Ayats Found (4)
Surah 26 : Ayat 52
۞ وَأَوْحَيْنَآ إِلَىٰ مُوسَىٰٓ أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِىٓ إِنَّكُم مُّتَّبَعُونَ
ہم نے موسیٰؑ کو وحی بھیجی کہ 1"راتوں رات میرے بندوں کو لے کر نکل جاؤ، تمہارا پیچھا کیا جائے گا"
1 | واضح رہے کہ بنی اسرائیل کی آبادی مصر میں کسی ایک جگہ مجتمع نہ تھی بلکہ ملک کے تمام شہروں اور بستیوں میں بٹی ہوئی تھی اور خصوصیت کے ساتھ منف (Memphis) سے رَعْمَسِیْس تک اس علاقے میں ان کی بڑی تعداد آباد تھی جسے جُشن کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا (ملاحظہ ہو ’’نقشہ خروج بنی اسرائیل‘‘، تفہیم القرآن جلد دوم، صفحہ 76)۔ لہٰذا حضرت موسٰیؑ کو جب حکم دیا گیا ہو گا کہ اب تمہیں بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکل جانا ہے تو انہوں نے بنی اسرائیل کی تمام بستیوں میں ہدایات بھیج دی ہوں گی کہ سب لوگ اپنی اپنی جگہ ہجرت کے لیے تیار ہو جائیں ، اور ایک خاص رات مقرر کر دی ہو گی کہ اس رات ہر بستی کے مہاجرین نکل کھڑے ہوں۔ یہ ارشاد کہ ’’ تمہارا پیچھا کیا جائے گا‘‘ اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہجرت کے لیے رات کو نکلنے کی ہدایت کیوں کی گئی تھی۔ یعنی قبل اس کے کہ فرعون لشکر لے کر تمہارے تعاقب میں نکلے تم راتوں رات اپنا راستہ اس حد تک طے کر لو کہ اس سے بہت آگے نکل چکے ہو |
Surah 26 : Ayat 68
وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلرَّحِيمُ
اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی
Surah 44 : Ayat 23
فَأَسْرِ بِعِبَادِى لَيْلاً إِنَّكُم مُّتَّبَعُونَ
(جواب دیا گیا) اچھا تو راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چل پڑ1 تم لوگوں کا پیچھا کیا جائے گا2
2 | یہ ابتدائی حکم ہے جو حضرت موسیٰؑ کو ہجرت کے لیے دیا گیا تھا (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، طہ حاشیہ ۵۳ الشعراء حواشی ۳۹ تا ۴۷) |
1 | یعنی ان سب لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں ان میں بنی اسرائیل بھی تھے اور مصر کے وہ قبطی باشندے بھی جو حضرت یوسفؑ کے زمانے سے حضرت موسیٰؑ کی آمد تک مسلمانوں میں شامل ہو چکے تھے، اور وہ لوگ بھی جنہوں نے حضرت موسیٰؑ کی نشانیاں دیکھ کر اور آپ کی دعوت و تبلیغ سے متاثر ہو کر اہل مصر میں سے اسلام قبول کیا تھا۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ تفہیم القرآن جلد دوم،یوسف حاشیہ ۶۸) |
Surah 44 : Ayat 29
فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ ٱلسَّمَآءُ وَٱلْأَرْضُ وَمَا كَانُواْ مُنظَرِينَ
پھر نہ آسمان اُن پر رویا نہ زمین1، اور ذرا سی مہلت بھی ان کو نہ دی گئی
1 | یعنی جب وہ حکمراں تھے تو ان کی عظمت کے ڈنکے بج رہے تھے۔ ان کی حمد و ثناء کے ترانوں سے دنیا گونج رہی تھی۔ خوش آمدیوں کے جم گھٹے انکے آگے اور پیچھے لگے رہتے تھے۔ ان کی وہ ہوا باندھی جاتی تھی کہ گویا ایک عالم ان کے کمالات کا گرویدہ اور ان کے احسانات کا زیر بار ہے۔ اور ان سے بڑھ کر دنیا میں کوئی مقبول نہیں ،مگر جب وہ گرے تو کوئی آنکھ ان کے لیے رونے والی نہیں تھی، بلکہ دنیا نے ایسا اطمینان کا سانس لیا کہ گویا ایک کانٹا تھا جو اس کے پہلو سے نکل گیا۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے نہ خلق خدا کے ساتھ کوئی بھلائی کی تھی کہ زمین والے ان کے لیے روتے، نہ خدا کی خوشنودی کا کوئی کام کیا تھا کہ آسمان والوں کو ان کی ہلاکت پر افسوس ہوتا۔ جب تک مشیت الٰہی سے اس کی رسی دراز ہوتی رہی ، وہ زمین کے سینے پر مونگ ڈلتے رہے۔ جب ان کے جرائم حد سے گذر گئے تو اس طرح اٹھا کر پھینک دیئے جیسے کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا ہے |