Ayats Found (2)
Surah 28 : Ayat 4
إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِى ٱلْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَآئِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَآءَهُمْ وَيَسْتَحْىِۦ نِسَآءَهُمْۚ إِنَّهُۥ كَانَ مِنَ ٱلْمُفْسِدِينَ
واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی1 اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا2 ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا3 فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا
3 | بائیبل میں اس کی جوتشریح ملتی ہے وہ یہ ہے: ’’تب مصر میں ایک نیا بادشاہ ہوا جویوسف کونہیں جانتا تھا۔اوراس نے اپنی قوم کےلوگوں سے کہا کہ دیکھواسرئیل ہم سےزیادہ اورقوی ہوگئےہیںسوآو ہم ان کےساتھ حکمت سے پیش آئیں ایسانہ ہوکہ جب وہ اورزیادہ ہوجائیں اوراس وقت جنگ چھڑ جائے تو وہ ہمارے دشمنوں سےمل کرہم سے لڑیں اورملک سے نکل جائیں۔ اس لیے انہوں نے ان پربیگارلینےوالے مقررکیے جوان سےسخت کام لےکرانہیںستائیں۔ سوانہوں نے فرعون کےلیے ذخیرےکےشہر پُتوم اورعمسیس بنائے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اورمصریوں نےبنی اسرئیل پرتشدد کرکے ان سے کام کرایا اورانہوں نےان سے سخت محنت سے گارا اور اینٹ بنوانبوا کراورکھیت میں ہر قسم کی خدمت لےکر ان کی زندگی تلخ کی ۔ ان کی سب خدمتیں جو وہ ان سے کراتے تھے تشدّد کی تھیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تب مصر کےبادشاہ نےعبرانی دائیوں سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔باتیں کیں اورکہا کہ جب عبرانی(یعنی اسرئیلی) عورتوں کےتم بچہ جناؤ اوران کو پتھر کی بیٹھکوں پربیٹھی دیکھو تواگربیٹا ہوتواسے مارڈالنا اوراگر بیٹی ہوتو وہ جیتی رہے‘‘۔(خروج، باب۔ آیت ۸۔۱۶)۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کادورگزر جانے کےبعد مصر میں ایک قوم پرسستانہ انقلاب ہواتھا اورقبطیوں کےہاتھ میں جب دوبارہ اقتدار آیا تونئی قوم پرست حکومت نےبنی اسرئیل کازور توڑنے کی پوری کوشش کی تھی اس سلسلے میںصرف اتنے ہی پراکتفا نہ کیا گیاکہ اسرائیلیوں کوذلیل وخوار کیاجاتا اورانہیں ادنی درجےکی خدمات کےلیے مخصوص کرلیا جاتا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کریہ پالیسی اختیار کی گئی کہ بنی اسرئیل کی تعداد گھٹائی جائے اوران کے لڑکوں کوقتل کرکے صرف ان کی لڑکیوں ذندہ رہنےدیاجائےتاکہ تاکہ رفتہ رفتہ ان کی عورتیں قبطیوں کے تصرف میں آتی جائیں اوران سےاسرائیل کےبجائےقبطی نسل پیداہو۔ تلمود اس کی مزید تفصیل یہ دیتی ہےکہ حضرت یوسفؑ کی وفات پرایک صدی سے کچھ زیادہ مدت گزر جانےکےبعد یہ انقلاب ہواتھا۔ وہ بتاتی ہے کہ نئی قوم پرست حکومت نےپہلے بنی اسرئیل کو ان کی زرخیززمینوں اوران کےمکانات اورجائدادوں سےمحروم کیا۔ پھر انہیں حکومت کےتمام مناصب سےبےدخل کیا۔ اس کےبعد بھی جب قبطی حکمرانوں نےمحسوس کیا کہ بنی اسرئیل اوران کےہم مزہب مصری کافی طاقت ورہیں توانہوں نےاسرئیلوں کوذلیل وخوارکرناشروع کیا اوران سے سخت محنت کےکام قلیل معاوضوں پریا بلامعاوضہ لینے لگے۔ یہ تفسیر ہے قرآن کےاس بیان کی کہ مصر کی آبادی کےایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا۔ اورسورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ کےاس ارشاد کی کہ آل فرعون بنی اسرئیل کو سخت عزاب دیتے تھے(یسومونکم سٓوءَالْعَذَابِ)۔ مگربائیبل اورقرآن دونوں اس ذکر سےخالی ہیں کہ فرعون سےکسی نجومی نےیہ کہاتھاکہ بنی اسرئیل میںایک لڑکا پیداہونےوالا ہے جس کےہاتھوں فرعونی اقتدار کا تختہ اُلٹ جائے گا اوراسی خطرےکوروکنے کےلیے فرعون نےاسرئیل کےلڑکوں کوقتل کرنے کاحکم دیاتھا۔ یافرعون کےکوئی خوفناک خواب دیکھا تھا اوراس کی تعبیر یہ دی گئی تھی کہ ایک لڑکا بنی اسرئیل میں ایسا اورایسا پیداہونے والا ہے۔ یہ افسانہ تلمود اوردوسری اسرئیلی روایات سے ہمارے مفسرین نےنقل کیا ہے(ملاحظہ ہوجیوش)انسائیکلوپیڈیا، مضمون’’موسیٰ‘‘ اور(The Talmud Selections.p. 124-23) |
2 | یعنی اس کی حکومت کاقاعدہ یہ نہ تھا کہ قانون کی نگاہ میں ملک کےسب باشندہ یکساں ہوں اورسب کوبرابر حقوق دیے جائیں، بلکہ اس نے تمدّن وسیاست کا یہ طرز اختیار کیا کہ ملک کےباشندوں کوگروہوں میںتقسیم کیاجائے، کسی کومراعات وامتیازات دے کرحکمراں گروہ ٹھیرایاجائےاورکسی کومحکوم بناکردبایااورپیسااورلُوٹاجائے۔یہاں کسی کویہ شبہ لاحق نہ ہو کہ اسلامی حکومت بھی تومسلم اورذمی کے درمیان تفریق کرتی ہے اوران کے حقوق واختیارات ہرحثیت سے یکساں نہیں رکھتی۔ یہ شبہ اس لیے غلط ہے کہ اس فرق کی بنیادفرعونی تفریق کے برعکس نسل، رنگ،زبان یاطبقاتی امتیاز پرنہیں ہےبلکہ اُصول اورمسلک کےاختلاف پر ہے۔ اسلامی نظام حکومت میںزمیوں اورمسلمانوں کے درمیان قانونی حقوق میں قطعاََ کوئی فرق نہیں ہے۔ تمام تر فرق صرف سیاسی حقوق میں ہے۔اس فرق کی وجہ اس کےسوا کچھ نہیں کہ ایک اصولی حکومت میں حکمراں جماعت صرف وہی ہوسکتی ہے جوحکومت کے بنیادی اصولوں کی حامی ہو۔ اس جماعت میں ہروہ شخص داخل ہوسکتا ہے جواس کے اصولوں کو مان لے، اور ہروہ شخص اس سے خارج ہوجاتا ہے جوان اصولوں کامنکر ہوجائے۔ آخر اس تفریق میں اوراُس فرعونی تفریق میں کیاوجہ مشابہت ہے جس کی بنا پرمحکوم نسل کا کوئی فرد کبھی حکمراں گروہ میںشامل نہیں ہوسکتا۔ جس میں محکوم نسل کے لوگوں کوسیاسی اورقانونی حقوق تودرکناربنیادی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں ہوتے حتٰی کہ زندہ رہنے کا حق بھی ان سے چھین لیاجاتا ہےجس میں محکوموں کےلیے کسی حق کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہوتی، تمام فوائد ومنافع اورحسنات ودرجات صرف حکمران قوم کےلیے مختص ہوتے ہیں اوریہ مخصوص حقوق صرف اسی شخص کوحاصل ہوتے ہیں جوحکمران قوم میں پیدا ہوجائے۔ |
1 | اصل میں لفظ عَلَافیِ الْاَرضِ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے زمین میںسراُٹھایا، باغیانہ روش اختیار کی، اپنی اصل حیثیت یعنی بندگی کےمقام سے اُٹھ کرخود مختاری اورخداوندی کا روپ دھار لیا، ماتحت بن کر رہنے کے بجائے بالادست بن بیٹھا اورجبارومتکبر بن کرظلم ڈھانے لگا۔ |
Surah 44 : Ayat 31
مِن فِرْعَوْنَۚ إِنَّهُۥ كَانَ عَالِيًا مِّنَ ٱلْمُسْرِفِينَ
فرعون سے نجات دی1 جو حد سے گزر جانے والوں میں فی الواقع بڑے اونچے درجے کا آدمی تھا2
2 | اس میں ایک لطیف طنز ہے کفار قریش کے سرداروں پر۔ مطلب یہ ہے کہ حد بندگی سے تجاوز کرنے والوں میں تمہارا مرتبہ اور مقام ہی کیا ہے۔ بڑے اونچے درجے کا سرکش تو وہ تھا جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کے تحت خدائی کا روپ دھارے بیٹھا تھا۔ اسے جب خس و خاشاک کی طرح بہا دیا گیا تو تمہاری کیا ہستی ہے کہ قہر الٰہی کے آگے ٹھہر سکے |
1 | یعنی فرعون بجائے خود کے لیے ذلت کا عذاب تھا اور دوسرے تمام عذاب اسی ایک عذاب ِ مجسم کے شاخسانے تھے |