Ayats Found (3)
Surah 2 : Ayat 63
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَـٰقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ ٱلطُّورَ خُذُواْ مَآ ءَاتَيْنَـٰكُم بِقُوَّةٍ وَٱذْكُرُواْ مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے طُور کو تم پر اٹھا کر تم سے پختہ عہد لیا تھا اور کہا تھا1 کہ "جو کتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں اسے مضبوطی کے ساتھ تھامنا اور جو احکام و ہدایات اس میں درج ہیں انہیں یاد رکھنا اسی ذریعے سے توقع کی جاسکتی ہے کہ تم تقویٰ کی روش پر چل سکو گے"
1 | اس واقعے کو قرآن میں مختلف مقامات پر جس انداز سے بیان کیا گیا ہے اس سے یہ بات صاف ظاہر ہو تی ہے کہ اس وقت بنی اسرائیل میں یہ ایک مشہور و معرُوف واقعہ تھا۔ لیکن اب اس کی تفصیلی کیفیت معلوم کرنا مشکل ہے۔ بس مجملاً یوں سمجھنا چاہیے کہ پہاڑ کے دامن میں میثاق لیتے وقت ایسی خوفناک صُورتِ حال پیدا کر دی گئی تھی کہ ان کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا پہاڑ ان پر آپڑے گا۔ ایسا ہی کچھ نقشہ سُورہٴ اعراف آیت ۱۷۱ میں کھینچا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو سُورہٴ اعراف، حاشیہ نمبر ۱۳۲) |
Surah 2 : Ayat 93
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَـٰقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ ٱلطُّورَ خُذُواْ مَآ ءَاتَيْنَـٰكُم بِقُوَّةٍ وَٱسْمَعُواْۖ قَالُواْ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَأُشْرِبُواْ فِى قُلُوبِهِمُ ٱلْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْۚ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُم بِهِۦٓ إِيمَـٰنُكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
پھر ذرا اُس میثاق کو یاد کرو، جو طُور کو تمہارے اوپر اٹھا کر ہم نے تم سے لیا تھا ہم نے تاکید کی تھی کہ جو ہدایات ہم دے رہے ہیں، ان کی سختی کے ساتھ پابندی کرو اور کان لگا کر سنو تمہارے اسلاف نے کہا کہ ہم نے سن لیا، مگر مانیں گے نہیں اور ان کی باطل پرستی کا یہ حال تھا کہ دلوں میں ان کے بچھڑا ہی بسا ہوا تھا کہو: اگر تم مومن ہو، تو عجیب ایمان ہے، جو ایسی بری حرکات کا تمہیں حکم دیتا ہے
Surah 7 : Ayat 171
۞ وَإِذْ نَتَقْنَا ٱلْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَأَنَّهُۥ ظُلَّةٌ وَظَنُّوٓاْ أَنَّهُۥ وَاقِعُۢ بِهِمْ خُذُواْ مَآ ءَاتَيْنَـٰكُم بِقُوَّةٍ وَٱذْكُرُواْ مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
انہیں وہ وقت بھی کچھ یاد ہے جبکہ ہم نے پہاڑ کو ہلا کر ان پر اس طرح چھا دیا تھا کہ گویا وہ چھتری ہے اور یہ گمان کر رہے تھے کہ وہ ان پر آ پڑے گا اور اُس وقت ہم نے ان سے کہا تھا کہ جو کتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں اسے مضبوطی کے ساتھ تھامو اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اسے یاد رکھو، توقع ہے کہ تم غلط روی سے بچے رہو گے1
1 | اشارہ ہے اُس واقعہ کی طرف جو موسیٰ علیہ السلام کو شہادت نامہ کی سنگین لوحیں عطا کیے جانے کے موقع پر کوہِ سینا کے دامن میں پیش آیا تھا۔ بائیبل میں اس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ”اور موسیٰ لوگوں کو خیمہ گاہ سے باہر لایا کہ خدا سے ملائے اور وہ پہاڑ کے نیچے آ کھڑے ہوئے اور کوہِ سینا اُوپر سے نیچے تک دھوئیں سے بھر گیا کیونکہ خدا وند شعلہ میں ہو کر اس پر اُترا اور دھواں تنور کے دھوئیں کی طرح اوپر کو اُٹھ رہا تھا اور وہ سارا پہاڑ زور سے ہل رہا تھا“(خروج ١۹: ١۷۔١۸) اس طرح اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے کتاب کی پابندی کا عہد لیا اور عہد لیتے ہوئے خارج میں ان پر ایسا ماحول طاری کر دیا جس سے انہیں خدا کے جلال اور اس کی عظمت و بر تری اور اس کے عہد کی اہمیت کا پورا پورا احساس ہوا اور وہا ں شہنشاہِ کائنات کے ساتھ میثاق استوار کرنے کو کوئی معمولی سی بات نہ سمجھیں۔ اس سے یہ گمان نہ کرنا چاہیے کہ وہ خدا کے ساتھ میثاق باندھنے پر آمادہ نہ تھے اور انہیں زبر دستی خوف زدہ کر کے اس پر آمادہ کیا گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ سب کے سب اہلِ ایمان تھے اور دامن کوہ میں میثاق باندھنے ہی کے لیے گئے تھے ، مگر اللہ تعالیٰ نے معمولی طور پر ان سے عہد و اقرار لینے کی بجائے مناسب جانا کہ اس عہد و اقرار کی اہمیت ان کو اچھی طرح محسوس کرادی جائے تا کہ اقرار کرتے وقت انہیں یہ احساس رہے کہ وہ کس قادرِ مطلق ہستی سے اقرار کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ بد عہدی کرنے کا انجام کیا کچھ ہو سکتا ہے ۔ یہاں پہنچ کر بنی اسرائیل سے خطاب ختم ہو جاتا ہے اور بعد کے رکوعوں میں تقریر کا رُخ عام انسانوں کی طرف پھرتا ہے جن میں خصوصیت کے ساتھ روئے سخن ان لوگوں کی جانب ہے جو براہ راست نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب تھے |