Ayats Found (6)
Surah 28 : Ayat 38
وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْمَلَأُ مَا عَلِمْتُ لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرِى فَأَوْقِدْ لِى يَـٰهَـٰمَـٰنُ عَلَى ٱلطِّينِ فَٱجْعَل لِّى صَرْحًا لَّعَلِّىٓ أَطَّلِعُ إِلَىٰٓ إِلَـٰهِ مُوسَىٰ وَإِنِّى لَأَظُنُّهُۥ مِنَ ٱلْكَـٰذِبِينَ
اور فرعون نے کہا "اے اہل دربار میں تو اپنے سوا تمہارے کسی خدا کو نہیں جانتا1 ہامان، ذرا اینٹیں پکوا کر میرے لیے ایک اونچی عمارت تو بنوا، شاید کہ اس پر چڑھ کر میں موسیٰؑ کے خدا کو دیکھ سکوں، میں تو اسے جھُوٹا سمجھتا ہوں2"
2 | یہ اسی قسم کی ذہنیت تھی جیسی موجودہ زمانےکےروسی کمیونسٹ ظاہرکررہےہیں۔ یہ اسپٹنک اورلُونک چھوڑکردنیا کوخبردیتے ہیں کہ ہماری ان گیندوں کواوپر کہیں خدانہیں ملا۔ وہ بے وقوف ایک مینارےپرچڑھ کرخدا کوجھانکنا چاہتا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ گمراہ لوگوں کےذہن کہ پرواز ساڑھے تین ہزار برس پہلے جہاںتک تھی آج بھی وہیں تک ہے۔ اس اعتبار سے ایک اُنگل بھرترقی بھی وہ نہیں کرسکے ہیں۔ معلوم نہیں کس احمق نے ان کویہ خبردی تھی کہ خدا پرست جس رب العالمین کومانتے ہیں وہ اُن کےعقیدے کی رو سے اوپرکہیں بیٹھا ہوا ہے، اوراس اتھاہ کائنات میںزمین سےچند ہزار فیٹ یا چندلاکھ میل اوپراُٹھ کراگروہ انہیں نہ ملے تویہ بات گویا بالکل ثابت ہوجائےگی کہ وہ کہیں موجود نہیں ہے۔ قرآن یہ نہیں کہتا کہ فرعون نےفی الواقع ایک عمارت اس غرض کےلیے بنوائی تھی اوراس پر چڑھ کر خد کوجھانکنے کی کوشش بھی کی تھی۔ بلکہ وہ اُس کےصرف اس قول کو نقل کرتا ہے۔ اس سے بظاہرمعلوم یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے عملاََ یہ حماقت نہیں کی تھی۔ ان باتوں سےاس کامدعا صرف بےوقوف بناناتھا۔ یہ امر بھی واضح طور پرمعلوم نہیں ہوتا کہ فرعون آیا فی الواقع خداوند عالم کی ہستی کامنکر تھا یا محض ضد اورہٹ دھرمی کی بنا پردہریت کی باتیں کرتا تھا۔ اس کے اقوال اس معاملہ میں اُسی ذہنی اُلجھاؤکی نشان دہی کرتے ہیں جوروسی کمیونسٹوں کی باتوں میںپایاجاتا ہے۔ کبھی تووہ آسمان پرچڑھ کردنیا کوبتاناچاہتا تھا کہ میں اوپردیکھ آیا ہوں، موسٰیؑ کا خداکہیں نہیں ہے۔ اورکبھی وہ کہتا فلولااُلقی علیہ اسورۃ من ذھب اوجاءالملئِکۃ مُقترنین ’’ اگرموسٰیؑ واقعی خدا کابھیجا ہواہے توکیوں نہ اُن کےلیے سونے کے کنگن اتارےگئے، یا اس کی اردل میںملائکہ نہ آئے‘‘؟ یہ باتیں روس کےایک سابق وزیر اعظم خردوشیچیف کی باتوں سے زیادہ مختلف نہیں ہیں جوکبھی خدا کاانکار کرتا اورکبھی باربار خداکانام لیتا اوراس کے نام کی قسمیں کھاتا تھا۔ ہمارا قیاس یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام اوان کےخلفاء کادور اقتدار گذر جانے کے بعد جب مصر میںقبطی قوم پرستی کازور ہوا اورملک میں اسی نسلی ووطنی تعصب کی بنیاد پرسیاسی انقلاب رونما ہوگیا تونئے لیڈروں نے اپنے پرستانہ جوش میں اُس خدا کےخلاف بھی بغاوت کردی جس کو ماننے کی دعوت حضرت یوسفؑ اوران کے پیرو اسرئیلی اورمصری مسلمان دیتے تھے۔ انہوں نےیہ سمجھا کہ خداکو مان کر ہم یوسفی تہزیب کے اثر سے نہ نکل سکیں گے ،اوریہ تہذیب باقی رہی توہمارا سیاسی اثر بھی مستحکم نہ ہوسکے گا۔ وہ خداکے اقرار اورمُسلم اقتدار کولازم وملزوم سمجھتے تھے، اس لیے ایک سے پیچھا چھڑاانے کی خاطر دوسرے کاانکار ان کے نزدیک ضروری تھا، اگرچہ اس کااقراران کےدل کی گہرائیوں سے کسی طرح نکالے نہ نکلتاتھا۔ |
1 | اس قول سے فرعون کامطلب ظاہر ہے کہ یہ نہیں تھا اورنہیں ہوسکتاتھا کہ میں ہی تمہار اورزمین آسمان کاخالق ہوں، کیونکہ ایسی بات صرف ایک پاگل ہی کےمنہ سےنکل سکتی تھی۔ اوراسی طرح اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ میرے سوا تمہار کوئی معبود نہیں ہے، کیونکہ اہل مصر کے مزہب می بہت سے معبودوں کی پرستش ہوتی تھی، اورخود فرعون کوجس بنا پرمعبودیت کامرتبہ دیاگیا تھا وہ بھی صرف یہ تھی کہ اسے سُورج دیوتا کا اوتار ماناجاتا تھا۔ سب سے بڑی شہادت قرآن مجید کی موجودہے کہ فرعون خود بہت سے دیوتاؤں کاپرستارتھا وَقَالَالْمَلاُمِنْ قَوْمِ فَرْعَوْنَ اَتَذَرُمُوْسٰی وَقَوْمَہُ لِیُفسِدُوْ فِیْالْاَرْضِ وَیَذَرَکَ وَاٰلِھَتَکَ،’’ اورفرعون کی قوم کےسرداروں نےکہاکیا توموسٰی اوراس کی قوم کوچھوٹ دے گا کہ ملک میںفساد برپا کریں اورتجھے اورتیرے معبودوں کوچھوڑدیں‘‘(الاعراف، آیت۱۲۷)۔ اس لیے لامحالہ یہاں فرعون نےلفظ ’’خدا‘‘ اپنے لیے بمعنی خالق ومعبود نہیں بلکہ مطاع وحاکم مطلق استعمال کیاتھا۔ اس کامدعایہ تھا کہ اس سرزمین مصرکامالک میں ہوں۔ یہاں امرونہی کا سرچشمہ تسلیم کی جائے گی۔ کوئی دوسرا یہاں حکم چلانے کامجاز نہیں ہے۔ یہ موسیٰ کون ہے جورب العالمین کا نمائندہ بن کرآکھڑاہواہےاورمجھے اس طرح احکام سنارہا ہے کہ گویا اصل فرمانروا یہ ہےاورمیں اس کاتابع فرمان ہوں۔ اسی بنا پراس نے اپنے دربار کے لوگوں کومخاطب کرکے کہاتھا یٰقَوْمِ اَلَیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَوَھٰذِہِ الْاَنْھَارُتَجْرِیْ مِنْ تَحْتِی، ’’اےقوم، کیا مصر کی بادشاہی میری ہی نہیں ہے، اوریہ نہریں میرےتحت جاری نہیں ہیں‘‘(الزخرف آیت ۵۱)اوراسی بنا پروہ حضرت موسٰیؑ سےباربارکہتا تھا اِجِئْتَنَالِتَلْفِتَنَا عَمَّاوَجَدْنَاعَلَیْہِ اٰبَآءَنَا وَتَکُوْنَ لَکُمَا الْکِبْرِیَآءُ فِی الْاَرْضِ، ’’کیا تواس لیے آیا ہے کہ ہمیں اُس طریقے سے ہٹادے جوہمارے باپ دادا کےزمانے سےچلاآرہا ہے اوراس ملک میںبڑائی تم دونوں بھائیوں کی ہوجائے(یونس،آیت ۷۸) اِجِئْتَنَالِتُخْرِجَنَامِنْ اَرْضِنَا بِسِحْرِکَ یٰمُوْسٰی، ’’اےموسٰیؑ کیا تواس لیے آیاہے کہ ہمیں اپنے جادوکےزورسے ہماری زمین سے بےدخل کردے‘‘؟(طٰہٰ۔ آیت ۵۷) اِنّْیِ اَخَاَفُ اَنْ یُّبَدِّلَ دِیْنَکُمْ اَوْاَنْ یُّظْھِرَ فِی الْاَرْضِ الْفَسَادَ، ’’میں ڈرتا ہون کہ یہ شخص تم لوگوں کادین بدل ڈالیگا، یاملک میں فساد برپاکرےگا‘‘(المومن۔آیت ۲۶)۔ اس لحاظ سے اگر غور کیا جائے توفرعون کی پوزیشن اُن ریاستوں کی پوزیشن سے کچھ بھی مختلف نہیں ہےجوخدا کے پیغمبرکی لائی ہوئی شریعت سےآزاد خودمختار ہوکراپنی سیاسی اورقانونی حاکمیت کی مدعی ہیں۔ وہ خواہ سرچشمہء قانون اورصاحب امرونہی کسی بادشاہ کومانیں یاقوم کی مرضی کو، بہرحال جب تک وہ یہ موقف اختیار کیے ہوئے ہیں کہ ملک میں خدا اوراس کےرسول کا نہیں بلکہ ہمارا حکم چلے گا اس وقت تک ان کے اورفرعون کےموقف میں کوئی اصولی فرق نہیں ہے۔ اب یہ الگ بات ہےکہ بشعور لوگ فرعون پرلعنت بھیجتے رہیں اوران کوسند جواز عطا کرتے رہیں۔ حقائق کی سمجھ بوجھ رکھنے والا آدمی تومعنی اورروح کو دیکھے گا نہ کہ الفاظ اوراصطلاحات کو۔ آخر اس سےکیا فرق پڑتا ہے کہ فرعون نے اپنے لیے’’الٰہ‘‘ کالفظ استعمال کیاتھا،اوریہ اسی معنی میں’’حاکمیت‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتی ہیں(مزید تشریح کےلیے ملاحظہ ہوتفہیم القرآن جلدسوم سورہ طٰہٰ۔ حاشیہ ۲۱)۔ |
Surah 79 : Ayat 23
فَحَشَرَ فَنَادَىٰ
اور لوگوں کو جمع کر کے اس نے پکار کر کہا
Surah 79 : Ayat 24
فَقَالَ أَنَا۟ رَبُّكُمُ ٱلْأَعْلَىٰ
"میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں1"
1 | فرعون کا یہ دعویٰ کئی مقامات پر قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک موقع پر اس نےحضرت موسی سے کہا کہ ‘‘اگر تم نے میرے سوا کسی اورکوخدا بنایا تو میں تمہیں قید کر دوں گا’’۔ (الشعراء آیت 29)۔ ایک اورموقع پر اس نے اپنے دربارمیں لوگوں کوخطاب کرکےکہا ‘‘اے سرداران قوم، میں نہیں جانتا کہ میرے سوا تمہارا کوئی اور خدا بھی ہے’’۔ (القصص، آیت 38)۔ ان ساری باتوں سے فرعون کا یہ مطلب نہ تھا اورنہیں ہو سکتا تھا کہ وہی کائنات کا خالق ہے اور اسی نے یہ دنیا پیدا کی ہے۔ یہ مطلب بھی نہ تھا کہ وہ اللہ تعالی کی ہستی کا منکر اور خود رب العاملین ہونے کا مدعی تھا۔ یہ مطلب بھی نہ تھا کہ وہ صرف اپنے آپ ہی کو مذہبی معنوں میں لوگوں کا معبود قرار دیتا تھا۔ قرآن مجید ہی میں اس بات کی شہادت موجود ہے کہ جہاں تک مذہب کا تعلق ہے وہ خود دوسرے معبودوں کی پرستش کرتا تھا۔ چنانچہ اس کے اہل دربار ایک موقع پر اس کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ ‘‘کیا آپ موسی اوراس کی قوم کو یہ آزادی دیتے چلے جائیں گے کہ وہ ملک میں فساد پھیلائیں اورآپ کو اورآپ کے معبودوں کو چھوڑ دیں؟’’ (الاعراف، آیت127)۔ اور قرآن میں فرعون کا یہ قول بھی نقل کیا گیا ہے کہ اگر موسی خدا کا بھیجا ہوا ہوتا تو کیوں نے اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے؟ یا اس کے ساتھ ملائکہ اس کی اردلی میں کیوں نہ آئے؟ (الزخرف، آیت 53)۔ پس درحقیقت وہ مذہبی معنی میں نہیں بلکہ سیاسی معنی میں اپنےآپ کو الہ اور رب اعلی کہتا تھا، یعنی اس کا مطلب یہ تھا کہ اقتدار اعلی کا مالک میں ہوں، میرے سوا کسی کو میری مملکت میں حکم چلانے کا حق نہیں ہے، اور میرے اوپر کوئی بالاتر طاقت نہیں ہے جس کا فرمان یہاں جاری ہو سکتا ہو (مزید تشریں کے لیے ملاحظہ کو تفہیم القرآن، جلد دوم، الاعراف، حاشیہ 85۔ جلد سوم، طٰہٰ، حاشیہ 21۔ الشعراء، حواشی 24۔26۔ القصص، حواشی 52۔53۔ جلد چہارم، الزخرف، حاشیہ 49) |
Surah 20 : Ayat 79
وَأَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهُۥ وَمَا هَدَىٰ
فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ ہی کیا تھا، کوئی صحیح رہنمائی نہیں کی تھی1
1 | بڑے لطیف انداز میں کفار مکہ کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ تمہارے سردار اور لیڈر بھی تم کو اسی راستے پر لیے جا رہے ہیں جس پر فرعون اپنی قوم کو لے جا رہا تھا۔ اب تم خود دیکھ لو کہ یہ کوئی صحیح رہنمائی نہ تھی۔ اس قصے کے خاتمے پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بائیبل بیانات کا بھی جائزہ لے لیا جاۓ گا کہ ان لوگوں کے جھوٹ کی حقیقت کھل جاۓ جو کہتے ہیں کہ قرآن میں یہ قصے بنی اسرائیل سے نقل کر لیے گۓ ہیں۔ بائیبل کی کتاب خروج(Exodus) میں اس قصے کی جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں، ان کے حسب ذیل اجزاء قابل توجہ ہیں : 1)۔ باب 4، آیت 2۔5 میں بتایا گیا ہے کہ عصا کا معجزہ حضرت موسیٰ کو دیا گیا تھا۔ اور آیت 17 میں انہیں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ’’تو اس لاٹھی کو اپنے ہاتھ میں لیے جا اور اسی سے ان معجزوں کو دکھانا‘‘۔ مگر آگے جا کر نہ معلوم یہ لاٹھی کس طرح حضرت ہارون کے قبضے میں چلی گئی اور وہی اس سے معجزے دکھانے لگے۔ باب 7 سے لے کر بعد کے ابواب میں مسلسل ہم کو حضرت ہارون ہی لاٹھی کے معجزے دکھاتے نظر آتے ہیں۔ 2)۔ باب 5 میں فرعون سے حضرت موسیٰ کی پہلی ملاقات کا حال بیان کیا گیا ہے، اور اس میں سرے سے اس بحث کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے جو اللہ تعالٰی کی توحید اور اس کی ربوبیت کے مسئلے پر ان کے اور فرعون کے درمیان ہوئی تھی۔ فرعون کہتا ہے کہ ’’خداوند کون ہے کہ میں اس کی بات مانوں اور بنی اسرائیل کو جانے دوں؟ میں خداوند کو نہیں جانتا‘‘۔ مگر حضرت موسیٰ اور ہارون اس کے سوا کچھ جواب نہیں دیتے کہ’’عبرانیوں کا خدا ہم سے ملا ہے‘‘۔ (باب 5۔ آیت 2۔3 )۔ 3)۔ جادو گروں سے مقابلے کی پوری داستان میں ان چند فقروں میں سمیٹ دی گئی ہے، ’’اور خداوند نے موسیٰؑ اور ہارونؑ سے کہا کہ جب فرعون تم کو کہے کہ اپنا معجزہ دکھاؤ تو ہارون سے کہنا کہ اپنی لاٹھی کو لے کر فرعون کے سامنے ڈال دے تاکہ وہ سانپ بن جاۓ۔ اور موسی اور ہارون فرعون کے پاس گۓ اور انہوں نے خداوند کے حکم کے مطابق کیا ور ہارون نے اپنی لاٹھی فرعون اور اس کے خادموں کے سامنے ڈال دی اور وہ سانپ بن گئی۔ تب فرعون نے بھی داناؤں اور جادوگرو کو بلوایا اور مصر کے جادوگروں نے بھی اپنے جادو سے ایسا ہی کیا۔ کیونکہ انہوں نے بھی اپنی اپنی لاٹھی سامنے ڈالی اور وہ سانپ بن گئیں۔ لیکن ہارون کی لاٹھی ان کی لاٹھیوں کو نگل گئی‘‘۔ (باب 7۔ آیت 8۔12)۔ اس بیان کا مقابلہ قرآن کے بیان سے کر کے دیکھ لیا جاۓ کہ قصے کی ساری روح یہاں کس بری طرح فنا کی گئی ہے۔ سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ جشن کے دن کھلے میدان میں باقاعدہ چیلنج کے بعد مقابلہ ہونا، اور پھر شکست کے بعد جادو گروں کا ایمان لانا، جو قصے کی اصل جان تھا، سرے سے یہاں مذکور ہی نہیں ہے۔ 4)۔ قرآن کہتا ہے کہ حضرت موسیٰ کا مطالبہ بنی اسرائیل کی رہائی اور آزادی کا تھا۔ بائیبل کا بیان ہے کہ مطالبہ صرف یہ تھا ’’ہم کو اجازت دے کہ ہم تین دن کی منزل بیابان میں جا کر خداوند اپنے خدا کے لیۓ قربانی کریں‘‘۔ (باب 5۔ آیت 3 ) 5)۔ مصر سے نکلنے اور فرعون کے غرق ہونے کا مفصل حال باب 11 سے 14 تک بیان کیا گیا ہے۔ اس میں بہت سی مفید معلومات، اور قرآن کے اجمال کی تفصیلات بھی ہمیں ملتی ہیں اور ان کے ساتھ متعدد عجیب باتیں بھی۔ مثلاً باب 14 کی آیات 15۔ 16 میں حضرت موسیٰ کو حکم دیا جاتا ہے کہ ’’تو اپنی لاٹھی (جی ہاں، اب لاٹھی حضرت ہارون سے لے کر پھر حضرت موسیٰ کو دے دی گئی ہے) اٹھا کر اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھا اور اسے دو حصے کر اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نکل جائیں گے‘‘۔ لیکن آگے چل کر آیت 21۔22 میں کہا جاتا ہے کہ ’’پھر موسیٰ نے اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایا اور خداوند نے رات بھر تُند پور بی آندھی چلا کر اور سمندر کو پیچھے ہٹا کر اسے خشک زمین بنا دیا اور پانی دو حصے ہو گیا اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نگل گۓ اور ان کے داہنے اور بائیں ہاتھ پانی دیوار کی طرح تھا۔‘‘ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ آیا یہ معجزہ تھا یا طبعی واقعہ اگر معجزہ تھا تو عصا کی ضرب سے ہی رونما ہو گیا ہو گا، جیسا کہ قرآن میں کہا گیا ہے۔ اور اگر طبعی واقعہ تھا تو یہ عجیب صورت ہے کہ مشرقی آندھی نے سمندر کو بیچ میں سے پھاڑ کر پانی کو دونوں طرف دیوار کی طرح کھڑا کر دیا اور بیچ میں سے خشک راستہ بنا دیا۔ کیا فطری طریقے سے ہوا کبھی ایسے کرشمے دکھاتی ہے؟ تلمود کا بیان نسبۃً بائیبل سے مختلف اور قرآن سے قریب تر ہے، مگر دونوں کا مقابلہ کرنے سے صاف محسوس ہو جاتا ہے ایک جگہ براہ راست علم وحی کی بنا پر واقعات بیان کیے جا رہے ہیں، اور دوسری جگہ صدیوں کی سینا بسینہ روایات میں واقعات کی صورت اچھی خاصی مسخ ہو گئی ہے۔ ملاحظہ ہو : The Talmud Selections, H. Polano Pp. 150-54 |
Surah 43 : Ayat 54
فَٱسْتَخَفَّ قَوْمَهُۥ فَأَطَاعُوهُۚ إِنَّهُمْ كَانُواْ قَوْمًا فَـٰسِقِينَ
اُس نے اپنی قوم کو ہلکا سمجھا اور انہوں نے اس کی اطاعت کی، در حقیقت وہ تھے ہی فاسق لوگ1
1 | اس مختصر سے فقرے میں ایک بہت بڑی حقیقت بیان کی گئی ہے ۔ جب کوئی شخص کسی ملک میں اپنی مطلق العنانی چلانے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے لیے کھلم کھلا ہر طرح کی چالیں چلتا ہے ، ہر فریب اور مکر و دغا سے کام لیتا ہے ، کھلے بازار میں ضمیروں کی خرید و فروخت کا کاروبار چلاتا ہے ، اور جو بکتے نہیں انہیں بے دریغ کچلتا اور روندتا ہے ، تو خواہ زبان سے وہ یہ بات نہ کہے مگر اپنے عمل سے صاف ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ در حقیقت اس ملک کے باشندوں کو عقل اور خلاق اور مردانگی کے لحاظ سے ہلکا سمجھتا ہے ، اور اس نے ان کے متعلق یہ راۓ قائم کی ہے کہ میں ان بے وقوف ، بے ضمیر اور بزدل لوگوں کو جدھر چاہوں ہانک کر لے جا سکتا ہوں۔ پھر جب اس کی یہ تدبیریں کامیاب ہو جاتی ہیں اور ملک کے باشندے اس کے دست بستہ غلام بن جاتے ہیں تو وہ اپنے عمل سے ثابت کر دیتے ہیں کہ اس خبیث نے جو کچھ انہیں سمجھا تا، واقعی وہ وہی کچھ ہیں۔ اور ان کے اس ذلیل حالت میں مبتلا ہونے کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ بنیادی طور پر ’’ فاسق‘‘ ہوتے ہیں۔ ان کو اس سے کچھ بحث نہیں ہوتی کہ حق کیا ہے اور باطل کیا۔ انصاف کیا ہے اور ظلم کیا۔ سچائی اور دیانت اور شرافت قدر کے لائق ہے یا جھوٹ اور بے ایمانی اور رذالت ۔ ان مسائل کے بجاۓ ان کے لیے اصل اہمیت صرف اپنے ذاتی مفاد کی ہوتی ہے جس کے لیے وہ ہر ظالم کا ساتھ دینے ، ہر جبار کے آگے رہنے ، ہر باطل کو قبول کرنے ، اور ہر صداۓ حق کو دبانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں |
Surah 28 : Ayat 32
ٱسْلُكْ يَدَكَ فِى جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَآءَ مِنْ غَيْرِ سُوٓءٍ وَٱضْمُمْ إِلَيْكَ جَنَاحَكَ مِنَ ٱلرَّهْبِۖ فَذَٲنِكَ بُرْهَـٰنَانِ مِن رَّبِّكَ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَإِيْهِۦٓۚ إِنَّهُمْ كَانُواْ قَوْمًا فَـٰسِقِينَ
اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال، چمکتا ہوا نکلے گا بغیر کسی تکلیف کے1 اور خوف سے بچنے کے لیے اپنا بازو بھینچ لے2 یہ دو روشن نشانیاں ہیں تیرے رب کی طرف سے فرعون اور اس کے درباریوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے، وہ بڑے ہی نافرمان لوگ ہیں3"
3 | ان الفاظ میں یہ مفہوم آپ سے آپ شامل ہے کہ یہ نشانیاں لے کر فرعون کے پاس جاؤ اوراللہ کے رسول کی حیثیت سے اپنے آپ کوپیش کرکے اسے اوراس کے اعیان سلطنت کواللہ رب العالمین کی اطاعت وبندگی کی طرف دعوت دو۔ اسی لیے یہاں اس ماموریت کی تصریح نہیں کی گئی ہے۔ البتہ دُوسرے مقامات پرصراحت کے ساتھ یہ مضمون بیان کیاگیاہے۔ سورہ طٰہٰ اورسورہ نازعات میںفرمایا اِذھب الی فرعون انھ طغی ،’’ فرعون کے پاس جاکہ وہ سرکش ہوگیا ہے‘‘ اورالشعراء میں فرمایا اذنادٰی رَبک موسٰی ان ائت القوم الظلمین قوم فرعون،’’ جب کہ پکارا تیرے رب نے موسٰیؑ کوکہ جاظالم قوم کے پاس‘‘ |
2 | یعنی جب کبھی کوئی خطرناک موقع ایسا آئے جس سےتمہارے دل میں خوف پیدا ہوتو اپنا بازو بھینچ لیاکرو، اس سے تمہارادل قوی ہوجائے گااوررعب ودہشت کی کوئی کیفیت تمہارے اندر باقی نہ رہےگی۔ بازو سے مراد غالباََ سیدھا بازو ہے، کیونکہ مطلقاََ ہاتھ بول کرسیدھا ہاتھ ہی مراد لیا جاتا ہے۔ بھینچنے کی دوشکلیں ممکن ہیں ۔ اغلب یہ ہے کہ پہلی شکل ہی مراد ہوگی ۔ کیونکہ اس صورت میںدوسرا کوئی شخص یہ محسوس نہیں کرسکتا کہ آدمی اپنےدل کاخوف دورکرنے کےلیے کوئی خاص عمل کررہاہے۔ حضرت موسٰیؑ کویہ تدبیر اس لیے بتائی گئی کہ وہ ایک ظالم حکومت کا مقابلہ کرنے کےلیے کسی لاؤ لشکر اوردنیوی سازوسامان کے بغیر بھیجے جارہے تھے۔ بارہا ایسے خوفناک مواقع پیش آنے والے تھے جن میں ایک اولوالعزم نبی تک دہشت سے محفوظ نہ رہ سکتا تھا۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ جب کوئی ایسی صورت پیش آئے، تم بس یہ عمل کرلیا کرو، فرعون اپنی پوری سلطنت کا زور لگا کر بھی تمہارے دل کی طاقت کومتزلزل نہ کرسکےگا۔ |
1 | یہ دونون معجزے اس وقت حضرت موسٰیؑ کواس لیے دکھائے گئے کہ اول توانہیں خود پوری طرح یقین ہوجائے کہ فی الواقع وہی ہستی ان سے مخاطب ہے جوکائنات کے پورے نظام کی خالق ومالک اورفرماں روا ہے۔ دوسرے وہ ان معجزوں کودیکھ کرمطمئن ہوجائیں کہ جس خطرناک مشن پرانہیںفرعون کی طرف بھیجا جارہا ہےاس کا سامنا کرنے کےلیے وہ بالکل نہتے نہیں جائیں گے بلکہ دوزبردست ہتھیارلے کرجائیں گے۔ |