادانوں نے کیا تھا ہم سب کو ہلاک کر دیں گے؟ یہ تو آپ کی ڈالی ہوئی ایک آزمائش تھی جس کے ذریعہ سے آپ جسے چاہتے ہیں گمراہی میں مبتلا کر دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں ہدایت بخش دیتے ہیں ہمارے سر پرست تو آپ ہی ہیں پس ہمیں معاف کر دیجیے اور ہم پر رحم فرمائیے، آپ سب سے بڑھ کر معاف فرمانے والے ہیں
2 | مطلب یہ ہے کہ ہر آزمائش کا موقع انسانوں کے درمیان فیصلہ کن ہوتا ہے۔ وہ چھاج کی طرح ایک مخلوط گروہ میں سے کارآمد آدمیوں اور ناکارہ آدمیوں کو پھٹک کر الگ کر دیتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا عین مقتضیٰ ہے کہ ایسے مواقع وقتاً فوقتاً آتے رہیں۔ ان مواقع پر جو کامیابی کی راہ پاتا ہے وہ اللہ ہی کی توفیق و رہنمائی سے پاتا ہے اور جو ناکام ہوتا ہے وہ اُس کی توفیق ورہنمائی سے محروم ہونے کی بدولت ہی ناکام ہوتا ہے۔ اگرچہ اللہ کی طرف سے توفیق اور رہنمائی ملنے اور نہ ملنے کے لیے بھی ایک ضابطہ ہے جو سراسر حکمت اور عدل پر مبنی ہے، لیکن بہر حال یہ حقیقت اپنی جگہ ثابت ہے کہ آدمی کا آزمائش کے مواقع پر کامیا بی کی رہ پانا یا نہ پانا اللہ کی توفیق ہو ہدایت پر منحصر ہے |
1 | یہ طلبی اس غرض کے لیے ہوئی تھی کہ قوم کے ۷۰ نمائندے کوہ ِ سینا پر پیشی ِ خدا وندی میں حاضر ہو کر قوم کی طرف سے گوسالہ پرستی کے جرم کی معافی مانگیں اور از سرِ نو اطاعت کا عہد استوارکر یں۔ بائیبل اور تلمود میں ا س بات کا ذکر نہیں ہے۔ البتہ یہ ذکر ہے کہ جو تختیاں حضرت موسیٰ ؑ نے پھینک کر توڑ دی تھیں ان کے بدلے دوسری تختیاں عطاکرنے کے لیے آپ کو سینا پر بلایا گیا تھا(خروج۔باب۳۴) |
Surah 7 : Ayat 156
۞ وَٱكْتُبْ لَنَا فِى هَـٰذِهِ ٱلدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِى ٱلْأَخِرَةِ إِنَّا هُدْنَآ إِلَيْكَۚ قَالَ عَذَابِىٓ أُصِيبُ بِهِۦ مَنْ أَشَآءُۖ وَرَحْمَتِى وَسِعَتْ كُلَّ شَىْءٍۚ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ ٱلزَّكَوٲةَ وَٱلَّذِينَ هُم بِـَٔـايَـٰتِنَا يُؤْمِنُونَ
اور ہمارے لیے اس دنیا کی بھلائی بھی لکھ دیجیے اور آخرت کی بھی، ہم نے آپ کی طرف رجوع کر لیا1" جواب میں ارشاد ہوا "سزا تو میں جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں، مگر میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے، اور اُسے میں اُن لوگوں کے حق میں لکھوں گا جو نافرمانی سے پرہیز کریں گے، زکوٰۃ دیں گے اور میری آیات پر ایمان لائیں گے"
1 | یعنی اللہ تعالیٰ جس طریقے پر خدائی کر رہا ہے اس میں اصل چیز غضب نہیں ہے جس میں کبھی کبھی رحم اور فضل کی شان نمودار ہو جاتی ہو، بلکہ اصل چیز رحم ہے جس پر سارا نظامِ عالم قائم ہے اور اس میں غضب صرف اس وقت نمودار ہوتا ہے جب بندوں کا تمردُّحد سے فزوں ہوجاتا ہے |