Ayats Found (3)
Surah 23 : Ayat 26
قَالَ رَبِّ ٱنصُرْنِى بِمَا كَذَّبُونِ
نوحؑ نے کہا 1"پروردگار، ان لوگوں نے جو میری تکذیب کی ہے اس پر اب تو ہی میری مدد فرما"
1 | یعنی میری طرف سے اس تکذیب کا بدلہ لے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : فَدَعَارَبَّہٗ اَنِّیْ مَغْلُوْ بٌ فَانْتَصِرْ، ’’ پس نوح نے اپنے رب کو پکارا کہ میں دبا لیا گیا ہوں ، اب تو ان سے بدلہ لے ‘‘ (القمر آیت 10) اور سورہ نوح نوح میں فرمایا : قَالَ نُوْ حٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَ الْاَ رْضِ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّاراً ہ اِنَّکَ اِنْ تَزَرْ ھُمْ یُضِلُّوْ اعِبادَکَ وَلَا یَلِدُ وْ آ اِلَّا فَا جِراً کَفَّاراً۔ ’’ اور نوح نے کہا‘‘ اے میرے پرو دگار، اس زمین پر کافروں میں سے ایک بسنے والا بھی نہ چھوڑ، اگر تونے ان کو رہنے دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کر دیں گے اور ان کی نسل سے بد کار منکرین حق ہی پیدا ہوں گے ‘‘(آیت 26) |
Surah 23 : Ayat 27
فَأَوْحَيْنَآ إِلَيْهِ أَنِ ٱصْنَعِ ٱلْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا فَإِذَا جَآءَ أَمْرُنَا وَفَارَ ٱلتَّنُّورُۙ فَٱسْلُكْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ ٱثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ ٱلْقَوْلُ مِنْهُمْۖ وَلَا تُخَـٰطِبْنِى فِى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوٓاْۖ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ
ہم نے اس پر وحی کی کہ 1"ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق کشتی تیار کر پھر جب ہمارا حکم آ جائے اور تنور ابل پڑے تو ہر قسم کے جانوروں میں سے ایک ایک جوڑا لے کر اس میں سوار ہو جا، اور اپنے اہل و عیال کو بھی ساتھ لے سوائے اُن کے جن کے خلاف پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے، اور ظالموں کے معاملہ میں مجھ سے کچھ نہ کہنا، یہ اب غرق ہونے والے ہیں
1 | بعض لوگوں نے تنور سے مراد زمین لی ہے ، بعض نے زمین کا بلند ترین حصہ مراد لیا ہے ، بعض کہتے ہیں کہ فَارَ التَّنُّور کا مطلب طلوع فجر ہ ، اور بعض کی راۓ میں یہ : حمی الوطیس ، کی طرح ایک استعارہ ہے ’’ ہنگامہ گرم ہو جانے ‘‘ کے معنی میں۔ لیکن کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی کہ قرآن کے الفاظ پڑھ کر ابتداءً جو مفہوم ذہن میں آتا ہے وہ یہی ہے کہ کوئی خاص تنور پہلے سے نام زد کر دیا گیا تھا کہ طوفان کا آغاز اس کے نیچے سے پانی ابلنے پر ہو گا۔ دوسرے کوئی معنی سوچنے کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب کہ آدمی یہ ماننے کے لیے تیار نہ ہو کہ اتنا بڑا طوفان ایک تنور کے نیچے سے پانی ابل پڑنے پر شروع ہوا ہو گا۔ مگر خدا کے معاملات عجیب ہیں۔ وہ جب کسی قوم کی شامت لاتا ہے تو ایسے رخ سے لاتا ہے جدھر اس کا وہم و گمان بھی نہیں جا سکتا |
Surah 23 : Ayat 45
ثُمَّ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ وَأَخَاهُ هَـٰرُونَ بِـَٔـايَـٰتِنَا وَسُلْطَـٰنٍ مُّبِينٍ
پھر ہم نے موسیٰؑ اور اس کے بھائی ہارونؑ کو اپنی نشانیوں اور کھلی سند1 کے ساتھ فرعون اور اس کے اعیان سلطنت کی طرف بھیجا
1 | نشانیوں ‘‘ کے بعد ’’کھلی سند‘‘ سے مراد یا تو یہ ہے کہ ان نشانیوں کا ان کے ساتھ ہونا ہی اس بات کی کھلی سند تھا کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں۔ یا پھر نشانیوں سے مراد عصا کے سوا دوسرے وہ تمام معجزات ہیں جو مصر میں دکھائے گۓ تھے ، اور کھلی سند مراد عصا ہے ، کیونکہ اس کے ذریعہ سے جو معجزے رونما ہوئے ان کے بعد تو یہ بات بالکل ہی واضح ہو گئی تھی کہ یہ دونوں بھائی مامور من اللہ ہیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم، الزخرف حواشی 43۔ 44 ) |