Ayats Found (6)
Surah 90 : Ayat 16
أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ
یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا1
1 | اوپر چونکہ اس کی فضول خرچیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو وہ اپنی بڑائی کی نمائش اور لوگوں پر اپنا فخر جتانے کے لیے کرتا ہے، اس لیے اب اس کے مقابلے میں بتایا گیا ہے کہ وہ کونسا خرچ اور مال کا کونسا مصرف ہے جو اخلاق کی پستیوں میں گرانے کے بجائے آدمی کو بلندیوں کی طرف لے جاتا ہے، مگر اس میں نفس کی کوئی لذت نہیں ہے بلکہ آدمی کو اس کے لیے اپنے نفس پر جبر کر کے ایثار اور قربانی سے کام لینا پڑتا ہے۔ وہ خرچ یہ ہے کہ آدمی کسی غلام کو خود آزاد کرے، یا اس کی مالی مدد کرے تاکہ وہ اپنا فدیہ ادا کر کے رہائی حاصل کر لے، یا کسی غریب کی گردن قرض کے جال سے نکالے، یا کوئی بے وسیلہ آدمی اگر کسی تاوان کے بوجھ سے لد گیا ہو تو اس کی جان اس سے چھڑائے۔ اسی طرح وہ خرچ یہ ہے کہ آدمی بھوک کی حالت میں کسی قریبی یتیم (یعنی رشتہ دار یا پڑوسی یتیم) اور کسی ایسے بے کس محتاج کو کھانا کھلائے جسے غربت و افلاس کی شدت نے خاک میں ملا دیا ہو اور جس کس کی دستگیری کرنے والا کوئی نہ ہو۔ ایسے لوگوں کی مدد سے آدمی کی شہرت کے ڈنکے تو نہیں بجتے اور نہ ان کو کھلا کر آدمی دولت مندی اور دریا دلی کے وہ چرچے ہوتے ہیں جو ہزاروں کھاتے پیتے لوگوں کی شاندار دعوتیں کرنے سے ہوا کرتے ہیں، مگر اخلاق کی بلندیوں کی طرف جانے کا راستہ اسی دشوار گزار گھاٹی سے ہو کر گزرتا ہے۔ ان آیات میں نیکی کے جن کاموں کا ذکر کیا گیا ہے، ان کے بڑے فضائل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں بیان فرمائے ہیں۔ مثلاً ’’ فَكُّ رَقَبَةٍ ‘‘ (گردن چھڑانے) کے بارے میں حضورؐ کی بکثرت احادیث روایات میں نقل ہوئی ہیں جن میں سے ایک حضرت ابو ہریرہؓ کی یہ روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا جس شخص نے ایک مومن غلام کو آزاد کیا اللہ تعالی اس غلام کے ہر عضو کے بدلے میں آزاد کرنے والے شخص کے ہر عضو کو دوزخ کی آگ سے بچا لے گا، ہاتھ کے بدلے میں ہاتھ، پاؤں کے بدلے میں پاؤں، شرمگاہ کے بدلے میں شرمگاہ (مسند احمد ، بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی)۔ حضرت علی بن حسینؓ (امام زین العابدین) نے اس حدیث کے راوی سعد بن مرجانہ سے پوچھا کیا تم نے ابوہریرہؓ سے یہ حدیث خود سنی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ اس پر امام زین العابدین نے اپنے سب سے زیادہ قیمتی غلام کو بلایا اور اسی وقت اسے آزاد کر دیا۔ مسلم میں بیان کیا گیا ہے کہ اس غلام کے لیے ان کو دس ہزار درہم قیمت مل رہی تھی ۔ امام ابو حنیفہ اور امام شعبی نے اسی آیت کی بنا پر کہا ہے کہ غلام آزاد کرنا صدقے سے افضل ہے کیونکہ اللہ تعالی نے اس کا ذکر صدقے پر مقدم رکھا ہے۔ مساکین کی مدد کے فضائل بھی حضورؐ نے بکثرت احادیث میں ارشاد فرمائے ہیں۔ ان میں سے ایک حضرت ابوہریرہؓ کی یہ حدیث ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’الساعی علی الارملۃ و المسکین کا لساعی فی سبیل اللہ و احسبہ قال کالقائم لا یفترو کالصائم لا یفطر‘‘ ’’بیوہ اور مسکین کی مدد کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا ایسا ہے جیسے جہاد فی سبیل اللہ میں دوڑ دھوپ کرنے والا۔ (اور حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ) مجھے یہ خیال ہوتا ہے کہ حضورؐ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ وہ ایسا ہے جیسے وہ شخص جو نماز میں کھڑا رہے اور آرام نہ لے اور وہ جو پے درپے روزے رکھے اور کبھی روزہ نہ چھوٹے‘‘ (بخاری و مسلم) یتیم کے بارے میں حضورؐ کے بے شمار ارشادات ہیں۔ حضرت سہلؓ بن سعد کی روایت ہے کہ ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں اور وہ شخص جو کسی رشتہ دار یا غیر رشتہ دار یتیم کی کفالت کرے، جنت میں اس طرح ہوں گے یہ فرما کر آپ نے شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی کو اٹھا کر دکھایا اور دونوں انگلیوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا‘‘ (بخاری)۔ حضرت ابو ہریرہؓ حضورؐ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ ’’مسلمانوں کے گھروں میں بہترین گھر وہ ہے جس میں کسی یتیم سے نیک سلوک ہو رہا ہو اور بد ترین گھر وہ ہے جس میں کسی یتیم سے برا سلوک ہو رہا ہو‘‘ (ابن ماجہ ۔ بخاری فی الادب المفرد)۔ حضرت ابو امامہ کہتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا ’’جس نے کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا اور محض اللہ کی خاطر پھیرا اس بچے کے ہر بال کے بدلے جس پر اس شخص کا ہاتھ گزرا اس کے لیے نیکیاں لکھی جائیں گی، اور جس نے کسی یتیم لڑکے یا لڑکی کے ساتھ نیک برتاؤ کیا وہ اور میں جنت میں اس طرح ہوں گے‘‘۔ اور یہ فرما کر حضورؐ نے اپنی دو انگلیاں ملا کر بتائیں (مسند احمد، ترمذی)۔ ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ سرکارؐ رسالتماب نے ارشاد فرمایا ’’جس نے کسی یتیم کو اپنے کھانے اور پینے میں شامل کیا اللہ نے اس کے لیے جنت واجب کر دی الا یہ کہ وہ کوئی ایسا گناہ کر بیٹھا ہو جو معاف نہیں کیا جا سکتا‘‘(شرح السنہ)۔ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی کہ میرا دل سخت ہے ۔ حضورؐ نے فرمایا ’’یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر اور مسکین کو کھانا کھلا‘‘ (مسند احمد) |
Surah 90 : Ayat 18
أُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلْمَيْمَنَةِ
یہ لوگ ہیں دائیں بازو والے
Surah 92 : Ayat 5
فَأَمَّا مَنْ أَعْطَىٰ وَٱتَّقَىٰ
تو جس نے (راہ خدا میں) مال دیا اور (خدا کی نافرمانی سے) پرہیز کیا
Surah 92 : Ayat 7
فَسَنُيَسِّرُهُۥ لِلْيُسْرَىٰ
اس کو ہم آسان راستے کے لیے سہولت1 دیں گے
1 | یہ ہے مساعی کی اس قسم کا نتیجہ۔ آسان راستہ سے مراد وہ راستہ ہے جو انسان کی فطرت کے مطابق ہے، جو اس خالق کی مرضی کے مطابق ہے جس نے انسان کو اور ساری کائنات کو بنایا ہے، جس میں ا نسان کو اپنے ضمیر سے لڑ کر نہیں چلنا پڑتا، جس میں انسان اپنے جسم و جان اور عقل و ذہن کی قوتوں پر زبردستی کر کے ان سے وہ کام نہیں لیتا جس کو ہر طرف اس جنگ ، مزاحمت اور کشمکش سے سابقہ پیش نہیں آتا جو گناہوں سے بھری ہوئی زندگی میں پیش آتا ہے،بلکہ انسانی معاشرے میں ہر قدم پر اس کو صلح و آتشی اور قدر و منزلت میسر آتی چلی جاتی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جو آدمی اپنا مال خلق خدا کی بھلائی کے لیے استعمال کر ہو، جو ہر ایک سے نیک سلوک کر رہا ہو، جس کی زندگی جرائم ، فسق و فجور اور بد کرداری سے پاک ہو، جو اپنے معاملات میں کھرا اور راستباز ہو، جو ہر شخص کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئے اور کسی کو اس کی سیرت و کردار پر انگلی رکھنے کا موقع نہ ملے، وہ خواہ کیسے ہی بگڑے ہوئے معاشرے میں رہتا ہو، بہرحال اس کی قدر ہو کر رہتی ہے، اس کی طرف دل کھنچتے ہیں، نگاہوں میں اس کی عزت قائم ہو جاتی ہے، اس کا اپنا قلب و ضمیر بھی مطمئن ہو تا ہے ا ور معاشرے میں بھی اس کو وہ وقار حاصل ہوتا ہے جو کبھی کسی بد کردار آدمی کو حاصل نہیں ہوتا۔ یہی بات ہے جو سورہ نحل میں فرمائی گئی ہے کہ ’’مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً‘‘ ’’جو شخص نیک عمل کرے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اور ہو وہ مومن ، اسے ہم اچھی زندگی بسر کرائیں گے‘‘۔ (آیت 97) اور اسی بات کو سورہ مریم میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ’’ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَـٰنُ وُدًّا‘‘’’یقیناً جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے رحمان ان کے لیے دلوں میں محبت پیدا کر دے گا‘‘ (آیت 96)۔ پھر یہی وہ راستہ ہے جس میں دنیا سے لے کر آخرت تک انسان کے لیے سرور ہی سرور اور راحت ہی ر احت ہے۔ اس کے نتائج عارضی اور وقتی نہیں بلکہ ابدی اور لازوال ہیں۔ اس کے متعلق اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ہم اسے اس راستے پر چلنے کے لیے سہولت دیں گے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب وہ بھلائی کی تصدیق کر کے یہ فیصلہ کر لے گا کہ یہی راستہ میرے لائق ہے ا ور برائی کا راستہ میرے لائق نہیں ہے، اور جب وہ عملاً مالی ایثار اور تقویٰ کی زندگی اختیار کر کے یہ ثابت کر دے گا کہ اس کی یہ تصدیق سچی ہے ، تو اللہ تعالی اس راستے پر چلنا اس کے لیے سہل کر دے گا۔ اس کے لیے پھر گناہ کرنا مشکل اور نیکی کرنا آسان ہو جائے گا۔ مالِ حرام اس کے سامنے آئے گا تو وہ یہ نہیں سمجھے گا کہ یہ نفع کا سودا ہے بلکہ ا سے یوں محسوس ہو گا کہ یہ آگ کا انگارہ ہے جسے وہ ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔ بد کاری کے مواقع اس کے سامنے آئٍیں گے تو وہ انہیں لطف اور لذت حاصل کرنے کے مواقع سمجھ کر ان کی طرف نہیں لپکے گا بلکہ جہنم کے دروازے سمجھ کر ان سے دور بھاگے گا۔ نماز اس پر گراں نہ ہو گی بلکہ اسے چین نہیں پڑے گا جب تک وہ وقت آنے پر وہ اس کو ادا نہ کر لے۔ زکوۃ دیتے ہوئے اس کادل نہیں دکھے گا بلکہ اپنا مال اسے ناپاک محسوس ہو گا جب تک وہ اس میں سے زکوۃ نکال نہ دے ۔ غرض ہر قدم پر اللہ تعالی کی طرف سے اس کو اس راستے پر چلنے کی توفیق و تائید ملے گی، حالات کو اس کے لیے ساز گار بنایا جائے گا، اور اس کی مدد کی جائے گی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سے پہلے سورہ بلد میں اسی راستے کو دشوار گزار گھاٹی کہا گیا ہے اور یہاں اس کو آسان راستہ قرار دیا گیا ہے۔ ان دونوں باتوں میں تطبیق کیسے ہوگی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس راہ کو اختیار کرنے سے پہلے یہ آدمی کو دشوار گزار گھاٹی ہی محسوس ہوتی ہے جس پر چڑھنے کے لیے اسے اپنے نفس کی خواہشوں سے، اپنے دنیا پرست اہل و عیال سے، اپنے رشتہ داروں سے اپنے دوستوں اور معاملہ داروں سے اور سب سے بڑھ کر شیطان سے لڑنا پڑتا ہے، کیونکہ ہر ایک اس میں رکاوٹیں ڈالتا ہے اور اس کو خوفناک بنا کر دکھاتا ہے، لیکن جب انسان بھلائی کی تصدیق کر کے اس پر چلنے کا عزم کر لیتا ہے اور اپنا مال راہ خدا میں دے کر اور تقوی کا طریقہ اختیار کر کے عملاً اس عزم کو پختہ کر لیتا ہے تو اس گھاٹی پر چڑھنا اس کے لیے آسان اور اخلاقی پستیوں کے کھڈ میں لڑھکنا اس کے لیے مشکل ہو جاتا ہے |
Surah 92 : Ayat 17
وَسَيُجَنَّبُهَا ٱلْأَتْقَى
اور اُس سے دور رکھا جائیگا وہ نہایت پرہیزگار
Surah 92 : Ayat 21
وَلَسَوْفَ يَرْضَىٰ
اور ضرور وہ (اُس سے) خوش ہوگا1
1 | اس آیت کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ اور دونوں صحیح ہیں۔ ایک یہ کہ ضرور اللہ اس سے راضی ہو جائے گا۔ دوسرے یہ کہ عنقریب اللہ اس شخص کو اتنا کچھ دے گا کہ وہ خوش ہو جائے گا |