Ayats Found (3)
Surah 7 : Ayat 106
قَالَ إِن كُنتَ جِئْتَ بِـَٔـايَةٍ فَأْتِ بِهَآ إِن كُنتَ مِنَ ٱلصَّـٰدِقِينَ
فرعون نے کہا "اگر تو کوئی نشانی لایا ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے تو اسے پیش کر"
Surah 26 : Ayat 29
قَالَ لَئِنِ ٱتَّخَذْتَ إِلَـٰهًا غَيْرِى لَأَجْعَلَنَّكَ مِنَ ٱلْمَسْجُونِينَ
فرعون نے کہا 1"اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو تجھے میں اُن لوگوں میں شامل کر دوں گا جو قید خانوں میں پڑے سڑ رہے ہیں"
1 | اس گفتگو کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ آج کی طرح قدیم زمانے میں بھی ’’ معبود‘‘ کا تصور صرف مذہبی معنوں تک محدود تھا۔ یعنی یہ کہ اسے بس پوجا پاٹ اور نذر و نیاز کا استحقاق پہنچتا ہے ، اور اپنے فوق الفطری غلبہ و اقتدار کی وجہ سے اس کا یہ منصب بھی ہے کہ انسان اپنے معاملات میں اس سے استمداد و استعانت کے لیے دعائیں مانگیں۔ لیکن کسی معبود کی یہ حیثیت کہ وہ قانونی اورسیاسی معنوں میں بھی بالا دست ہے ، اور اسے یہ حق بھی پہنچتا ہے کہ معاملات دنیا میں وہ جو حکم چاہے دے ، اور انسانوں کا یہ فرض ہے کہ اس کے امر و نہی کو قانون بر تر مان کر اس کے آگے جھک جائیں ، یہ چیز زمین کے مجازی فرمانرواؤں نے نہ پہلے کبھی مان کر دی تھی، نہ آج وہ اسے ماننے کے لیے تیار ہیں۔ وہ ہمیشہ سے یہی کہتے چلے آئے ہیں کہ دنیا کے معاملات میں ہم مختار مطلق ہیں ، کسی معبود کو ہماری سیاست اور ہمارے قانون میں دخل دینے کا حق نہیں ہے۔ دنیوی حکومتوں اور بادشاہوں سے انبیا علیہم السلام اور ان کی پیروی کرنے والے مصلحین کے تصادم کی اصل وجہ یہی رہی ہے۔ انہوں نے ان سے خداوند عالم کی حاکمیت و بالا دستی تسلیم کرانے کی کوشش کی ہے ، اور یہ اس کے جواب میں نہ صرف یہ کہ اپنی حاکمیت مطلقہ کا دعویٰ پیش کرتی رہی ہیں بلکہ انہوں نے ہر اس شخص کو مجرم اور باغی ٹھیرایا ہے جو ان کے سوا کسی اور کو قانون و سیاست کے میدان میں معبود مانے۔ اس تشریح سے فرعون کی اس گفتگو کا صحیح مفہوم اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ اگر معاملہ پوجا پاٹ اور نذر و نیاز کا ہوتا تو اس کو اس سے کوئی بحث نہ تھی کہ حضرت موسیٰیؑ دوسرے دیوتاؤں کو چھوڑ کر صرف ایک اللہ رب العالمین کو اس کا مستحق سمجھتے ہیں۔ اگر صرف اسی معنی میں توحید فی العبادت کی دعوت موسٰیؑ علیہ السلام نے اس کو دی ہوتی تو اسے غضب ناک ہونے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ زیادہ سے زیادہ اگر وہ کچھ کرتا تو بس یہ کہ اپنا دین آبائی چھوڑنے سے انکار کر دیتا، یا حضرت موسٰیؑ سے کہتا کہ میرے مذہب کے پنڈتوں سے مناظرہ کر لو۔ لیکن جس چیز نے اس غضبناک کر دیا وہ یہ تھی کہ حضرت موسٰیؑ علیہ السلام نے رب العالمین کے نمائندے کی حیثیت سے اپنے آپ کو پیش کر کے اسے اس طرح ایک سیاسی حکم پہنچایا کہ گویا وہ ایک ماتحت حاکم ہے اور ایک حاکم بر تر کا پیغامبر آ کر اس سے اطاعت امر کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اس معنی میں ہو اپنے اوپر کسی کی سیاسی و قانونی برتری ماننے کے لیے تیار نہ تھا، بلکہ وہ یہ بھی گوارا نہ کر سکتا تھا کہ اس کی رعایا میں سے کوئی فرد اس کے بجائے کسی اور کو حاکم بر تر مانے۔ اسی لیے اس نے پہلے ’’رب العالمین‘‘ کی اصطلاح کو چیلنج کیا، کیونکہ اس کی طرف سے لائے ہوئے پیغام میں محض مذہبی معبودیت کا نہیں بلکہ کھلا کھلا سیاسی اقتدار اعلیٰ کا رنگ نظر آتا تھا۔ پھر جب حضرت موسٰیؑ نے بار بار تشریح کے کے بتایا کہ جس رب العالمین کا پیغام وہ لائے ہیں وہ کون ہے ، تو اس نے صاف صاف دھمکی دی کہ ملک مصر میں تم نے میرے اقتدار اعلیٰ کے سوا کسی اور کے اقتدار کا نام بھی لیا تو جیل کی ہوا کھاؤ گے |
Surah 26 : Ayat 31
قَالَ فَأْتِ بِهِۦٓ إِن كُنتَ مِنَ ٱلصَّـٰدِقِينَ
فرعون نے کہا 1"اچھا تو لے آ اگر تو سچا ہے"
1 | حضرت موسیٰ کے سوال پر فرعون کا یہ جواب خود ظاہر کرتا ہے کہ اس کا حال قدیم و جدید زمانے کے عام مشرکین سے مختلف نہ تھا۔ وہ دوسرے تمام مشرکین کی طرح فوق الفطری معنوں میں اللہ کے الٰہٰ الالٰہہ ہونے کو مانتا تھا اور ان ہی کی طرح یہ بھی تسلیم کرتا تھا کہ کائنات میں اس کی قدرت سب دیوتاؤں سے بر تر ہے۔ اسی وجہ سے حضرت موسٰیؑ نے اس سے کہا کہ اگر تجھے میرے مامور من اللہ ہونے کا یقین نہیں ہے تو میں ایسی صریح نشانیاں پیش کروں جن سے ثابت ہو جائے کہ میں اسی کا بھیجا ہوا ہوں۔ اور اسی وجہ سے اس نے بھی جواب دیا کہ اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو تو لاؤ کوئی نشانی۔ ورنہ ظہر ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی ہستی یا اس کے مالک کائنات ہونے ہی میں اسے کلام ہوتا تو نشانی کا سوال پیدا ہی نہ ہو سکتا تھا۔ نشانی کی بات تو اسی صورت میں درمیان آسکتی تھی جب کہ اللہ تعالیٰ کا وجود اور اس کا وجود اور اس کا قادر مطلق ہونا تو مسلم ہو، اور بحث اس امر میں ہو کہ حضرت موسٰیؑ اس کے بھیجے ہوئے ہیں یا نہیں |