Ayats Found (6)
Surah 7 : Ayat 130
وَلَقَدْ أَخَذْنَآ ءَالَ فِرْعَوْنَ بِٱلسِّنِينَ وَنَقْصٍ مِّنَ ٱلثَّمَرَٲتِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ
ہم نے فرعون کے لوگوں کو کئی سال تک قحط اور پیداوار کی کمی میں مبتلا رکھا کہ شاید ان کو ہوش آئے
Surah 7 : Ayat 131
فَإِذَا جَآءَتْهُمُ ٱلْحَسَنَةُ قَالُواْ لَنَا هَـٰذِهِۦۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُواْ بِمُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُۥٓۗ أَلَآ إِنَّمَا طَـٰٓئِرُهُمْ عِندَ ٱللَّهِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
مگر اُن کا حال یہ تھا کہ جب اچھا زمانہ آتا تو کہتے کہ ہم اِسی کے مستحق ہیں، اور جب برا زمانہ آتا تو موسیٰؑ اور اس کے ساتھیوں کو اپنے لیے فال بد ٹھیراتے، حالانکہ در حقیقت ان کی فال بد تو اللہ کے پاس تھی، مگر ان میں سے اکثر بے علم تھے
Surah 7 : Ayat 132
وَقَالُواْ مَهْمَا تَأْتِنَا بِهِۦ مِنْ ءَايَةٍ لِّتَسْحَرَنَا بِهَا فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ
انہوں نے موسیٰؑ سے کہا کہ 1"تو ہمیں مسحور کرنے کے لیے خواہ کوئی نشانی لے آئے، ہم تو تیری بات ماننے والے نہیں ہیں"
1 | یہ انتہائی ہٹ دھرمی و سخن پر وری تھی کہ فرعون کے اہل ِ دربار اُس چیز کو بھی جادو قرار دے رہے تھے جس کے متعلق وہ خود بھی با لیقین جانتے تھے کہ وہ جادو کا نتیجہ نہیں ہو سکتی۔ شاید کوئی بے وقوف آدمی بھی یہ باور نہ کرے گا کہ ایک پورے ملک میں قحط پڑ جانا اور زمین کی پیداوار میں مسلسل کمی واقع ہونا کسی جادو کا کرشمہ ہو سکتا ہے۔ اسی بناء پر قرآن مجید کہتا ہے کہ فَلَمَّا جَآ ءَ تْھُمْ اٰیٰتُنَا مُبْصِرَةً قَا لُوْا ھٰذَا سِحْرٌ مُّبِینٌ وَّجَحَدُوا بِھَا و ا ستَیْقَنَتھَٓا اَنفُسُھُمْ ظُلْمًاوَّ عُلُوًّا (النمل۔ آیات ١۳۔١۴)یعنی”جب ہماری نشانیاں علانیہ ان کی نگاہوں کے سامنے آئیں تو انہوں نے کہا کہ یہ تو کھلا جادو ہے، حالانکہ ان کے دل اندر سے قائل ہو چکے تھے، مگر انہوں نے محض ظلم اور سر کشی کی راہ سے ان کا انکار کیا |
Surah 27 : Ayat 13
فَلَمَّا جَآءَتْهُمْ ءَايَـٰتُنَا مُبْصِرَةً قَالُواْ هَـٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ
مگر جب ہماری کھلی کھلی نشانیاں اُن لوگوں کے سامنے آئیں تو انہوں نے کہا یہ تو کھلا جادو ہے
Surah 27 : Ayat 14
وَجَحَدُواْ بِهَا وَٱسْتَيْقَنَتْهَآ أَنفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّاۚ فَٱنظُرْ كَيْفَ كَانَ عَـٰقِبَةُ ٱلْمُفْسِدِينَ
انہوں نے سراسر ظلم اور غرور کی راہ سے ان نشانیوں کا انکار کیا حالانکہ دل ان کے قائل ہو چکے تھے1 اب دیکھ لو کہ ان مفسدوں کا انجام کیسا ہوا
1 | قرآن میں دوسرے مقامات پر بیان کیا گیا ہے کہ جب موسٰی علیہ السلام کے اعلان کے مطابق کوئی بلائے عام مصر پر نازل ہوتی تھی تو فرعون حضرت موسٰیؑ سےکہتا تھا کہ تم اپنے خداسے دعا کرکےاس بلا کو ٹلوادو، پھر کچھ تم کہتے ہو وہ ہم مان لیں گے۔ مگر جب وہ بلا ٹل جاتی تھی تو فرعون اپنی اُسی ہٹ دھرمی پرتُل جاتا تھا (الاعراف، آیت ۱۳۴الذخرف، آیت ۴۹۔۵۰)۔ بائیبل میں بھی اس ذکر موجود ہے(خروج، باب ۸تا۱۰)۔ اورویسے بھی یہ بات کسی طرح تصور میں نہ آسکتی تھی کہ ایک پورے ملک پر قحط اور طوفان اور ٹڈی دلوں کا ٹوٹ پڑنا اور مینڈکوں اور سُرسُرہوں کے بےشمارلشکروں کااُمنڈ آنا کسی جادو کاکرشمہ ہوسکتا ہے۔ یہ ایسے کھلے ہوئے معجزے تھے جن کو دیکھ کر ایک بیوقوف سے بیوقوف آدمی بھی یہ سمجھ سکتا تھا کہ بیغمبر کے کہنے پر ایسی ملک گیر بلاؤں کا آنااور پھر اس کے کہنے پر ان کا دُور ہوجانا صرف اللہ رب العالمین ہی کے تصرف کا تتیجہ ہوسکتاہے۔ اسی بنا پر حضرت موسٰی نے فرعون سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ لقد عملت ماانزل ھٰئولاءِالّا ربّ السّمٰوٰتِ والارض،’’تو خوب جان چکا ہے کہ یہ نشانیاں مالک زمین وآسمان کےسوا کسی اور نے نازل نہیں کی ہیں ‘‘ (بنی اسرائیل،آیت ۱۰۲)۔ لیکن جس وجہ سے فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں نے جان بوجھ کران کا انکار کیا وہ یہ تھی کہ انومن لبشرین مثلنا وقومھما لنا عابدون کیا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں کی بات مان لیں حالانکہ ان کی قوم ہماری غلام ہے‘‘؟(المومنون، آیت ۴۷) |
Surah 7 : Ayat 133
فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ ٱلطُّوفَانَ وَٱلْجَرَادَ وَٱلْقُمَّلَ وَٱلضَّفَادِعَ وَٱلدَّمَ ءَايَـٰتٍ مُّفَصَّلَـٰتٍ فَٱسْتَكْبَرُواْ وَكَانُواْ قَوْمًا مُّجْرِمِينَ
آخر کار ہم نے ان پر طوفان بھیجا1، ٹڈی دل چھوڑے، سرسریاں پھیلائیں2، مینڈک نکالے، اور خو ن برسایا یہ سب نشانیاں الگ الگ کر کے دکھائیں، مگر وہ سر کشی کیے چلے گئے اور وہ بڑے ہی مجرم لوگ تھے
2 | اصل میں لفظ قُمَّلْا استعمال ہوا ہے جس کے کئی معنی ہیں۔ جُوں مکھی ، چھوٹی ٹڈی ، مچھر، سُرسُری وغیرہ غالباً یہ جامع لفظ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ بیک وقت جُوؤں اور مچھروں نے آدمیوں پر اور سُرسُریوں (گُھن کے کیڑوں)نے غلہ کے ذخیروں پر حملہ کیا ہوگا۔(تقابل کے لیے ملاحظہ ہو بائیبل کی کتاب خروج، باب ۷تا ١۲، نیز الزُخرُف، حاشیہ ۴۳) |
1 | غالباً بارش کا طوفان مراد ہے جس میں اولے بھی برسے تھے۔ اگر چہ طوفان دوسری چیزوں کا بھی ہو سکتا ہے ، لیکن بائیبل میں ژالہ باری کے طوفان کا ہی ذکر ہے اس لیے ہم اسی معنی کو ترحیح دیتے ہیں |