Ayats Found (10)
Surah 8 : Ayat 4
أُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُؤْمِنُونَ حَقًّاۚ لَّهُمْ دَرَجَـٰتٌ عِندَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ
ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑے درجے ہیں قصوروں سے درگزر ہے1 اور بہترین رزق ہے
1 | تصور بڑے سےبڑے اور بہتر سے بہتر اہل ایمان سے بھی سرزد ہو سکتے ہیں اور ہوئے ہیں ، اور جب تک انسان انسان ہے یہ محال ہے کہ اس کا نامہ اعمال سراسر معیاری کارناموں ہی پر مشتمل ہواور لغزش ، کوتا ہی، خامی سے بالکل خالی رہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں میں سے یہ بھی ایک بڑی رحمت ہے کہ جب انسان بندگی کی لازمی شرائط پوری کردیتا ہے تو اللہ اس کی کوتاہییوں سے چشم پوشی فرماتا ہے اور اس کی خدمات جس صلے کی مستحق ہوتی ہیں اس سے کچھ زیادہ صلہ اپنے فضل سے عطا کرتا ہے۔ ورنہ اگر قاعدہ یہ مقرر کیا جاتا کہ ہر قصور کی سزا اور ہر خدمت کی جزا الگ الگ دی جائے تو کوئی بڑے سے بڑا صالح بھی سزا سے نہ بچ سکتا |
Surah 8 : Ayat 74
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَـٰهَدُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱلَّذِينَ ءَاوَواْ وَّنَصَرُوٓاْ أُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُؤْمِنُونَ حَقًّاۚ لَّهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ
جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جدوجہد کی اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں ان کے لیے خطاؤں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے
Surah 22 : Ayat 50
فَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ
پھر جو ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے اُن کے لیے مغفرت ہے اور عزّت کی روزی1
1 | ’’ مغفرت ‘‘ سے مراد سے خطاؤں اور کمزوریوں اور لغزشوں سے چشم پوشی و درگزر۔ اور ’’ رزق کریم‘‘ کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ عمدہ رزق دیا جائے۔ دوسرے یہ کہ عزت کے ساتھ بیٹھا کر دیا جائے |
Surah 24 : Ayat 26
ٱلْخَبِيثَـٰتُ لِلْخَبِيثِينَ وَٱلْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَـٰتِۖ وَٱلطَّيِّبَـٰتُ لِلطَّيِّبِينَ وَٱلطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَـٰتِۚ أُوْلَـٰٓئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَۖ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ
خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے ان کا دامن پاک ہے اُن باتوں سے جو بنانے والے بناتے ہیں1، ان کے لیے مغفرت ہے اور رزق کریم
1 | اس آیت میں ایک اصولی بات سمجھائی گئی ہے کہ خبیثوں کا جوڑ خبیثوں ہی سے لگتا ہے ، اور پاکیزہ لوگ پاکیزہ لوگوں ہی سے طبعی مناسبت رکھتے ہیں۔ ایک بد کار آدمی صرف ایک ہی برائی نہیں کیا کرتا ہے کہ اور تو سب حیثیتوں سے وہ بالکل ٹھیک ہو مگر بس ایک برائی میں مبتلا ہو۔ اس کے تو اطوار، عادات، خصائل ہر چیز میں بہت سی برائیاں ہوتی ہیں جو اس کی ایک بڑی برائی کو سہارا دیتی اور پرورش کرتی ہیں۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ ایک آدمی میں یکایک کوئی ایک برائی کسی ازغیبی گولے کی طرح پھٹ پڑے جس کی کوئی علامت اس کے چال چلن میں اور اس کے رنگ ڈھنگ میں نہ پائی جاتی ہو، یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے جس کا تم ہر وقت انسانی زندگیوں میں مشاہدہ کرتے رہتے ہو۔ اب کس طرح تمہاری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ ایک پاکیزہ انسان جس کی ساری زندگی سے تم واقف ہو، کسی ایسی عورت سے نباہ کر لے اور برسوں نہایت محبت کے ساتھ نباہ کیے چلا جاتا رہے جو زنا کار ہو۔ کیا تم تصور کر سکتے ہو کہ کوئی عورت ایسی بھی ہو سکتی ہے جو بد کار بھی ہو اور پھر اس کی رفتار ، گفتار، انداز، اطوار ، کسی چیز سے بھی اس کے برے لچھن ظاہر نہ ہوتے ہوں ؟ یا ایک شخص پاکیزہ نفس اور بلند اخلاق بھی ہو اور پھر ایسی عورت کے ساتھ خوش بھی رہے جس کے یہ لچھن ہوں ؟ یہ بات یہاں اس لیے سمجھائی جا رہی ہے کہ آئندہ اگر کسی پر کوئی الزام لگایا جاۓ تو لوگ اندھوں کی طرح اسے بس سنتے ہی نہ مان لیا کریں بلکہ آنکھیں کھول کر دیکھیں کہ کس پر الزام لگایا جا رہا ہے ، کیا الزام لگایا جا رہا ہے ، اور وہ کسی طرح وہاں چسپاں بھی ہو تا ہے یا نہیں ؟ بات لگتی ہوئی ہو تو آدمی ایک حد تک اسے مان سکتا ہے ، یا کم از کم ممکن اور متوقع سمجھ سکتا ہے۔ مگر ایک انوکھی بات جس کی صداقت کی تائید کرنے والے آثار کہیں نہ پاۓ جاتے ہوں صرف اس لیے کیسے مان لی جاۓ کہ کسی احمق یا خبیث نے اسے منہ سے خارج کر دیا ہے۔ بعض مفسرین نے اس آیت کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ بری باتیں برے لوگوں کے لیے ہیں (یعنی وہ ان کے مستحق ہیں ) اور بھلی باتیں بھلے لوگوں کے لیے ہیں اور بھلے لوگ اس سے پاک ہیں کہ وہ باتیں ان پر چسپاں ہوں جو بد گو اشخاص ان کے بارے میں کہتے ہیں۔ بعض دوسرے لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ برے اعمال برے ہی لوگوں کے کرنے کے ہیں اور بھلے لوگ بھلی باتیں ہی کیا کرتے ہیں۔ بھلے لوگ اس سے پاک ہیں کہ وہ اس طرح کی باتیں کریں جیسی یہ افترا پرواز لوگ کر رہے ہیں۔ آیت کے الفاظ میں ان سب تفسیروں کی گنجائش ہے۔ لیکن ان الفاظ کو پڑھ کر پہلا مفہوم جو ذہن میں آتا ہے وہ وہی ہے جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں اور موقع و محل کے لحاظ سے بھی جو معنویت اس میں ہے وہ ان دوسرے مفہومات میں نہیں ہے |
Surah 33 : Ayat 31
۞ وَمَن يَقْنُتْ مِنكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَتَعْمَلْ صَـٰلِحًا نُّؤْتِهَآ أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا
اور تم میں سے جو اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرے گی اور نیک عمل کرے گی اس کو ہم دوہرا اجر دیں گے1 اور ہم نے اس کے لیے رزق کریم مہیا کر رکھا ہے
1 | گناہ پر دوہرے عذاب اور نیکی پر دوہرے اجر کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ انسانی معاشرے میں کسی بلند مرتبے پر سرفراز فرماتا ہے وہ بالعموم لوگوں کے رہنما بن جاتے ہیں اور بندگانِ خدا کی بڑی تعداد بھلائی اور بُرائی میں انہی کی پیروی کرتی ہے۔ اُن کی بُرائی تنہا انہی کی بُرائی نہیں ہوتی بلکہ ایک قوم کے بگاڑ کی موجب بھی ہوتی ہے اور ان کی بھلائی صرف انہی کی انفرادی بھلائی نہیں ہوتی بلکہ بہت سے انسانوں کی فلاح کا سبب بھی بنتی ہے۔ اس لیے جب وہ بُرے کام کرتے ہیں تو اپنے بگاڑ کے ساتھ دوسروں کے بگاڑ کی بھی سزا پاتے ہیں۔ اور جب وہ نیک کام کرتے ہیں تو انہیں اپنی نیکی کے ساتھ اس بات کی جزا بھی ملتی ہے کہ انہوں نے دوسروں کو بھلائی کی راہ دکھائی۔ اس آیت سے یہ اصول بھی نکلتا ہے کہ جہاں جتنی زیادہ حرمت ہو گی اور جس قدر زیادہ امانت کی توقع ہو گی، وہاں اسی قدر زیادہ ہتک حرمت اور ارتکابِ خیانت کا جرم شدید ہو گا اور اسی قدر زیادہ اس کا عذاب ہو گا۔ مثلاًمسجد میں شراب پینا اپنے گھر میں شراب پینے سے شدید تر جرم ہے اور اس کی سزا زیادہ سخت ہے۔ محرّمات سے زنا کرنا غیر عورت سے زنا کی بہ نسبت اشدّ ہے اور اس پر زیادہ سخت عذاب ہو گا۔ |
Surah 33 : Ayat 44
تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُۥ سَلَـٰمٌۚ وَأَعَدَّ لَهُمْ أَجْرًا كَرِيمًا
جس روز وہ اس سے ملیں گے اُن کا استقبال سلام سے ہو گا اور اُن کے لیے اللہ نے بڑا با عزت اجر فراہم کر رکھا ہے
Surah 34 : Ayat 4
لِّيَجْزِىَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِۚ أُوْلَـٰٓئِكَ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ
اور یہ قیامت اس لئے آئے گی کہ جزا دے اللہ اُن لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں اور نیک عمل کرتے رہے ہیں اُن کے لیے مغفرت ہے اور رزق کریم
Surah 36 : Ayat 11
إِنَّمَا تُنذِرُ مَنِ ٱتَّبَعَ ٱلذِّكْرَ وَخَشِىَ ٱلرَّحْمَـٰنَ بِٱلْغَيْبِۖ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ
تم تو اُسی شخص کو خبردار کر سکتے ہی جو نصیحت کی پیروی کرے اور بے دیکھے خدائے رحمان سے ڈرے اُسے مغفرت اور اجر کریم کی بشارت دے دو
Surah 57 : Ayat 11
مَّن ذَا ٱلَّذِى يُقْرِضُ ٱللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَـٰعِفَهُۥ لَهُۥ وَلَهُۥٓ أَجْرٌ كَرِيمٌ
کون ہے جو اللہ کو قرض دے؟ اچھا قرض، تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا کر واپس دے، اور اُس کے لیے بہترین اجر1 ہے
1 | یہ اللہ تعالیٰ کی شان کریمی ہے کہ آدمی اگر اس کے بخشے ہوۓ مال کو اسی کی راہ میں صرف کرے تو اسے وہ اپنے ذمہ قرض قرار دیتا ہے ، بشرطیکہ وہ قرض حسن(اچھا قرض)ہو، یعنی خالص نیت کے ساتھ کسی ذاتی غرض کے بغیر دیا جاۓ، کسی قسم کی ریا کاری اور شہرت و ناموری کی طلب اس میں شامل نہ ہو، اسے دے کر کسی پر احسان نہ جتا یا جاۓ، اس کا دینے والا صرف اللہ کی رضا کے لیے دے اور اس کے سوا کسی کے اجر اور کسی کی خوشنودی پر نگاہ نہ رکھے ۔ اس قرض کے متعلق اللہ کے دو وعدے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ اس کو کئی بڑھا چڑھا کر واپس دے گا، دوسرے یہ کہ وہ اس پر اپنی طرف سے بہترین اجر بھی عطا فرماۓ گا۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اور حضورؐ کی زبان مبارک سے لگوں نے اس کو سنا تو حضرت ابو الد حداح انصاری نے عرض کیا یا رسول اللہ، کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض چاہتا ہے ؟ حضورؐ نے جواب دیا، ہاں ، اے ابو الدحداح۔ انہوں نے کہا، ذرا اپنا ہاتھ مجھے دکھایۓ۔ اپ نے اپنا ہاتھ ان کی طرف بڑھا دیا۔ انہوں نے آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا ’’ میں نے اپنے رب کو اپنا باغ قرض میں دے دیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ اس باغ میں کھجور کے 600 درخت تھے ، اسی میں ان کا کھر تھا، وہیں ان کے بال بچے رہتے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ بات کر رکے وہ سیدھے گھر پہنچے اور بیوی کو پکارا کر کہا ‘’دحداح کی ماں ، نکل آؤ، میں نے یہ باغ اپنے رب کو قرض دے دیا ہے ‘‘ وہ بولیں ’’ تم نے نفع کا سودا کیا دحداح کے باپ’’، اور اسی وقت اپنا سامان اور اپنے بچے لے کر باغ سے نکل گئیں (اب ابی حاتم)۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مخلص اہل ایمان کا طرز عمل اس وقت کیا تھا، اور اسی سے یہ بات بھی سمجھ میں آسکتی ہے کہ وہ کیسا قرض حسن ہے جسے کئی گنا بڑھا کر واپس دینے اور پھر اوپر سے اجر کریم عطا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے |
Surah 57 : Ayat 18
إِنَّ ٱلْمُصَّدِّقِينَ وَٱلْمُصَّدِّقَـٰتِ وَأَقْرَضُواْ ٱللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَـٰعَفُ لَهُمْ وَلَهُمْ أَجْرٌ كَرِيمٌ
مردوں اور عورتوں میں سے جو لوگ صدقات1 دینے والے ہیں اور جنہوں نے اللہ کو قرض حسن دیا ہے، اُن کو یقیناً کئی گنا بڑھا کر دیا جائے گا اور ان کے لیے بہترین اجر ہے
1 | صَدَقَہ اردو زبان میں تو بہت ہی بڑے معنوں میں بولا جاتا ہے ، مگر اسلام کی اصطلاح میں یہ اس عطۓ کو کہتے ہیں جو سچے دل اور خالص نیت کے ساتھ محض اللہ کی خوشنودی کے لیے دیا جاۓ، جس میں کوئی ریا کاری نہ ہو، کسی پر احسان نہ جتایا جاۓ، دینے والا صرف اس لیے دے کہ وہ اپنے رب کے لیے عبودیت کا سچا جذبہ رکھتا ہے ۔ یہ لفظ صِدق سے ماخوذ ہے اس لیے صداقت عین اس کی حقیقت میں شامل ہے ۔ کوئی عطیہ اور کوئی طرف مال اس وقت تک صدقہ نہیں ہو سکتا جب تک اس کی تہہ میں انفاق فی سبیل اللہ کا خالص اور بے کھوٹ جذبہ موجود نہ ہو |