Ayats Found (8)
Surah 3 : Ayat 13
قَدْ كَانَ لَكُمْ ءَايَةٌ فِى فِئَتَيْنِ ٱلْتَقَتَاۖ فِئَةٌ تُقَـٰتِلُ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَأُخْرَىٰ كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُم مِّثْلَيْهِمْ رَأْىَ ٱلْعَيْنِۚ وَٱللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِۦ مَن يَشَآءُۗ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَعِبْرَةً لِّأُوْلِى ٱلْأَبْصَـٰرِ
تمہارے لیے اُن دو گروہوں میں ایک نشان عبرت تھا، جو (بدر میں) ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا گروہ کافر تھا دیکھنے والے بچشم سر دیکھ رہے تھے کہ کافر گروہ مومن گروہ سے دو چند ہے1 مگر (نتیجے نے ثابت کر دیا کہ) اللہ اپنی فتح و نصرت سے جس کو چاہتا ہے، مدد دیتا ہے دیدۂ بینا رکھنے والوں کے لیے اس میں بڑا سبق پوشیدہ ہے2
2 | جنگِ بدر کا واقعہ اُس وقت قریبی زمانے ہی میں پیش آچکا تھا، اس لیے اس کے مشاہدات و نتائج کی طرف اشارہ کر کے لوگوں کو عبرت دلائی گئی ہے۔ اس جنگ میں تین باتیں نہایت سبق آموز تھیں: ایک یہ کہ مسلمان اور کفار جس شان سے ایک دُوسرے کے بالمقابل آئے تھے، اس سے دونوں کا اخلاقی فرق صاف ظاہر ہو رہا تھا۔ ایک طرف کافروں کے لشکر میں شرابوں کے دَور چل رہے تھے، ناچنے اور گانے والی لونڈیاں ساتھ آئی تھیں اور خوب دادِ عیش دی جارہی تھی۔ دُوسری طرف مسلمانوں کے لشکر میں پرہیز گاری تھی، خدا ترسی تھی، انتہا درجہ کا اخلاقی انضباط تھا، نمازیں تھیں اور روزے تھے ، بات بات پر خدا کا نام تھا اور خدا ہی کے آگے دُعائیں اور التجائیں کی جارہی تھیں۔ دونوں لشکر وں کو دیکھ کر ہر شخص بآسانی معلوم کر سکتا تھا کہ دونوں میں سے کون اللہ کی راہ میں لڑ رہا ہے۔ دُوسرے یہ کہ مسلمان اپنی قلتِ تعداد اور بے سرو سامانی کے باوجود کفار کی کثیر التعداد اور بہتر اسلحہ رکھنے والی فوج کے مقابلے میں جس طرح کامیاب ہوئے، اس سے صاف معلوم ہو گیا تھا کہ ان کو اللہ کی تائید حاصل تھی۔ تیسرے یہ کہ اللہ کی غالب طاقت سے غافل ہو کر جولوگ اپنے سروسامان اور اپنے حامیوں کی کثرت پر پھُولے ہوئے تھے ، ان کے لیے یہ واقعہ ایک تازیانہ تھا کہ اللہ کس طرح چند مُفلس و قَلّانچ غریب الوطن مہاجروں اور مدینے کے کاشتکاروں کی ایک مُٹھی بھر جماعت کے ذریعے سے قریش جیسے قبیلے کو شکست دلوا سکتا ہے، جو تمام عرب کا سرتاج تھا |
1 | اگر چہ حقیقی فرق سہ چند تھا ، لیکن سرسری نگاہ سے دیکھنے والا بھی یہ محسُوس کیے بغیر تو نہیں رہ سکتا تھا کہ کفار کا لشکر مسلمانوں سے دو گنا ہے |
Surah 5 : Ayat 119
قَالَ ٱللَّهُ هَـٰذَا يَوْمُ يَنفَعُ ٱلصَّـٰدِقِينَ صِدْقُهُمْۚ لَهُمْ جَنَّـٰتٌ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ خَـٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًاۚ رَّضِىَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُۚ ذَٲلِكَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ
تب اللہ فرمائے گا "یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو اُن کی سچائی نفع دیتی ہے، ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، یہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے، یہی بڑی کامیابی ہے"
Surah 9 : Ayat 21
يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُم بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَرِضْوَٲنٍ وَجَنَّـٰتٍ لَّهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُّقِيمٌ
ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور ایسی جنتوں کی بشارت دیتا ہے جہاں ان کے لیے پائیدار عیش کے سامان ہیں
Surah 9 : Ayat 72
وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُؤْمِنَـٰتِ جَنَّـٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ خَـٰلِدِينَ فِيهَا وَمَسَـٰكِنَ طَيِّبَةً فِى جَنَّـٰتِ عَدْنٍۚ وَرِضْوَٲنٌ مِّنَ ٱللَّهِ أَكْبَرُۚ ذَٲلِكَ هُوَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ
ان مومن مردوں اور عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ان سدا بہار باغوں میں ان کے لیے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی خوشنودی انہیں حاصل ہوگی یہی بڑی کامیابی ہے
Surah 9 : Ayat 100
وَٱلسَّـٰبِقُونَ ٱلْأَوَّلُونَ مِنَ ٱلْمُهَـٰجِرِينَ وَٱلْأَنصَارِ وَٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُم بِإِحْسَـٰنٍ رَّضِىَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّـٰتٍ تَجْرِى تَحْتَهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ خَـٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًاۚ ذَٲلِكَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ
وہ مہاجر و انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوت ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی، نیز وہ جو بعد میں راستبازی کے ساتھ پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، یہی عظیم الشان کامیابی ہے
Surah 57 : Ayat 20
ٱعْلَمُوٓاْ أَنَّمَا ٱلْحَيَوٲةُ ٱلدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرُۢ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِى ٱلْأَمْوَٲلِ وَٱلْأَوْلَـٰدِۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ ٱلْكُفَّارَ نَبَاتُهُۥ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَٮٰهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَـٰمًاۖ وَفِى ٱلْأَخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِّنَ ٱللَّهِ وَرِضْوَٲنٌۚ وَمَا ٱلْحَيَوٲةُ ٱلدُّنْيَآ إِلَّا مَتَـٰعُ ٱلْغُرُورِ
خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہو گئی تو اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہو گئے پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہو گئی پھر وہ بھس بن کر رہ جاتی ہے اِس کے برعکس آخرت وہ جگہ ہے جہاں سخت عذاب ہے اور اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ہے دنیا کی زندگی ایک دھوکے کی ٹٹی کے سوا کچھ نہی1ں
1 | اس مضمون کو پوری طرح سمجھنے کے لیے قرآن مجید کے حسب ذیل مقامات کو نگاہ میں رکھنا چاہیے ۔ سورہ آل عمران، آیات 14۔15۔ یونس، 24۔25۔ ابراہیم، 18۔ الکہف، 45۔46۔ النور، 39۔ اِن سب مقامات پر جو بات انسان کے ذہن نشین کرانے کی کوشش کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ دنیا کی زندگی دراصل ایک عارضی زندگی ہے ۔ یہاں کی بہار بھی عارضی ہے اور خزاں بھی عارضی۔ دل بہلانے کا سامان یہاں بہت کچھ ہے ، مگر در حقیقت وہ نہایت حقیر اور چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جنہیں اپنی کم ظرفی کی وجہ سے آدمی بڑی چیز سمجھتا ہے اور اس دھوکے میں پڑ جاتا ہے کہ انہی کو پا لینا گویا کامیابی کے منتہیٰ تک پہنچ جانا ہے ۔ حالانکہ جو بڑے سے بڑے فائدے اور لطف و لذت کے سامان بھی یہاں حاصل ہونے ممکن ہیں وہ بہت حقیر اور صرف چند سال کی حیات مستعار تک محدود ہیں ، اور ان کا حال بھی یہ ہے کہ تقدیر کی ایک ہی گردش خود اسی دنیا میں ان سب پر جھاڑو پھیر دینے کے لیے کافی ہے ۔ اس کے بر عکس آخرت کی زندگی ایک عظیم اور ابدی زندگی ہے ۔ وہاں کے فائدے بھی عظیم اور مستقل ہیں اور نقصان بھی عظیم اور مستقل۔ کسی نے اگر وہاں اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی پالی تو اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہ نعمت نصیب ہو گئی جس کے سامنے دنیا بھر کی دولت و حکومت بھی ہیچ ہے ۔ اور جو وہاں خدا کے عذاب میں گرفتار ہو گیا اس نے اگر دنیا میں وہ سب کچھ بھی پا لیا ہو جسے وہ اپنے نزدیک بڑی چیز سمجھتا تھا تو اسے معلوم ہو جاۓ گا کہ وہ بڑے خسارے کا سودا کر کے آیا ہے |
Surah 58 : Ayat 22
لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْأَخِرِ يُوَآدُّونَ مَنْ حَآدَّ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَلَوْ كَانُوٓاْ ءَابَآءَهُمْ أَوْ أَبْنَآءَهُمْ أَوْ إِخْوَٲنَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْۚ أُوْلَـٰٓئِكَ كَتَبَ فِى قُلُوبِهِمُ ٱلْإِيمَـٰنَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُۖ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّـٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ خَـٰلِدِينَ فِيهَاۚ رَضِىَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُۚ أُوْلَـٰٓئِكَ حِزْبُ ٱللَّهِۚ أَلَآ إِنَّ حِزْبَ ٱللَّهِ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ
تم کبھی یہ نہ پاؤ گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ اُن لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے، خواہ وہ اُن کے باپ ہوں، یا اُن کے بیٹے، یا اُن کے بھائی یا اُن کے اہل خاندان1 یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح عطا کر کے ان کو قوت بخشی ہے وہ ان کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے وہ اللہ کی پارٹی کے لوگ ہیں خبردار رہو، اللہ کی پارٹی والے ہی فلاح پانے والے ہیں
1 | اس آیت میں دو باتیں ارشاد ہوئی ہیں۔ ایک بات اصولی ہے، اور دوسری امر واقعی کا بیان۔ اصولی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ دین حق پر ایمان اور اعداۓ دین کی محبت، دو بالکل متضاد چیزیں ہیں جن کا ایک جگہ اجتماع کسی طرح قابل تصور نہیں ہے۔ یہ بات قطعی ناممکن ہے کہ ایمان اور دشمنان خدا و رسول کی محبت ایک دل میں جمع ہو جائیں، بالکل اسی طرح جیسے ایک آدمی کے دل میں اپنی ذات کی محبت اور اپنے دشمن کی محبت بیک وقت جمع نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا اگر تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ ایمان کا دعویٰ بھی کرتا ہے اور ساتھ ساتھ اس نے ایسے لوگوں سے محبت کا رشتہ بھی جوڑ رکھا ہے جو اسلام کے مخالف ہیں تو یہ غلط فہمی تمہیں ہر گز لاحق نہ ہونی چاہیے کہ شاید وہ اپنی اس روش کے باوجود ایمان کے دعوے میں سچا ہو۔ اسی طرح جن لوگوں نے اسلام اور مخالفین اسلام سے بیک وقت رشتہ جوڑ رکھا ہے وہ خود بھی اپنی پوزیشن پر اچھی طرح غور کر لیں کہ وہ فی الواقع کیا ہیں، مومن ہیں یا منافق؟ اور فی الواقع کیا ہونا چاہتے ہیں، مومن بن کر رہنا چاہتے ہیں یا منافق؟ اگر ان کے اندر کچھ بھی راستبازی موجود ہے، اور وہ کچھ بھی یہ احساس اپنے اندر رکھتے ہیں کہ اخلاقی حیثیت سے منافقت انسان کے لیے ذلیل ترین رویہ ہے، تو انہیں بیک وقت دو کشتیوں میں سوار ہونے کی کوشش چھوڑ دینی چاہیے۔ ایمان تو ان سے دو ٹوک فیصلہ چاہتا ہے۔ مومن رہنا چاہتے ہیں تو ہر اس رشتے اور تعلق کو قربان کر دیں جو اسلام کے ساتھ ان کے تعلق سے متصادم ہوتا ہو۔ اسلام کے رشتے سے کسی اور رشتے کو عزیز تر رکھتے ہیں تو بہتر ہے کہ ایمان کا جھوٹا دعویٰ چھوڑ دیں۔ یہ تو ہے اصولی بات۔ مگر اللہ تعالیٰ نے یہاں صرف اصول بیان کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا ہے بلکہ اس امر واقعی کو بھی مدعیان ایمان کے سامنے نمونے کے طور پر پیش فرما دیا ہے کہ جو لوگ سچے مومن تھے انہوں نے فی الواقع سب کی آنکھوں کے سامنے تمام ان رشتوں کو کاٹ پھینکا جو اللہ کے دین کے ساتھ ان کے تعلق میں حائل ہوۓ۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو بدر و احد کے معرکوں میں سارا عرب دیکھ چکا تھا۔ مکہ سے جو صحابہ کرام ہجرت کر کے آۓ تھے وہ صرف خدا اور اس کے دین کی خاطر خود اپنے قبیلے اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں سے لڑ گۓ تھے۔ حضرت ابو عبیدہ نے اپنے باپ عبداللہ بن جراح کو قتل کیا۔ حضرت مصعب بن عمیر نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو قتل کیا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیا۔ حضرت ابو بکر اپنے بیٹے عبدالرحمان سے لڑنے کے لیے تیار ہو گۓ۔حضرت علی، حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ بن الحارث نے تربہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ کو قتل کیا جو ان کے قریبی رشتہ دار تھے۔ حضرت عمرؓ نے اسیران جنگ بدر کے معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ ان سب کو قتل کر دیا جاۓ اور ہم میں سے ہر ایک اپنے رشتہ دار کو قتل کرے۔ اسی جنگ بدر میں حضرت مصعب بن عمیر کے سگے بھائی ابو عزیز بن عمیر کو ایک انصاری پکڑ کر باندھ رہا تھا۔ حضرت مصعب نے دیکھا تو پکار کر کہا ’’ ذرا مضبوط باندھنا، اس کی ماں بڑی مالدار ہے، اس کی رہائی کے لیے وہ تمہیں بہت سا فدیہ دے گی’‘۔ ابوعزیز نے کہا ’’ تم بھائی ہو کر یہ بات کہہ رہے ہو؟ ’’ حضرت مصعب نے جواب دیا ’’ اس وقت تم میرے بھائی نہیں ہو بلکہ یہ انصاری میرا بھائی ہے جو تمہیں گرفتار کر رہا ہے ‘‘۔ اسی جنگ بدر میں خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے داماد ابو العاص گرفتار ہو کر آۓ اور ان کے ساتھ رسول کی دامادی کی بنا پر قطعاً کوئی امتیازی سلوک نہ کیا گیا جو دوسرے قیدیوں سے کچھ بھی مختلف ہوتا۔ اس طرح عالم واقعہ میں دنیا کو یہ دکھا یا جا چکا تھا کہ مخلص مسلمان کیسے ہوتے ہیں اور اللہ اور اس کے دین کے ساتھ ان کا تعلق کیس ہوا کرتا ہے۔ دیلَمی نے حضرت معاذ کی روایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ دعا نقل کی ہے کہ : اللحم لا تجعل لفا جر (وفی روایۃٍ لفاسق)عَلَیَّ یداً ولا نعمۃ فیودہٗ قلبی فانی وجدت فیما اوحیت اِلیّ لا تَجِدُ قَوْماً یُّؤْ مِنُوْنَ بِاللہِ وَلْیَوْمِالْاٰخِرِ یُوَآدُّ وْ نَ مَنْ حَآ دَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۔ ’’ خدایا،کسی فاجر(اور ایک روایت میں فاسق) کا میرے اوپر کوئی احسان نہ ہونے دے کہ میرے دل میں اس کے لیے کوئی محبت پیدا ہو۔ کیونکہ تیری نازل کردہ وحی میں یہ بات بھی میں نے پائی ہے کہ اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھنے والوں کو تم اللہ اور رسول کے مخالفوں سے محبت کرتے نہ پاؤ گے |
Surah 98 : Ayat 8
جَزَآؤُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّـٰتُ عَدْنٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ خَـٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًاۖ رَّضِىَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُۚ ذَٲلِكَ لِمَنْ خَشِىَ رَبَّهُۥ
اُن کی جزا اُن کے رب کے ہاں دائمی قیام کی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے یہ کچھ ہے اُس شخص کے لیے جس نے اپنے رب کا خوف کیا ہو1
1 | بالفاظ دیگر جو شخص خدا سے بے خوف اور اس کے مقابلہ میں جری دبے باک بن کر نہیں رہا بلکہ دنیا میں قدم قدم پر اس بات سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتا رہا کہ کہیں مجھ سے ایسا کوئی کام نہ ہو جائے جوخدا کے ہاں میری پکڑ کا موجب ہو، اس کے لیے خدا کے پاس یہ جزا ہے |