Ayats Found (2)
Surah 7 : Ayat 160
وَقَطَّعْنَـٰهُمُ ٱثْنَتَىْ عَشْرَةَ أَسْبَاطًا أُمَمًاۚ وَأَوْحَيْنَآ إِلَىٰ مُوسَىٰٓ إِذِ ٱسْتَسْقَـٰهُ قَوْمُهُۥٓ أَنِ ٱضْرِب بِّعَصَاكَ ٱلْحَجَرَۖ فَٱنۢبَجَسَتْ مِنْهُ ٱثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًاۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْۚ وَظَلَّلْنَا عَلَيْهِمُ ٱلْغَمَـٰمَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْهِمُ ٱلْمَنَّ وَٱلسَّلْوَىٰۖ كُلُواْ مِن طَيِّبَـٰتِ مَا رَزَقْنَـٰكُمْۚ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَـٰكِن كَانُوٓاْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
اور ہم نے اس قوم کو بارہ گھرانوں میں تقسیم کر کے انہیں مستقل گروہوں کی شکل دے دی تھی1 اور جب موسیٰؑ سے اس کی قوم نے پانی مانگا تو ہم نے اس کو اشارہ کیا کہ فلاں چٹان پر اپنی لاٹھی مارو چنانچہ اس چٹان سے یکایک بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر گروہ نے اپنے پانی لینے کی جگہ متعین کر لی ہم نے اُن پر بادل کا سایہ کیا اور اُن پر من و سلویٰ اتارا2 کھاؤ وہ پاک چیزیں جو ہم نے تم کو بخشی ہیں مگر اس کے بعد انہوں نے جو کچھ کیا تو ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے3
3 | اب تاریخ بنی اسرائیل کے اُن واقعات کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مذکورہ بالا احسانات کو جواب یہ لوگ کیسی کیسی مجرمانہ بے باکیوں کے ساتھ دیتے رہے اور پھر کس طرح مسلسل تباہی کے گڑھے میں گرتے چلے گئے |
2 | اوپر جس تنظیم کا ذکر کیا گیا ہے وہ منجملہ اُن احسانات کے تھی جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر کیے۔ اس کے بعد اب مزید تین احسانات کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ ایک یہ کہ جزیرہ نمائے سینا کے بیابانی علاقہ میں ان کے لیے پانی کی بہم رسانی کا غیر معمولی انتظام کیا گیا۔ دوسرے یہ کہ ان کو دھوپ کی تپش سے بچانے کے لیے آسمان پر بادل چھا دیا گیا۔ تیسرے یہ کہ ان کے لیے خوراک کی بہم رسانی کا غیر معمولی انتظام من و سلویٰ کے نزول کی شکل میں کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ اگر ان تین اہم ترین ضروریاتِ زندگی کا بندوبست نہ کیا جاتا تو یہ قوم جس کی تعداد کئی لاکھ تک پہنچی ہوئی تھی، اس علاقہ میں بھوک پیاس سے بالکل ختم ہو جائی ۔ آج بھی کوئی شخص وہاں جائے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جائے گا کہ اگر یہاں پندرہ بیس لاکھ آدمیوں کا ایک عظیم الشان قافلہ یکایک آ ٹھہرے تو اس کے لیے پانی، خوراک اور سائے کا آخر کیا انتظام ہو سکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں پورے جزیرہ نما کی آبادی ۵۵ ہزار سے زیادہ نہیں ہے اور آج اس بیسویں صدی میں بھی اگر کوئی سلطنت وہاں پانچ چھ لاکھ فوج لے جانا چاہے تو اس کے مُدَبِّروں کو رسد کے انتظام کی فکر میں دردِ سر لاحق ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے بہت سے محققین نے ، جو نہ کتاب کو مانتے ہیں اور نہ معجزات کو تسلیم کرتے ہیں ، یہ ماننے سے انکار کر دیا ہے کہ بنی اسرائیل جزیرہ نمائے سینا کےاُس حصہ سے گزرے ہونگے جس کا ذکر بائیبل اور قرآن میں ہوا ہے۔ ان کا گمان ہے کہ شاید یہ واقعات فلسطین کے جنوبی اور عرب کے شمالی حصہ میں پیش آئے ہوں گے۔ جزیرہ نمائے سینا کے طبعی اور معاشی جغرافیہ کو دیکھتے ہوئے وہ اس بات کو بالکل نا قابلِ تصور سمجھتے ہیں کہ اتنی بڑی قوم یہاں برسوں ایک ایک جگہ پڑاؤ کرتی ہوئی گزر سکی تھی، خصوصاً جب کہ مصر کی طرف سے اس کی رسد کا راستہ بھی منقطع تھا اور دوسری طرف خود اس جزیرہ نما کے مشرق اور شمال میں عَمالِقَہ کے قبیلے اس کی مزاحمت پر آمادہ تھے۔ ان امور کو پیش نظر رکھنے سے صحیح طور پر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان چند مختصر آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے جِن احسانات کاذکر فرمایا ہے وہ درحقیقت کتنے بڑے احسانات تھے اور اس کے بعد یہ کتنی بڑی احسان فراموشی تھی کہ اللہ کے فضل و کرم کی ایسی صریح نشانیاں دیکھ لینے پر بھی یہ قوم مسلسل اُن نا فرمانیوں اور عذاریوں کی مر تکب ہوتی رہی جن سے اس کی تاریخ بھری پڑی ہے۔(تقابل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ۷ حواشی نمبر ۷۲، ۷۳، ۷٦) |
1 | اشارہ ہے بنی اسرائیل کی اُس تنظیم کی طرف جو سورہ مائدہ آیت ١۲ میں بیان ہوئی ہے اور جس کی پوری تفصیل بائیبل کی کتاب گنتی میں ملتی ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے کوہِ سینا کے بیابان میں بنی اسرائیل کی مردم شماری کرائی، پھر ان کے ١۲ گھرانوں کو جو حضرت یعقوب کے دس بیٹوں اور حضرت یوسف کے دو بیٹوں کی نسل سے تھے الگ الگ گروہوں کی شکل میں منظم کیا، اور ہر گروہ پر ایک ایک سردار مقرر کیا تاکہ وہ ان کےاندر اخلاقی، مذہبی، تمدنی و معاشرتی اور فوجی حیثیت سے نظم قائم رکھے اور احکامِ شریعت کا اجراء کرتا رہے۔ نیز حضرت یعقوب کے بارھویں بیٹے لاوِی کی اورلاد کو جس کی نسل سے حضرت موسیٰ اور ہارون تھے، ایک الگ جماعت کی شکل میں منظم کیا تاکہ وہ ان سب قبیلوں کےدرمیان شمعِ حق روشن رکھنے کی خدمت انجام دیتی رہے |
Surah 2 : Ayat 60
۞ وَإِذِ ٱسْتَسْقَىٰ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِۦ فَقُلْنَا ٱضْرِب بِّعَصَاكَ ٱلْحَجَرَۖ فَٱنفَجَرَتْ مِنْهُ ٱثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًاۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْۖ كُلُواْ وَٱشْرَبُواْ مِن رِّزْقِ ٱللَّهِ وَلَا تَعْثَوْاْ فِى ٱلْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
یاد کرو، جب موسیٰؑ نے اپنی قوم کے لیے پانی کی دعا کی تو ہم نے کہا کہ فلاں چٹان پر اپنا عصا مارو چنانچہ اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے1 اور ہر قبیلے نے جان لیا کہ کونسی جگہ اس کے پانی لینے کی ہے اُس وقت یہ ہدایت کر دی گئی تھی کہ اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ پیو، اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو
1 | وہ چٹان اب تک جزیرہ نمائے سینا میں موجود ہے۔ سیّاح اسے جا کر دیکھتے ہیں اور چشموں کے شگاف اس میں اب بھی پائے جاتے ہیں۔ ۱۲ چشموں میں یہ مصلحت تھی کہ بنی اسرائیل کے قبیلے بھی ۱۲ ہی تھے۔ خدا نے ہر ایک قبیلے کے لیے الگ چشمہ نکال دیا تاکہ ان کے درمیان پانی جھگڑا نہ ہو |