Ayats Found (10)
Surah 20 : Ayat 48
إِنَّا قَدْ أُوحِىَ إِلَيْنَآ أَنَّ ٱلْعَذَابَ عَلَىٰ مَن كَذَّبَ
ہم کو وحی سے بتایا گیا ہے کہ عذاب ہے اُس کے لیے جو جھُٹلائے اور منہ موڑے1"
1 | اس واقعے کو بائیبل اور تلمود میں جس طرح بیان کیا گیا ہے اسے بھی ایک نظر دیکھ لیجیے تاکہ اندازہ ہو کہ قرآن مجید انبیاء علیہم السلام کا ذکر کس شان سے کرتا ہے اور بنی اسرائیل کی روایات میں ان کی کیسی تصویر پیش کی گئی ہے۔ بائیبل کا بیان ہے کہ پہلی مرتبہ جب خدا نے موسیٰ سے کہا کہ ’’اب میں تجھے فرعون کے پاس بھیجتا ہوں کہ تو میری قوم بنی اسرائیل کو مصر سے نکال لاۓ‘‘ تو حضرت موسیٰ نے جواب میں کہا ’’میں کون ہوں جو فرعون کے پاس جاؤں اور بنی اسرائیل کو مصر سے نکال لاؤں‘‘۔ پھر خدا نے حضرت موسیٰ کو بہت کچھ سمجھایا، ان کی ڈھارس بندھائی، معجزے عطا کیے، مگر حضرت موسیٰ نے پھر کہا تو یہی کہا کہ اے خداوند، میں تیری منت کرتا ہوں کسی اور کے ہاتھ سے جسے تو چاہے یہ پیغام بھیج‘‘(خروج 4)۔ تلمود کی روایت اس سے بھی چند قدم آگے جاتی ہے۔ اس کا بیان یہ ہے کہ اللہ تعالٰی اور حضرت موسیٰ کے درمیان سات دن تک اسی بات پر رد و کد ہوتی رہی۔ اللہ کہتا رہا کہ نبی بن، مگر موسیٰ کہتے رہے کہ میری زبان ہی نہیں کھلتی تو میں نبی کیسے بن جاؤں۔ آخر اللہ تعالٰی نے کہا میری خوشی یہ ہے کہ تو ہی نبی بن۔ اس پر حضرت موسیٰ نے کہا کہ لوط کو بچانے کے لیے آپ نے فرشتے بھیجے، ہاجرہ جب سارہ کے گھر سے نکلی تو اس کے لیے پانچ فرشتے بھیجے، اور اب اپنے خاص بچوں (بنی اسرائیل) کو مصر سے نکلوانے کے لیے آپ مجھے بھیج رہے ہیں۔اس پر خدا ناراض ہو گیا اور اس نے رسالت میں ان کے ساتھ ہارون کو شریک کر دیا اور موسیٰ کی اولاد کو محروم کر کے کہانت کا منصب ہارون کی اولاد کو دے دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کتابیں ہیں جن کے متعلق بے شرم لوگ کہتے ہیں کہ ارآن میں ان سے یہ قصے نقل کر لیے گۓ ہیں۔ |
Surah 20 : Ayat 52
قَالَ عِلْمُهَا عِندَ رَبِّى فِى كِتَـٰبٍۖ لَّا يَضِلُّ رَبِّى وَلَا يَنسَى
موسیٰؑ نے کہا 1"اُس کا علم میرے رب کے پاس ایک نوشتے میں محفوظ ہے میرا رب نہ چُوکتا ہے نہ بھُولتا ہے"
1 | یہ ایک نہایت ہی حکیمانہ جواب ہے جو حضرت موسیٰ نے اس وقت دیا اور اس سے حکمت تبلیغ کا ایک بہترین سبق حاصل ہوتا ہے۔ فرعون کا مقصد، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، سامعین کے، اور ان کے توسط سے پوری قوم کے دلوں میں تعصب کی آگ بھڑکانا تھا۔ اگر حضرت موسیٰ کہتے کہ ہاں وہ سب جاہل اور گمراہ تھے اور سب کے سب جہنم کا ایندھن بنیں گے تو چاہے یہ حق گوئی کا بڑا زبردست نمونہ ہوتا، مگر یہ جواب حضرت موسیٰ کے بجاۓ فرعون کے مقصد کی زیادہ خدمت انجام دیتا۔ اس لیے آنجناب نے کمال دانائی کے ساتھ ایسا جواب دیا جو بجاۓ خود حق بھی تھا، اور ساتھ ساتھ اس نے فرعون کے زہریلے دانت بھی توڑ دیے۔ آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ جیسے کچھ بھی تھے، اپنا کام کر کے خدا کے ہاں جا چکے ہیں۔ میرے پاس ان کے اعمال اور ان کی نیتوں کو جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ان کے بارے میں کوئی حکم لگاؤں۔ ان کا پورا ریکارڈ اللہ کے پاس محفوظ ہے۔ ان کی ایک ایک حرکت اور اس کے محرکات کو خدا جانتا ہے۔نہ خدا کی نگاہ سے کوئی چیز بچی رہ گئی ہے اور نہ اس کے حافظہ سے کوئی شے محو ہوئی ہے۔ ان سے جو کچھ بھی معاملہ خدا کو کرنا ہے اس کو وہی جانتا ہے۔ مجھے اور تمہیں یہ فکر نہیں ہونی چاہیے کہ ان کا موقف کیا تھا اور ان کا انجام کیا ہو گا۔ ہمیں تو اس کی فکر ہونی چاہیے کہ ہمارا موقف کیا ہے اور ہمیں کس انجام سے دو چار ہونا ہے۔ |
Surah 23 : Ayat 45
ثُمَّ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ وَأَخَاهُ هَـٰرُونَ بِـَٔـايَـٰتِنَا وَسُلْطَـٰنٍ مُّبِينٍ
پھر ہم نے موسیٰؑ اور اس کے بھائی ہارونؑ کو اپنی نشانیوں اور کھلی سند1 کے ساتھ فرعون اور اس کے اعیان سلطنت کی طرف بھیجا
1 | نشانیوں ‘‘ کے بعد ’’کھلی سند‘‘ سے مراد یا تو یہ ہے کہ ان نشانیوں کا ان کے ساتھ ہونا ہی اس بات کی کھلی سند تھا کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں۔ یا پھر نشانیوں سے مراد عصا کے سوا دوسرے وہ تمام معجزات ہیں جو مصر میں دکھائے گۓ تھے ، اور کھلی سند مراد عصا ہے ، کیونکہ اس کے ذریعہ سے جو معجزے رونما ہوئے ان کے بعد تو یہ بات بالکل ہی واضح ہو گئی تھی کہ یہ دونوں بھائی مامور من اللہ ہیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم، الزخرف حواشی 43۔ 44 ) |
Surah 23 : Ayat 48
فَكَذَّبُوهُمَا فَكَانُواْ مِنَ ٱلْمُهْلَكِينَ
پس انہوں نے دونوں کو جھٹلا دیا اور ہلاک ہونے والوں میں جا ملے1
1 | قصۂ موسیٰ و فرعون کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو البقرہ ، آیات 49۔ 50۔ الاعراف 103 تا 136۔ یونس 75 تا 92۔ ہود 96 تا 99۔ بنی اسرائیل 101 تا 104۔ ظٰہٰ 9۔ 80 |
Surah 26 : Ayat 18
قَالَ أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينَا وَلِيدًا وَلَبِثْتَ فِينَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ
فرعون نے کہا 1"کیا ہم نے تجھ کو اپنے ہاں بچہ سا نہیں پالا تھا؟ تو نے اپنی عمر کے کئی سال ہمارے ہاں گزارے
1 | اس سے ایک اشارہ اس خیال کی تائید میں نکلتا ہے کہ یہ فرعون وہ فرعون نہ تھا جس کے گھر میں حضرت موسٰیؑ نے پرورش پائی تھی، بلکہ یہ اس کا بیٹا تھا۔ اگر یہ وہی فرعون ہوتا تو کہتا کہ میں نے تجھے پالا تھا۔ لیکن یہ کہتا ہے کہ ہمارے ہاں تو رہا ہے اور ہم نے تیری پرورش کی ہے۔ (اس مسئلے پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم الاعراف، حواشی 85۔ 93 ) |
Surah 26 : Ayat 29
قَالَ لَئِنِ ٱتَّخَذْتَ إِلَـٰهًا غَيْرِى لَأَجْعَلَنَّكَ مِنَ ٱلْمَسْجُونِينَ
فرعون نے کہا 1"اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو تجھے میں اُن لوگوں میں شامل کر دوں گا جو قید خانوں میں پڑے سڑ رہے ہیں"
1 | اس گفتگو کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ آج کی طرح قدیم زمانے میں بھی ’’ معبود‘‘ کا تصور صرف مذہبی معنوں تک محدود تھا۔ یعنی یہ کہ اسے بس پوجا پاٹ اور نذر و نیاز کا استحقاق پہنچتا ہے ، اور اپنے فوق الفطری غلبہ و اقتدار کی وجہ سے اس کا یہ منصب بھی ہے کہ انسان اپنے معاملات میں اس سے استمداد و استعانت کے لیے دعائیں مانگیں۔ لیکن کسی معبود کی یہ حیثیت کہ وہ قانونی اورسیاسی معنوں میں بھی بالا دست ہے ، اور اسے یہ حق بھی پہنچتا ہے کہ معاملات دنیا میں وہ جو حکم چاہے دے ، اور انسانوں کا یہ فرض ہے کہ اس کے امر و نہی کو قانون بر تر مان کر اس کے آگے جھک جائیں ، یہ چیز زمین کے مجازی فرمانرواؤں نے نہ پہلے کبھی مان کر دی تھی، نہ آج وہ اسے ماننے کے لیے تیار ہیں۔ وہ ہمیشہ سے یہی کہتے چلے آئے ہیں کہ دنیا کے معاملات میں ہم مختار مطلق ہیں ، کسی معبود کو ہماری سیاست اور ہمارے قانون میں دخل دینے کا حق نہیں ہے۔ دنیوی حکومتوں اور بادشاہوں سے انبیا علیہم السلام اور ان کی پیروی کرنے والے مصلحین کے تصادم کی اصل وجہ یہی رہی ہے۔ انہوں نے ان سے خداوند عالم کی حاکمیت و بالا دستی تسلیم کرانے کی کوشش کی ہے ، اور یہ اس کے جواب میں نہ صرف یہ کہ اپنی حاکمیت مطلقہ کا دعویٰ پیش کرتی رہی ہیں بلکہ انہوں نے ہر اس شخص کو مجرم اور باغی ٹھیرایا ہے جو ان کے سوا کسی اور کو قانون و سیاست کے میدان میں معبود مانے۔ اس تشریح سے فرعون کی اس گفتگو کا صحیح مفہوم اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ اگر معاملہ پوجا پاٹ اور نذر و نیاز کا ہوتا تو اس کو اس سے کوئی بحث نہ تھی کہ حضرت موسیٰیؑ دوسرے دیوتاؤں کو چھوڑ کر صرف ایک اللہ رب العالمین کو اس کا مستحق سمجھتے ہیں۔ اگر صرف اسی معنی میں توحید فی العبادت کی دعوت موسٰیؑ علیہ السلام نے اس کو دی ہوتی تو اسے غضب ناک ہونے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ زیادہ سے زیادہ اگر وہ کچھ کرتا تو بس یہ کہ اپنا دین آبائی چھوڑنے سے انکار کر دیتا، یا حضرت موسٰیؑ سے کہتا کہ میرے مذہب کے پنڈتوں سے مناظرہ کر لو۔ لیکن جس چیز نے اس غضبناک کر دیا وہ یہ تھی کہ حضرت موسٰیؑ علیہ السلام نے رب العالمین کے نمائندے کی حیثیت سے اپنے آپ کو پیش کر کے اسے اس طرح ایک سیاسی حکم پہنچایا کہ گویا وہ ایک ماتحت حاکم ہے اور ایک حاکم بر تر کا پیغامبر آ کر اس سے اطاعت امر کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اس معنی میں ہو اپنے اوپر کسی کی سیاسی و قانونی برتری ماننے کے لیے تیار نہ تھا، بلکہ وہ یہ بھی گوارا نہ کر سکتا تھا کہ اس کی رعایا میں سے کوئی فرد اس کے بجائے کسی اور کو حاکم بر تر مانے۔ اسی لیے اس نے پہلے ’’رب العالمین‘‘ کی اصطلاح کو چیلنج کیا، کیونکہ اس کی طرف سے لائے ہوئے پیغام میں محض مذہبی معبودیت کا نہیں بلکہ کھلا کھلا سیاسی اقتدار اعلیٰ کا رنگ نظر آتا تھا۔ پھر جب حضرت موسٰیؑ نے بار بار تشریح کے کے بتایا کہ جس رب العالمین کا پیغام وہ لائے ہیں وہ کون ہے ، تو اس نے صاف صاف دھمکی دی کہ ملک مصر میں تم نے میرے اقتدار اعلیٰ کے سوا کسی اور کے اقتدار کا نام بھی لیا تو جیل کی ہوا کھاؤ گے |
Surah 28 : Ayat 36
فَلَمَّا جَآءَهُم مُّوسَىٰ بِـَٔـايَـٰتِنَا بَيِّنَـٰتٍ قَالُواْ مَا هَـٰذَآ إِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًى وَمَا سَمِعْنَا بِهَـٰذَا فِىٓ ءَابَآئِنَا ٱلْأَوَّلِينَ
پھر جب موسیٰؑ اُن لوگوں کے پاس ہماری کھُلی کھُلی نشانیاں لے کر پہنچا تو انہوں نے کہا کہ یہ کچھ نہیں ہے مگر بناوٹی جادوگر1 اور یہ باتیں تو ہم نے اپنے باپ دادا کے زمانے میں کبھی سُنیں ہی نہیں2
2 | اشارہ ہے اُن باتوں کی طرف جوتبلیغ رسالت کے سلسلے میں حضرت موسٰیؑ کی تھیں۔ قرآن مجید میںدوسرے مقامات پران باتوں کی تفصیل دی گئی ہے۔ النازعات میں ہے کہ حضرت موسٰیڑؑ نے اس سے کہیا: ھل لک الیٰ ان تزکی۔ واھدیک الی ربک فتخشی’’ کیاتو پاکیزہ روش اختیار کرنے پرآمادہ ہے؟ اورمیں تجھے تیرے رب کی راہ بتاؤں توخشیت اختیار کرےگا؟ سورہ طٰہٰ میں ہے کہ قد جئنا ک بایۃ من ربک والسلام علی من اتبع الھدٰیْ انا قد اُوحٰ الیناان العزاب علی من کذب وتولی،’’ ہم تیرے پاس تیرے رب کی نشانی لائے ہیں، اورسلامتی ہے اس کےلیے جوراہ راست کی پیروی کرے اورہم پروحی کی گئی ہے کہ سزا ہے اس کےلیے جوجھٹلائےاورمُنہ موڑے‘‘۔ اورانا رسولاربک فارسل معنا بنی اسرآءیل ’’ ہم تیرے رب کے پیغمبر ہیں، تو ہمارے ساتھ بنی اسرئیل کوجانےدے‘‘ انہی باتوں کے متعلق فرعون نے کہا کہ ہمارے باپ دادا نے بھی کبھی یہ نہیں سناتھا کہ فرعون مصر اوپر بھی کوئی ایسی مقتدر ہستی ہے جواس کاحکم دینے کی مجاز ہو، جو اسے سزا دےسکتی ہو، جواسے ہدایات دینے کےلیے کسی آدمی کواس کے دربار میں بھیجے، اورجس سے ڈٖرنے کےلیے مصر کے بادشاہ سے کہا جائے۔ یہ تونرالی باتیں ہیں جوآج ہم ایک شخص کی زبان سے سُن رہے ہیں ۔ |
1 | اصل الفاظ ہیں سحرٌ مُّفتَرَّی ’’افترا کیاہوجادو‘‘۔ اس افترا کواگر جھوٹ کے معنی لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ یہ لاٹھی کااژدھا بننا اورہاتھ کاچمک اٹھنا، نفس شے میں حقیقی تغیر نہیں ہے بلکہ محض ایک بمائشی شعبدہ ہے جسے یہ شخص معجزہ کہہ کرہمیں دھوکا دے رہا ہے۔ اوراگر اسے بناوٹ کے معنی میں لیاجائے تومراد یہ ہوگی کہ یہ شخص کسی کرتب سے ایک ایسی چیز بنالایا ہے جودیکھنے میں لاٹھی معلوم ہوتی ہے مگر جب یہ اسے پھینک دیتا ہےتوسانپ نظر آنے لگتی ہے۔ اور اپنے ہاتھ پربھی اس نے کوئی ایسی چیز مل لی ہے کہ اس کی بغل سےنکلنے کےبعد وہ یکایک چمک اٹھتا ہے۔ یہ مصنوعی طلسم اس نے خود تیارکیا ہے، اورہمیں یقین یہ دلارہا ہے کہ یہ معجزے ہیں جوخدانے اسے عطاکیے ہیں۔ |
Surah 28 : Ayat 39
وَٱسْتَكْبَرَ هُوَ وَجُنُودُهُۥ فِى ٱلْأَرْضِ بِغَيْرِ ٱلْحَقِّ وَظَنُّوٓاْ أَنَّهُمْ إِلَيْنَا لَا يُرْجَعُونَ
اُس نے اور اس کے لشکروں نے زمین میں بغیر کسی حق کے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا1 اور سمجھے کہ انہیں کبھی ہماری طرف پلٹنا نہیں ہے2
2 | یعنی انہوں نےاپنے آپ کوغیر مسئول سمجھ لیااوریہ فرض کرکے خود مختارانہ کام کرنے لگے کہ انہیں جاکر کسی سامنے جواب دہی نہیں کرنی ہے۔ |
1 | یعنی بڑائی کاحق تواس کائنات میں صرف اللہ رب العالمین کوہے۔ مگر فرعون اواس کےلشکر زمین کےایک ذراسےخطے میںتھوڑا سا اقتدار پاکریہ سمجھ بیٹھے کہ یہاں بڑے بس وہی ہیں۔ |
Surah 23 : Ayat 36
۞ هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ لِمَا تُوعَدُونَ
بعید، بالکل بعید ہے یہ وعدہ جو تم سے کیا جا رہا ہے
Surah 23 : Ayat 37
إِنْ هِىَ إِلَّا حَيَاتُنَا ٱلدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ
زندگی کچھ نہیں ہے مگر بس یہی دنیا کی زندگی یہیں ہم کو مرنا اور جینا ہے اور ہم ہرگز اٹھائے جانے والے نہیں ہیں