Ayats Found (4)
Surah 75 : Ayat 22
وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ
اُس روز کچھ چہرے تر و تازہ ہونگے1
1 | یعنی خوشی سے دمک رہے ہونگے، کیونکہ جس آخرت پر وہ ایمان لائے تھےوہ ٹھیک ان کے یقین کے مطابق سامنے موجود ہو گی، اور جس آخرت پر ایمان لا کر انہوں نے دنیا کے ناجائز فائدے چھوڑے اور برحق نقصان برداشت کیے تھے اس کو فی الواقع اپنی آنکھوں کے سامنے برپا ہوتے دیکھ کرانہیں یہ اطمینان حاصل ہو جائے گا کہ انہوں نے اپنے رویہ زندگی کے متعلق بالکل صحیح فیصلہ کیا تھا، اب وہ وقت آ گیا ہے جب وہ اس کا بہترین انجام دیکھیں گے |
Surah 75 : Ayat 23
إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ
اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہونگے1
1 | مفسرین میں سے بعض نے اسے مجازی معنی میں لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی کی طرف دیکھنے کے الفاظ محاورے کے طور پر اس سے توقعات وابستہ کرنے، اس کے فیصلے کا انتظار کرنے، اس کے کرم کا امیدوار ہونے کے معنی میں بولے جاتے ہیں، حتی کہ ایک اندھا بھی یہ کہتا ہے کہ میری نگاہیں تو فلاں شخص کی طرف لگی ہوئی ہیں کہ وہ میرے لیے کیا کرتا ہے۔ لیکن بکثرت احادیث میں رسول اللہ ﷺ سے اس کی جو تفسیر منقول ہے وہ یہ ہے کہ آخرت میں اللہ کے مکرم بندوں کو اپنے رب کا دیدارنصیب ہو گا۔ بخاری کی روایت ہے کہ انکم سترون ربکم عیانا۔ ’’تم اپنے رب کو علانیہ دیکھو گے‘‘۔ مسلم اور ترمذی میں حضرت صہیب کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا جب جنتی لوگ جنت میں داخل ہو جائیں گے تو اللہ تعالی ان سے دریافت فرمائے گا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں مزید کچھ دوں؟ وہ عرض کریں گے کیا آپ نے ہمارے چہرے روشن نہیں کر دیے؟ کیا آپ نےہمیں جنت میں داخل نہیں کردیا اورجہنم سے بچا نہیں لیا؟ اس پر اللہ تعالی پردہ ہٹا دے گا اور ان لوگوں کو جوکچھ انعامات ملے تھے ان میں سے کوئی انعام ہے جس کے متعلق قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ للذین احسنو الحسنی و زیادۃ۔ یعنی ’’جن لوگوں نے نیک عمل کیا ان کے لیے اچھا اجر ہے اوراس پرمزید بھی‘‘۔(یونس۔ 26)۔ بخاری ومسلم میں حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ہریرہ نےفرمایا کیا تمہیں سورج اورچاند کو د یکھنےمیں کوئی دقت ہوتی ہے جبکہ بیچ میں بادل بھی نہ ہو؟ لوگوں نےعرض کیا، نہیں۔ آپؐ نے فرمایا اسی طرح تم اپنے رب کو دیکھو گے۔ اسی مضمون سے ملتی جلتی ایک اور روایت بخاری و مسلم میں حضرت جریر بن عبداللہ سے مروی ہے۔ مسند احمد، ترمذی، دار قطنی، ابن جریر، ابن المنذر، طبرانی، بہیقی، ابن ابی شیبہ اور بعض دوسرے محدثین نے تھوڑے لفظی اختلاف کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت نقل کی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ اہل جنت میں سے کم درجے کا جوآدمی ہوگا وہ اپنی سلطنت کی وسعت دو ہزارسال کی مسافت تک دیکھے گا، اوران میں سب سے زیادہ فضیلت رکھنے والے لوگ ہر روزدومرتبہ اپنے رب کو دیکھں گے۔ پھر حضورؐ نے یہی آیت پڑھی کہ ’’ اس روز کچھ چہرے ترو تازہ ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے‘‘۔ ابن ماجہ میں حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ ا للہ ان کی طرف دیکھے گا اوروہ اللہ کی طرف دیکھیں گے، پھر جب تک اللہ ان سے پردہ نہ فرما لے گا اس وقت تک وہ جنت کی کسی نعمت کی طرف توجہ نہ کریں گے۔ اور اسی کی طرف د یکھتے رہیں گے۔ یہ اور دوسری بہت سی روایات ہیں جن کی بنا پر اہل السنت قریب قریب بالاتفاق اس آیت کا یہی مطلب لیتے ہیں کہ آخرت میں اہل جنت اللہ تعالی کےدیدار سے مشرف ہوں گے۔ اوراس کی تائید قرآن مجید کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے کہ کلا انھم عن ربھم یومیذ لمحجوبون ’’ہر گز نہیں ، وہ (یعنی فجار) اس روز اپنے رب کی دید سے محروم ہوں گے‘‘۔ (المطففین۔15)۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ محرومی فجار کے لیے ہو گی نہ کہ ابرار کے لیے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر انسان خدا کو دیکھ کیسے سکتا ہے؟ دیکھنےکےلیے تولازم ہے کہ کوئی چیز کسی خاص جہت، مقام، شکل اوررنگ میں سامنے موجود ہو، روشنی کی شعاعیں اس سےمنعکس ہوکرانسان کی آنکھ پر پڑیں اور آنکھ سے دماغ کے مرکزِ بینائی تک اس کی تصویر منتقل ہو۔ کیا ا للہ رب العالمین کی ذات کے متعلق اس طرح قابلِ دید ہونےکا تصور بھی کیا جا سکتا ہےکہ انسان اس کو دیکھ سکے؟ لیکن یہ سوال دراصل ایک بڑی غلط فہمی پرمبنی ہے۔ اس میں دو چیزوں کے درمیان فرق نہیں کیا گیا ہے۔ ایک چیز ہے دیکھنے کی حقیقت اور دوسری چیز ہے دیکھنے کا فعل صادر ہونے کی وہ خاص صورت جس سے ہم اس دنیا میں آشنا ہیں۔ دیکھنے کی حقیقت یہ ہے کہ دیکھنے والے میں بینائی کی صفت موجود ہو، وہ نابینا نہ ہو، اور دیکھی جانے والی چیز اس پر عیاں ہو، اس سے مخفی نہ ہو۔ لیکن میں ہم کو جس چیز کا تجربہ اور مشاہدہ ہوتا ہے وہ صرف دیکھنے کی وہ خاص صورت ہے جس سے کوئی انسان یا حیوان بالفعل کسی چیز کو دیکھا کرتا ہے، اور اس کے لیے لا محالہ یہ ضروری ہے کہ دیکھنے والے کے جسم میں آنکھ نامی ایک عضوموجود ہو، اس عضومیں بینائی کی طاقت پائی جاتی ہو، اور آنکھ میں اس کی شکل سما سکے۔ اب اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ دیکھنے کی حقیقت کا عملی ظہور صرف اسی خاص صورت میں ہو سکتا ہے جس سے ہم اس دنیا میں واقف ہیں تو یہ خود اس کے اپنے دماغ کی تنگی ہے، ورنہ درحقیقت خدا کی خدائی میں دیکھنے کی ایسی بیشمار صورتیں ممکن ہیں جن کا ہم تصوربھی نہیں کر سکتے۔ اس مسئلے میں جو شخص الجھتا ہے وہ خود بتائےکہ اس کا خدا بینا ہے نابینا؟ اگر وہ بینا ہے اور اپنی ساری کائنات اور اس کی ایک ایک چیز کو دیکھ رہا ہےتوکیا وہ اسی طرح آنکھ نامی ایک عضور سے دیکھ رہا ہے جس سے دنیا میں انسان و حیوان دیکھ رہے ہیں اور اس سے بینائی کے فعل کا صدور اسی طریقے سے ہو رہا ہے جس طرح ہم سے ہوتا ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے اور جب اس کا جواب نفی میں ہے تو آخر کسی صاحت عقل و فہم انسان کو یہ سمجھنے میں کیوں مشکل پیش آتی ہے کہ آخرت میں اہل جنت کو اللہ تعالی کا دیداد اس مخصوص شکل میں نہیں ہوگا جس میں انسان دنیا میں کسی چیز کو دیکھتا ہے، بلکہ وہاں دیکھنے کی حقیقت کچھ اور ہوگی جس کا ہم یہاں ادراک نہیں کر سکتے؟ واقعہ یہ ہے کہ آخرت کے معاملات کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لینا ہمارے لیے اس سے زیادہ مشکل ہے جتنا ایک دو برس کے بچے کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ازدواجی زندگی کیا ہوتی ہے، حالانکہ جوان ہو کر اسے خود اس سے سابقہ پیش آنا ہے |
Surah 10 : Ayat 26
۞ لِّلَّذِينَ أَحْسَنُواْ ٱلْحُسْنَىٰ وَزِيَادَةٌۖ وَلَا يَرْهَقُ وُجُوهَهُمْ قَتَرٌ وَلَا ذِلَّةٌۚ أُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلْجَنَّةِۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
جن لوگوں نے بھَلائی کا طریقہ اختیار کیا ان کے لیے بھَلائی ہے اور مزید فضل1 ان کے چہروں پر رُو سیاہی اور ذلّت نہ چھائے گی وہ جنت کے مستحق ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے
1 | یعنی ان کو صرف ان کی نیکی کے مطابق ہی اجر نہیں ملے گا بلکہ اللہ اپنے فضل سے ان کو مزید انعام بھی بخشے گا |
Surah 50 : Ayat 35
لَهُم مَّا يَشَآءُونَ فِيهَا وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ
وہاں ان کے لیے وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے، اور ہمارے پاس اس سے زیادہ بھی بہت کچھ ان کے لیے ہے1
1 | یعنی جو کچھ وہ چاہیں گے وہ تو ان کے ملے گا ہی، مگر اس پر مزید ہم انہیں وہ کچھ بھی دیں گے جس کا کوئی تصور تک ان کے ذہن میں نہیں آیا ہے کہ وہ اس کے حاصل کرنے کی خواہش کریں |