Ayats Found (13)
Surah 7 : Ayat 107
فَأَلْقَىٰ عَصَاهُ فَإِذَا هِىَ ثُعْبَانٌ مُّبِينٌ
موسیٰؑ نے اپنا عصا پھینکا اور یکا یک وہ ایک جیتا جاگتا اژدہا تھا
Surah 7 : Ayat 108
وَنَزَعَ يَدَهُۥ فَإِذَا هِىَ بَيْضَآءُ لِلنَّـٰظِرِينَ
اس نے اپنی جیب سے ہاتھ نکالا اور سب دیکھنے والوں کے سامنے وہ چمک رہا تھا1
1 | یہ دو نشانیاں حضرت موسیٰ ؑ کو اس امر کے ثبوت میں دی گئی تھیں کہ وہ اُس خدا کے نمائندے ہیں جو کائنات کاخالق اور فرماں روا ہے ۔ جیسا کہ اس سے پہلے بھی ہم اشارہ کر چکے ہیں، پیغمبروں نے جب کبھی اپنے آپ کو فرستادہ رب العالمٰین کی حیثیت سے پیش کیا تو لوگوں نے ان سے یہی مطالبہ کیا کہ اگر تم واقعی رب العالمٰین کے نمائندے ہو تو تمہارے ہاتھوں سے کوئی ایسا واقعہ ظہور میں آنا چاہیے جو قوانین فطرت کی عام روش سے ہٹا ہوا ہو اور جس سےصاف ظاہر ہو رہا ہو کہ رب العالمٰین نے تمہاری صداقت ثابت کرنے کے لیے اپنی براہ راست مداخلت سے یہ واقعہ نشانی کے طور پر صادر کیاہے۔ اسی مطالبہ کے جواب میں انبیاء نے وہ نشانیاں دکھائی ہیں جس کو قرآن کی اصطلاح میں ”آیات “اور متکلمین کی اصطلاح میں”معجزات“کہا جاتا ہے۔ ایسے نشانات یا معجزات کو جو لوگ قوانین فطرت کے تحت صادر ہونے والے عام واققعات قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ درحقیقت کتاب اللہ کو ماننے اور نہ ماننے کے درمیان ایک ایسا موقف اختیار کرتے ہیں جو کسی طرح معقول نہیں سمجھا جا سکتا ۔ اس لیے کہ قرآن جس جگہ صریح طور پر خارق ِ عادت و اقعہ کا ذکر کر رہا ہو وہاں سیاق و سباق کے بالکل خلاف ایک عادی واقع بنانے کی جدو جہد محض ایک بھونڈی سخن سازی ہے جس کی ضرورت صرف اُن لوگوں کو پیش آتی ہے جو ایک طرف تو کسی ایسی کتاب پر ایمان نہیں لانا چاہتے جو خارقِ عادت واقعات کا ذکر کرتی ہو اور دوسری طرف آبائی مذہب کے پیدائشی معتقد ہونے کی وجہ سے اُس کتاب کا انکار بھی نہیں کرنا چاہتے جو فی الواقع خارقِ عادت واقعات کا ذکر کرتی ہے۔ معجزات کے باب میں اصل فیصلہ کن سوال صرف یہ ہے کہ آیا اللہ تعالیٰ نظام ِ کائنات کو ایک قانون پر چلا دینے کے عد معطل ہو چکا ہے اور اب اس چلتے ہوئے نظام میں کبھی کسی موقع پر مداخلت نہیں کر سکتا ؟ یا وہ بالفعل اپنی سلطنت کو زمام تدبیر و انتظام اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے اور ہر آن اس کے احکام اس سلطنت میں نافذ ہوتے ہیں اور اُس کو ہر وقت اختیار حاصل ہے کہ اشیا کی شکلوں اور واقعات کی عادی رفتار میں جزئی طور پر یا کلّی طور پر جیسا چاہے اور جب چاہے تغیر کر دے؟ جو لوگ اس سوال کے جواب میں پہلی بات کے قائل ہیں ان کے لیےمعجزات کو تسلیم کرنا غیر ممکن ہے، کیونکہ معجزہ نہ ان کے تصّور خدا سے میل کھاتا ہے اور نہ تصورِ کائنات سے۔ لیکن ایسے لوگوں کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ قرآن کی تفسیر و تشریح کرنے کی بجائے اس کا صاف صاف انکار کر دیں کیونکہ قرآن نے تو اپنا زورِ بیان ہی خدا کے مقدم الذکر تصور کا ابطال اور موخر الذکر تصور کا اثبات کرنے پر صرف کیا ہے ۔ بخلاف اس کے جو شخص قرآن کے دلائل سے مطمئن ہو کر دوسرے تصور کو قبول کر لے اُس کے لیے معجزے کو سمجھنا اور تسلیم کرنا کچھ مشکل نہیں رہتا۔ ظاہر ہے کہ جب آپ کا عقیدہ ہی یہ ہو گا کہ اژدھے جس طرح پیدا ہوا کرتے ہیں اسی طرح وہ پیدا ہو سکتے ہیں، اُس کے سوا کسی دوسرے ڈھنگ پر کوئی اژدھا پیدا کر دینا خدا کی قدرت سے باہر ہےتو آپ مجبور ہیں ایسے بیان کو قطعی طور پر جھٹلا دیں جو آپ کو خبر دے رہا ہو کہ ایک لاٹھی اژدھے میں تبدیل ہوئی اور پھر اژدھے سے لاٹھی بن گئی۔ لیکن اس کے بر عکس اگر آپ کا عقیدہ یہ ہو کہ بے جان مادے میں خدا کے حکم سے زندگی پیدا ہو تی ہے اور خدا جس مادے کو جیسی چاہے زندگی عطا کر سکتا ہے، اس کے لیے خدا کے حکم سے لاٹھی کا اژدھا بننا اتنا ہی غیر عجیب واقعہ ہے جتنا اسی خدا کے حکم سے انڈے کے اندر بھرے ہوئے چند بے جان مادوں کا اژدھا بن جانا غیر عجیب ہے۔ موجودہ فرق کہ ایک واقعہ ہمیشہ پیش آتا رہتا ہے اور دوسرا واقعہ صرف تین مرتبہ پیش آیا ، ایک کو غیر عجیب اور دوسرے کو عجیب بنا دینے کے لیے کافی نہیں ہے |
Surah 26 : Ayat 32
فَأَلْقَىٰ عَصَاهُ فَإِذَا هِىَ ثُعْبَانٌ مُّبِينٌ
(اس کی زبان سے یہ بات نکلتے ہی) موسیٰؑ نے اپنا عصا پھینکا اور یکایک وہ ایک صریح اژدھا تھا1
1 | قرآن مجید میں کسی جگہ اس کے لیے حَیَّۃٌ (سانپ) اور کسی جگہ جَآن (جو بالعموم چھوٹے سانپ کے لیے بولا جاتا ہے ) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، اور یہاں اسے ثُعْبَانٌ (اژدہا) کہا جا رہا ہے۔ اس کی توجیہ امام رازی اس طرح کرتے ہیں کہ : حَیَّۃٌ عربی زان میں سانپ کی جنس کے لیے مشترک نام ہے ، خواہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ اور ثُعْبَانٌ کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا کہ جسامت کے اعتبار سے وہ اژدھے کی طرح تھا۔ اور جَانّ کا لفظ اس بنا پر استعمال کیا گیا کہ اس کی پھرتی اور تیزی چھوٹے سانپ جیسی تھی |
Surah 26 : Ayat 33
وَنَزَعَ يَدَهُۥ فَإِذَا هِىَ بَيْضَآءُ لِلنَّـٰظِرِينَ
پھر اُس نے اپنا ہاتھ (بغل سے) کھینچا اور وہ سب دیکھنے والوں کے سامنے چمک رہا تھا1
1 | بعض مفسرین نے یہودی روایات سے متاثر ہو کر بَیْضَاء کے معنی ’’سفید‘‘ کیے ہیں اور اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ بغل سے نکالتے ہی بھلا چنگا ہاتھ برص کے مریض کی طرح سفید ہو گیا۔ لیکن ابن جریر، ابن کثیر، زَمَخْشَری، رازی، ابو السعود عمادی، آلوسی اور دوسرے بڑے بڑے مفسرین اس پر متفق ہیں کہ یہاں بَیْضَآءُ بمعنی روشن اور چمکدار ہے۔ جونہی کہ حضرت موسٰیؑ نے بغل سے ہاتھ نکالا یکایک سارا ماحول جگمگا اٹھا اور یوں محسوس ہو اجیسے سورج نکل آیا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، طٰہٰ حاشیہ 13 ) |
Surah 7 : Ayat 109
قَالَ ٱلْمَلَأُ مِن قَوْمِ فِرْعَوْنَ إِنَّ هَـٰذَا لَسَـٰحِرٌ عَلِيمٌ
ا س پر فرعون کی قوم کے سرداروں نے آپس میں کہا کہ "یقیناً یہ شخص بڑا ماہر جادو گر ہے
Surah 7 : Ayat 126
وَمَا تَنقِمُ مِنَّآ إِلَّآ أَنْ ءَامَنَّا بِـَٔـايَـٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَآءَتْنَاۚ رَبَّنَآ أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ
تو جس بات پر ہم سے انتقام لینا چاہتا ہے وہ اِس کے سوا کچھ نہیں کہ ہمارے رب کی نشانیاں جب ہمارے سامنے آ گئیں تو ہم نے انہیں مان لیا اے رب، ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اٹھا تو اِس حال میں کہ ہم تیرے فرماں بردار ہوں1"
1 | فرعون نے پانسہ پلٹتے دیکھ کر آخری چال یہ چلی تھی کہ اس سارے معاملہ کو موسیٰ اور جادوگروں کی سازش قراردیدے اور پھر جادوگروں کو جسمانی عذاب اور قتل کی دھمکی دے کر ان سے اپنے اِس الزاقم کا اقبال کرالے۔ لیکن یہ چال بھی اُلٹی پڑی ۔ جادوگروں نے اپنے آپ کو ہر سزا کے لیے پیش کر کے ثابت کر دیا کہ اُن کا موسیٰ علیہ السلام کی صداقت پر ایمان لانا کسی سازش کا نہیں بلکہ سچے اعتراف حق کا نتیجہ تھا۔ اب اُس کے لیے کوئی چارہ کار اس کے سوا باقی نہ رہا کہ حق اور انصاف کا ڈھونگ جو وہ رچانا چاہتا تھا اسے چھوڑ کر صاف صاف ظلم و ستم شروع کردے۔ اس مقام پر یہ بات بھی دیکھنے کے قابل ہے کہ چند لمحو ں کے اندر ایمان نے ان جادوگروں کی سیرت میں کتنا بڑا انقلاب پیدا کر دیا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے انہی جادوگروں کی ونائت کا یہ حال تھا کہ اپنے دین آبائی کی نصرت و حمایت کے لیے گھروں سے چل کر آئے تھے اور فرعون سے پوچھ رہے تھے کہ اگر ہم نے اپنے مذہب کو موسیٰ کے حملہ سے بچالیا تو سرکار سے ہمیں انعام تو ملے گا نا؟ یا اب جو نعمت ِ ایمان نصیب ہوئی تو انہی کی حق پرستی اور اولواالعزمی اس حد کو پہنچ گئی کہ تھوڑی دیر پہلے جس بادشاہ کے آگے لالچ کے مارے بچھے جارہے تھے اب اس کی کبریائی اور اس کے جبروت کو ٹھوکر مار رہے ہیں اور اُن بد ترین سزاؤں کو بھگتنے کے لیے تیار ہیں جن کی دھمکی وہ دے رہا ہے مگر اس حق کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں جس کی صداقت ان پر کھل چکی ہے |
Surah 10 : Ayat 79
وَقَالَ فِرْعَوْنُ ٱئْتُونِى بِكُلِّ سَـٰحِرٍ عَلِيمٍ
اور فرعون نے (اپنے آدمیوں سے) کہا کہ “ہر ماہر فن جادوگر کو میرے پاس حاضر کرو "
Surah 10 : Ayat 82
وَيُحِقُّ ٱللَّهُ ٱلْحَقَّ بِكَلِمَـٰتِهِۦ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْمُجْرِمُونَ
اور اللہ اپنے فرمانوں سے حق کو حق کر دکھاتا ہے، خواہ مجرموں کو وہ کتنا ہی ناگوار ہو"
Surah 20 : Ayat 56
وَلَقَدْ أَرَيْنَـٰهُ ءَايَـٰتِنَا كُلَّهَا فَكَذَّبَ وَأَبَىٰ
ہم نے فرعون کو اپنی سب ہی نشانیاں1 دکھائیں مگر وہ جھٹلائے چلا گیا اور نہ مانا
1 | یعنی آفاق و اَنفُس کے دلائل کی نشانیاں بھی، اور وہ معجزات بھی جو حضرت موسیٰ کو دیے گۓ تھے۔ قرآن میں متعدد مقامات پر حضرت موسیٰ کی وہ تقریریں بھی موجود ہیں جو انہوں نے فرعون کو سمجھانے کے لیے کیں۔اور وہ معجزات بھی مذکور ہیں جو اس کے پے در پے دکھاۓ گۓ۔ |
Surah 20 : Ayat 73
إِنَّآ ءَامَنَّا بِرَبِّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطَـٰيَـٰنَا وَمَآ أَكْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ ٱلسِّحْرِۗ وَٱللَّهُ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰٓ
ہم تو اپنے رب پر ایمان لے آئے تاکہ وہ ہماری خطائیں معاف کر دے اور اس جادوگری سے، جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا تھا، درگزر فرمائے اللہ ہی اچھا ہے اور وہی باقی رہنے والا ہے"