Ayats Found (4)
Surah 10 : Ayat 88
وَقَالَ مُوسَىٰ رَبَّنَآ إِنَّكَ ءَاتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَهُۥ زِينَةً وَأَمْوَٲلاً فِى ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّواْ عَن سَبِيلِكَۖ رَبَّنَا ٱطْمِسْ عَلَىٰٓ أَمْوَٲلِهِمْ وَٱشْدُدْ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُواْ حَتَّىٰ يَرَوُاْ ٱلْعَذَابَ ٱلْأَلِيمَ
موسیٰؑ نے دعا کی “اے ہمارے رب، تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں زینت اور اموال سے نواز رکھا ہے اے رب، کیا یہ اس لیے ہے کہ وہ لوگوں کو تیری راہ سے بھٹکائیں؟ اے رب، ان کے مال غارت کر دے اور ان کے دلوں پر ایسی مہر کر دے کہ ایمان نہ لائیں جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں"
Surah 10 : Ayat 89
قَالَ قَدْ أُجِيبَت دَّعْوَتُكُمَا فَٱسْتَقِيمَا وَلَا تَتَّبِعَآنِّ سَبِيلَ ٱلَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ
اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا “تم دونوں کی دعا قبول کی گئی ثابت قدم رہو اور اُن لوگوں کے طریقے کی ہرگز پیروی نہ کرو جو علم نہیں رکھتے"
Surah 20 : Ayat 77
وَلَقَدْ أَوْحَيْنَآ إِلَىٰ مُوسَىٰٓ أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِى فَٱضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقًا فِى ٱلْبَحْرِ يَبَسًا لَّا تَخَـٰفُ دَرَكًا وَلَا تَخْشَىٰ
ہم 1نے موسیٰؑ پر وحی کی کہ اب راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چل پڑ، اور اُن کے لیے سمندر میں سے سُوکھی سڑک بنا لے2، تجھے کسی کے تعاقب کا ذرا خوف نہ ہو اور نہ (سمندر کے بیچ سے گزرتے ہوئے) ڈر لگے
2 | اس اجمال کی تفصیل یہ ہے اللہ تعالٰی نے آخر کار ایک رات مقرر فرما دی جس میں تمام اسرائیلی اور غیر اسرائیلی مسلمانوں کو (جن کے لیے ’’میرے بندوں‘‘ کا جامع لفظ استعمال کیا گیا ہے) مصر کے ہر حصے سے ہجرت کے لیے نکل پڑنا تھا۔ یہ سب لوگ ایک طے شدہ مقام پر جمع ہو کر ایک قافلے کی صورت میں روانہ ہو گۓ۔ اس زمانے میں نہر سویز موجود نہ تھی۔ بحر احمر سے بحر روم (میڈیٹرینین) تک کا پورا علاقہ کھلا ہوا تھا۔ مگر اس علاقے کے تمام راستوں پر فوجی چھاؤنیاں تھیں جن سے بخیریت نہیں گزرا جا سکتا تھا۔ اس لیے حضرت موسیٰ نے بحر احمر کی طرف جانے والا راستہ اختیار کیا۔ غالباً ان کا خیال یہ تھا کہ سمندر کے کنارے کنارے چل کر جزیرہ نماۓ سینا کی طرف نکل جائیں۔ لیکن ادھر سے فرعون ایک لشکر عظیم لے کر تعاقب کرتا ہوا ٹھیک اس موقع پر آ پہنچا جب کہ یہ قافلہ ابھی سمندر کے ساحل ہی پر تھا۔ سورۂ شعراء میں بیان ہوا ہے کہ مہاجرین کا قافلہ لشکر فرعون اور سمندر کے درمیان بالکل گھر چکا تھا۔ عین اس وقت اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ : اِضْرِبْ بِعَصَاکَ الْبَحْرَ، ’’اپنا عصا سمندر پر مار‘‘ : فَاَنْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ، ’’ فوراً سمندر پھٹ گیا اور اس کا ہر ٹکڑا ایک بڑے ٹیلے کی طرح کھڑا ہو گیا‘‘۔ اور بیچ میں صرف یہی نہیں کہ قافلے کے گزرنے کے لیے راستہ نکل آیا، بلکہ بیچ کا یہ حصہ، اوپر کی آیت کے مطابق خشک ہو کر سوکھی سڑک کی طرح بن گیا۔ یہ صاف اور صریح معجزے کا بیان ہے اور اس سے ان لوگوں کے بیان کی غلطی واضح ہو جاتی ہے جو کہتے ہیں کہ ہوا کے طوفان یا جوار بھاٹے کی وجہ سے سمندر ہٹ گیا تھا۔ اس طرح جو پانی ہٹتا ہے وہ دونوں طرف ٹیلوں کی صورت میں کھڑا نہیں ہو جاتا، اور بیچ کا حصہ سوکھ کر سڑک کی طرح نہیں بن جاتا (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم الشعراء حاشیہ 47)۔ |
1 | بیچ میں ان حالات کی تفصیل چھوڑ دی گئی ہے جو اس کے بعد مصر کے طویل زمانہ قیام میں پیش آۓ۔ ان تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف رکوع 15۔16، سورۂ یونس رکوع 9، سورۂ مومن رکوع 3 تا 5، اور سورۂ زخرف رکوع 5۔ |
Surah 20 : Ayat 79
وَأَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهُۥ وَمَا هَدَىٰ
فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ ہی کیا تھا، کوئی صحیح رہنمائی نہیں کی تھی1
1 | بڑے لطیف انداز میں کفار مکہ کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ تمہارے سردار اور لیڈر بھی تم کو اسی راستے پر لیے جا رہے ہیں جس پر فرعون اپنی قوم کو لے جا رہا تھا۔ اب تم خود دیکھ لو کہ یہ کوئی صحیح رہنمائی نہ تھی۔ اس قصے کے خاتمے پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بائیبل بیانات کا بھی جائزہ لے لیا جاۓ گا کہ ان لوگوں کے جھوٹ کی حقیقت کھل جاۓ جو کہتے ہیں کہ قرآن میں یہ قصے بنی اسرائیل سے نقل کر لیے گۓ ہیں۔ بائیبل کی کتاب خروج(Exodus) میں اس قصے کی جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں، ان کے حسب ذیل اجزاء قابل توجہ ہیں : 1)۔ باب 4، آیت 2۔5 میں بتایا گیا ہے کہ عصا کا معجزہ حضرت موسیٰ کو دیا گیا تھا۔ اور آیت 17 میں انہیں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ’’تو اس لاٹھی کو اپنے ہاتھ میں لیے جا اور اسی سے ان معجزوں کو دکھانا‘‘۔ مگر آگے جا کر نہ معلوم یہ لاٹھی کس طرح حضرت ہارون کے قبضے میں چلی گئی اور وہی اس سے معجزے دکھانے لگے۔ باب 7 سے لے کر بعد کے ابواب میں مسلسل ہم کو حضرت ہارون ہی لاٹھی کے معجزے دکھاتے نظر آتے ہیں۔ 2)۔ باب 5 میں فرعون سے حضرت موسیٰ کی پہلی ملاقات کا حال بیان کیا گیا ہے، اور اس میں سرے سے اس بحث کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے جو اللہ تعالٰی کی توحید اور اس کی ربوبیت کے مسئلے پر ان کے اور فرعون کے درمیان ہوئی تھی۔ فرعون کہتا ہے کہ ’’خداوند کون ہے کہ میں اس کی بات مانوں اور بنی اسرائیل کو جانے دوں؟ میں خداوند کو نہیں جانتا‘‘۔ مگر حضرت موسیٰ اور ہارون اس کے سوا کچھ جواب نہیں دیتے کہ’’عبرانیوں کا خدا ہم سے ملا ہے‘‘۔ (باب 5۔ آیت 2۔3 )۔ 3)۔ جادو گروں سے مقابلے کی پوری داستان میں ان چند فقروں میں سمیٹ دی گئی ہے، ’’اور خداوند نے موسیٰؑ اور ہارونؑ سے کہا کہ جب فرعون تم کو کہے کہ اپنا معجزہ دکھاؤ تو ہارون سے کہنا کہ اپنی لاٹھی کو لے کر فرعون کے سامنے ڈال دے تاکہ وہ سانپ بن جاۓ۔ اور موسی اور ہارون فرعون کے پاس گۓ اور انہوں نے خداوند کے حکم کے مطابق کیا ور ہارون نے اپنی لاٹھی فرعون اور اس کے خادموں کے سامنے ڈال دی اور وہ سانپ بن گئی۔ تب فرعون نے بھی داناؤں اور جادوگرو کو بلوایا اور مصر کے جادوگروں نے بھی اپنے جادو سے ایسا ہی کیا۔ کیونکہ انہوں نے بھی اپنی اپنی لاٹھی سامنے ڈالی اور وہ سانپ بن گئیں۔ لیکن ہارون کی لاٹھی ان کی لاٹھیوں کو نگل گئی‘‘۔ (باب 7۔ آیت 8۔12)۔ اس بیان کا مقابلہ قرآن کے بیان سے کر کے دیکھ لیا جاۓ کہ قصے کی ساری روح یہاں کس بری طرح فنا کی گئی ہے۔ سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ جشن کے دن کھلے میدان میں باقاعدہ چیلنج کے بعد مقابلہ ہونا، اور پھر شکست کے بعد جادو گروں کا ایمان لانا، جو قصے کی اصل جان تھا، سرے سے یہاں مذکور ہی نہیں ہے۔ 4)۔ قرآن کہتا ہے کہ حضرت موسیٰ کا مطالبہ بنی اسرائیل کی رہائی اور آزادی کا تھا۔ بائیبل کا بیان ہے کہ مطالبہ صرف یہ تھا ’’ہم کو اجازت دے کہ ہم تین دن کی منزل بیابان میں جا کر خداوند اپنے خدا کے لیۓ قربانی کریں‘‘۔ (باب 5۔ آیت 3 ) 5)۔ مصر سے نکلنے اور فرعون کے غرق ہونے کا مفصل حال باب 11 سے 14 تک بیان کیا گیا ہے۔ اس میں بہت سی مفید معلومات، اور قرآن کے اجمال کی تفصیلات بھی ہمیں ملتی ہیں اور ان کے ساتھ متعدد عجیب باتیں بھی۔ مثلاً باب 14 کی آیات 15۔ 16 میں حضرت موسیٰ کو حکم دیا جاتا ہے کہ ’’تو اپنی لاٹھی (جی ہاں، اب لاٹھی حضرت ہارون سے لے کر پھر حضرت موسیٰ کو دے دی گئی ہے) اٹھا کر اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھا اور اسے دو حصے کر اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نکل جائیں گے‘‘۔ لیکن آگے چل کر آیت 21۔22 میں کہا جاتا ہے کہ ’’پھر موسیٰ نے اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایا اور خداوند نے رات بھر تُند پور بی آندھی چلا کر اور سمندر کو پیچھے ہٹا کر اسے خشک زمین بنا دیا اور پانی دو حصے ہو گیا اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نگل گۓ اور ان کے داہنے اور بائیں ہاتھ پانی دیوار کی طرح تھا۔‘‘ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ آیا یہ معجزہ تھا یا طبعی واقعہ اگر معجزہ تھا تو عصا کی ضرب سے ہی رونما ہو گیا ہو گا، جیسا کہ قرآن میں کہا گیا ہے۔ اور اگر طبعی واقعہ تھا تو یہ عجیب صورت ہے کہ مشرقی آندھی نے سمندر کو بیچ میں سے پھاڑ کر پانی کو دونوں طرف دیوار کی طرح کھڑا کر دیا اور بیچ میں سے خشک راستہ بنا دیا۔ کیا فطری طریقے سے ہوا کبھی ایسے کرشمے دکھاتی ہے؟ تلمود کا بیان نسبۃً بائیبل سے مختلف اور قرآن سے قریب تر ہے، مگر دونوں کا مقابلہ کرنے سے صاف محسوس ہو جاتا ہے ایک جگہ براہ راست علم وحی کی بنا پر واقعات بیان کیے جا رہے ہیں، اور دوسری جگہ صدیوں کی سینا بسینہ روایات میں واقعات کی صورت اچھی خاصی مسخ ہو گئی ہے۔ ملاحظہ ہو : The Talmud Selections, H. Polano Pp. 150-54 |