Ayats Found (3)
Surah 33 : Ayat 35
إِنَّ ٱلْمُسْلِمِينَ وَٱلْمُسْلِمَـٰتِ وَٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُؤْمِنَـٰتِ وَٱلْقَـٰنِتِينَ وَٱلْقَـٰنِتَـٰتِ وَٱلصَّـٰدِقِينَ وَٱلصَّـٰدِقَـٰتِ وَٱلصَّـٰبِرِينَ وَٱلصَّـٰبِرَٲتِ وَٱلْخَـٰشِعِينَ وَٱلْخَـٰشِعَـٰتِ وَٱلْمُتَصَدِّقِينَ وَٱلْمُتَصَدِّقَـٰتِ وَٱلصَّـٰٓئِمِينَ وَٱلصَّـٰٓئِمَـٰتِ وَٱلْحَـٰفِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَٱلْحَـٰفِظَـٰتِ وَٱلذَّٲكِرِينَ ٱللَّهَ كَثِيرًا وَٱلذَّٲكِرَٲتِ أَعَدَّ ٱللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا
بالیقین1 جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں2، مومن ہیں3، مطیع فرمان ہیں4، راست باز ہیں5، صابر ہیں6، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں7، صدقہ دینے والے ہیں8، روزہ رکھنے والے ہیں9، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں10، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں11، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے12
12 | اللہ کو کثرت سے یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی زبان پر ہر وقت زندگی کے ہر معاملے میں کسی نہ کسی طرح خدا کا نام آتا رہے۔ یہ کیفیت آدمی پر اُس وقت تک طاری نہیں ہوتی جب تک اس کے دِل میں خدا کا خیال بس کر نہ رہ گیا ہو۔ انسان کے شعور سے گزر کر اس کے تحت الشعور اور لا شعور تک میں جب یہ خیال گہرا اُتر جاتا ہے تب ہی اس کا یہ حال ہوتا ہے کہ جو کام اور جو بات بھی وہ کرے گا اس میں خدا کا نام ضرور آئے گا۔کھائے گا تو بسم اللہ کہہ کر کھائے گا۔ فارغ ہو گا تو الحمد للہ کہے گا ۔ سوئے گا تو اللہ کو یاد کر کے اور اُٹھے گا تو اللہ ہی کا نام لیتے ہوئے۔ بات چیت میں بار بار اس کی زبان سے بسم اللہ ، الحمد للہ ، ماشاء اللہ اور اسے طرح کے دوسرے کلمات نکلتے رہیں گے۔ اپنے ہر معاملے میں اللہ سے مدد مانگے گا۔ ہر نعمت ملنے پر اس کا شکر ادا کرے گا۔ ہر آفت آنے پر اس کی رحمت کا طلبگار ہو گا۔ مشکل میں اس سے رجوع کرے گا۔ ہر بُرائی کا موقع سامنے آنے پر اس سے ڈرے گا۔ ہر قصور سرزد ہو جانے پر اس سے معافی چاہے گا۔ ہر حاجت پیش آنے پر اس سے دعا مانگے گا۔ غرض اُٹھتے بیٹھتے اور دنیا کے سارے کام کرتے ہوئے اس کا وظیفہ خدا ہی کا ذکر ہو گا۔ یہ چیز درحقیقت اسلامی زندگی کی جان ہے۔ دوسری جتنی بھی عبادات ہیں ان کے لیے بہر حا ل کو ئی وقت ہوتا ہے جب وہ ادا کی جاتی ہیں اور انہیں ادا کر چکنے کے بعد آدمی فارغ ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ وہ عبادت ہے جو ہر وقت جاری رہتی ہے اور یہی انسان کی زندگی کا مستقبل رشتہ اللہ اور اس کی بندگی کے ساتھ جوڑے رکھتی ہے۔ خود عبادات اور تمام دینی کاموں میں بھی جان اِسی چیز سے پڑتی ہے کہ آدمی کا دِل محض اِن خاص اعمال کے وقت ہی نہیں بلکہ ہمہ وقت خدا کی طرف راغب اور اس کی زبان دائماً ا س کے ذکر سے تر رہے۔ یہ حالت انسان کی زندگی میں عبادات اور دینی کام ٹھیک اُسی طرح پروان چڑھتے اور نشو و نما پاتے ہیں جس طرح ایک پودا ٹھیک اپنے مزاج کے مطابق آب و ہوا میں لگا ہوا ہو۔ اس کے برعکس جو زند گی اس دائمی ذکرِ خدا سے خالی ہو اس میں محض مخصوص اوقات میں یا مخصوص مواقع پر ادا کی جانے والی عبادات اور دینی خدمات کی مثال اُس پودے کی سی ہے جو اپنے مزاج سے مختلف آب و ہوا میں لگایا گیا ہو اور محض باغبان کی خاص خبر گیری کی وجہ سے پل رہا ہو۔ اسی بات کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایک حدیث میں یوں واضح فرماتے ہیں : عن معاذ بن انس الجھنی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان رجلاً ساءلہ ای المجاھدین اعظمُ اجراًیا رسول اللہَ؟ قال اکثر ھم للہِ تعَالیٰ ذکراً قال ایُّ الصایمین اکثراجرا ؟ قال اکثر ھم لِلہ عزّو جل ذکراً ثم ذکرا لصّلوٰۃ والزکوٰ ۃ والحجّ سالصَّدَ قَۃکل ذٰلک یقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اکثر ھم لِلہ ذکراً۔ (مسند احمد) ’’معاذ بن انَس جُہَنی روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ، جہاد کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر اجر پانے والا کون ہے؟ فرمایا جو اُن میں اللہ تعالٰی کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہے۔ اس نے عرض کیا روزہ رکھنے والوں میں سب سے زیادہ اجر کون پائے گاَ؟ فرمایا جو ان میں سب سے زیادہ اللہ کو یاد کرے والا ہو۔ پھر اس شخص نے اسی طرح نماز، زکوٰۃ حج اور صدقہ ادا کرنے والوں کے متعلق پوچھا اور حضورؐ نے ہر ایک کا یہی جواب دیا کہ ’’جو اللہ کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہو۔ |
11 | اللہ کو کثرت سے یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی زبان پر ہر وقت زندگی کے ہر معاملے میں کسی نہ کسی طرح خدا کا نام آتا رہے۔ یہ کیفیت آدمی پر اُس وقت تک طاری نہیں ہوتی جب تک اس کے دِل میں خدا کا خیال بس کر نہ رہ گیا ہو۔ انسان کے شعور سے گزر کر اس کے تحت الشعور اور لا شعور تک میں جب یہ خیال گہرا اُتر جاتا ہے تب ہی اس کا یہ حال ہوتا ہے کہ جو کام اور جو بات بھی وہ کرے گا اس میں خدا کا نام ضرور آئے گا۔کھائے گا تو بسم اللہ کہہ کر کھائے گا۔ فارغ ہو گا تو الحمد للہ کہے گا ۔ سوئے گا تو اللہ کو یاد کر کے اور اُٹھے گا تو اللہ ہی کا نام لیتے ہوئے۔ بات چیت میں بار بار اس کی زبان سے بسم اللہ ، الحمد للہ ، ماشاء اللہ اور اسے طرح کے دوسرے کلمات نکلتے رہیں گے۔ اپنے ہر معاملے میں اللہ سے مدد مانگے گا۔ ہر نعمت ملنے پر اس کا شکر ادا کرے گا۔ ہر آفت آنے پر اس کی رحمت کا طلبگار ہو گا۔ مشکل میں اس سے رجوع کرے گا۔ ہر بُرائی کا موقع سامنے آنے پر اس سے ڈرے گا۔ ہر قصور سرزد ہو جانے پر اس سے معافی چاہے گا۔ ہر حاجت پیش آنے پر اس سے دعا مانگے گا۔ غرض اُٹھتے بیٹھتے اور دنیا کے سارے کام کرتے ہوئے اس کا وظیفہ خدا ہی کا ذکر ہو گا۔ یہ چیز درحقیقت اسلامی زندگی کی جان ہے۔ دوسری جتنی بھی عبادات ہیں ان کے لیے بہر حا ل کو ئی وقت ہوتا ہے جب وہ ادا کی جاتی ہیں اور انہیں ادا کر چکنے کے بعد آدمی فارغ ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ وہ عبادت ہے جو ہر وقت جاری رہتی ہے اور یہی انسان کی زندگی کا مستقبل رشتہ اللہ اور اس کی بندگی کے ساتھ جوڑے رکھتی ہے۔ خود عبادات اور تمام دینی کاموں میں بھی جان اِسی چیز سے پڑتی ہے کہ آدمی کا دِل محض اِن خاص اعمال کے وقت ہی نہیں بلکہ ہمہ وقت خدا کی طرف راغب اور اس کی زبان دائماً ا س کے ذکر سے تر رہے۔ یہ حالت انسان کی زندگی میں عبادات اور دینی کام ٹھیک اُسی طرح پروان چڑھتے اور نشو و نما پاتے ہیں جس طرح ایک پودا ٹھیک اپنے مزاج کے مطابق آب و ہوا میں لگا ہوا ہو۔ اس کے برعکس جو زند گی اس دائمی ذکرِ خدا سے خالی ہو اس میں محض مخصوص اوقات میں یا مخصوص مواقع پر ادا کی جانے والی عبادات اور دینی خدمات کی مثال اُس پودے کی سی ہے جو اپنے مزاج سے مختلف آب و ہوا میں لگایا گیا ہو اور محض باغبان کی خاص خبر گیری کی وجہ سے پل رہا ہو۔ اسی بات کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایک حدیث میں یوں واضح فرماتے ہیں : عن معاذ بن انس الجھنی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان رجلاً ساءلہ ای المجاھدین اعظمُ اجراًیا رسول اللہَ؟ قال اکثر ھم للہِ تعَالیٰ ذکراً قال ایُّ الصایمین اکثراجرا ؟ قال اکثر ھم لِلہ عزّو جل ذکراً ثم ذکرا لصّلوٰۃ والزکوٰ ۃ والحجّ سالصَّدَ قَۃکل ذٰلک یقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اکثر ھم لِلہ ذکراً۔ (مسند احمد) ’’معاذ بن انَس جُہَنی روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ، جہاد کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر اجر پانے والا کون ہے؟ فرمایا جو اُن میں اللہ تعالٰی کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہے۔ اس نے عرض کیا روزہ رکھنے والوں میں سب سے زیادہ اجر کون پائے گاَ؟ فرمایا جو ان میں سب سے زیادہ اللہ کو یاد کرے والا ہو۔ پھر اس شخص نے اسی طرح نماز، زکوٰۃ حج اور صدقہ ادا کرنے والوں کے متعلق پوچھا اور حضورؐ نے ہر ایک کا یہی جواب دیا کہ ’’جو اللہ کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہو۔ |
10 | اس میں دو مفہوم شامل ہیں۔ ایک یہ کہ وہ زنا سے پرہیز کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ برہنگی و عُریانی سے اجتناب کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ برہنگی و عریانی صرف اسی چیز کا نام نہیں ہے کہ آدمی لباس کے بغیر بالکل ننگا ہو جائے۔ بلکہ ایسا لباس پہننا بھی برہنگی ہی ہے جو اتنا رقیق ہو کہ جسم اس میں سے جھلکتا ہو، یا اتنا چُست ہو کہ جسم کی ساخت اور اس کے نشیب و فراز سب اُس میں سے نمایاں نظر آتے ہوں |
9 | اس میں فرض اور نفل دونوں قسم کے روزے شامل ہیں |
8 | اس سے مُراد صرف فرض زکوٰۃ ادا کرنا ہی نہیں ہے ، بلکہ عام خیرات بھی اس میں شامل ہے۔ مُراد یہ ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں کھلے دِل سے اپنے مال صرف کرتے ہیں۔ اللہ کے بندوں کی مدد کرنے میں اپنی حدِ استطاعت تک وہ کوئی دریغ نہیں کرتے۔ کوئی یتیم، کوئی بیمار، کوئی مصیبت زدہ، کوئی ضعیف و معذور، کوئی غریب و محتاج آدمی اُن کی بستیوں میں دستگیری سے محروم نہیں رہتا۔ اور اللہ کے دین کو سر بلند کرنے کے لیے ضرورت پیش آ جائے تو اس پر اپنے مال لُٹا دینے میں وہ کبھی بخل سے کام نہیں لیتے۔ |
7 | یعنی وہ تکبُّر اور استکبار اور غرورِ نفس سے خالی ہیں۔ وہ اِس حقیقت کا پورا شعور و احساس رکھتے ہیں کہ ہم بندے ہیں اور بندگی سے بالا تر ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس لیے ان کے دِل اور جسم دونوں ہی اللہ کے آگے جھکے رہتے ہیں۔ ان پر خدا کا خوف غالب رہتا ہے۔ ان سے کبھی وہ رویہّ ظاہر نہیں ہوتا جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا اور خدا سے بے خوف لوگوں سے ظاہر ہوا کرتا ہے۔ ترتیبِ کلام ملحوظ رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اِس عام خدا ترسانہ رویہّ کے ساتھ خاص طور پر ’’خشوع‘‘ سے مُراد نماز ہے کیوں کہ اس کے بعد ہی صدقے اور روزے کا ذکر کیا گیا ہے |
6 | یعنی خدا اور رسولؐ کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلنے اور خدا کے دین کو قائم کرنے میں جو مشکلات بھی پیش آئیں ، جو خطرات بھی درپیش ہوں ، جو تکلیفیں بھی اُٹھانی پڑیں اور جن نقصانات سے بھی دوچار ہونا پڑے ، ان کا پوری ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں۔ کوئی خوف، کوئی لالچ اور خواہشاتِ نفس کا کوئی تقاضا ان کو سیدھی راہ سے ہٹا دینے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ |
5 | یعنی اپنی گفتار میں بھی سچے ہیں اور اپنے معاملات میں بھی کھرے ہیں۔ جھوٹ ، فریب، بدنیتی ، دغا بازی اور چَھل بٹے ان کی زندگی میں نہیں پائے جاتے۔ ان کی زبان وہی بولتی ہے جسے اُن کا ضمیر صحیح جانتا ہے۔ وہ کام وہی کرتے ہیں جو ایمانداری کے ساتھ ان کے نزدیک راستی و صداقت کے مطابق ہوتا ہے۔ اور جس سے بھی وہ کوئی معاملہ کرتے ہیں دیانت کے ساتھ کرتے ہیں۔ |
4 | یعنی وہ محض مان کر رہ جانے والے بھی نہیں ہیں بلکہ عملاً اطاعت کرنے والے ہیں۔ ان کی یہ حالت نہیں ہے کہ ایمانداری کے ساتھ حق تو اُسی چیز کو مانیں جس کا اللہ اور اس کے رسولؐ نے حکم دیا ہے مگر عملاً اس کی خلاف ورزی کریں، اور اپنی مخلصانہ رائے میں تو ان سب کاموں کو بُرا ہی سمجھتے رہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ہے مگر اپنی عملی زندگی میں ارتکاب انہی کا کرتے چلے جائیں۔ |
3 | یعنی جن کی یہ اطاعت محض ظاہری نہیں ہے۔ بادل نا خواستہ نہیں ہے ، بلکہ دِل سے وہ اسلام ہی کی رہنمائی کو حق مانتے ہیں۔ ان کا ایمان یہی ہے کہ فکر و عمل کا جو راستہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے دکھایا ہے وہی سیدھا اور صحیح راستہ ہے اور اسے کی پیروی میں ہماری فلاح ہے۔ جس چیز کو اللہ اور اس کے رسول نے غلط کہہ دیا ہے ان کی اپنی رائے بھی یہی ہے کہ وہ یقیناً غلط ہے ، اور جسے اللہ اور اس کے رسول نے حق کہہ دیا ہے ان کا اپنا دِل و دماغ بھی اسے برحق ہی یقین کرتا ہے۔ ان کے نفس اور ذہن کی حالت یہ نہیں ہے کہ قرآن اور سُنت سے جو حکم ثابت ہو اُسے وہ نامناسب سمجھتے ہوں اور اس فکر میں غلطاں و پیچاں رہیں کہ کسی طرح اسے بدل کر اپنی رائے کے مطابق، یا دُنیا کے چلتے ہوئے طریقوں کے مطابق ڈھال بھی دیا جائے اور یہ الزام بھی اپنے سر نہ لیا جائے کہ ہم نے حکمِ خدا اور رسول میں ترمیم کر ڈالی ہے۔ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایمان کی صحیح کیفیت کو یوں بیان فرماتے ہیں : ذاق طعم الایمان من رضی با للّٰہ ربّاً و بالاسلام دینا و بِمُحمَّدٍ رسُلا۔ایمان کا لذت ہو گیا وہ شخص جو راضی ہوا اس بات پر کہ اللہ ہی اس کا رب ہو اور اسلام ہی اس کا دین ہو اور محمدؐ ہی اس کے رسولؐ ہوں۔ اور ایک دوسری حدیث میں آپ اس کی تشریح یوں کرتے ہیں۔ لایؤمن احد کم حتٰی یکون ھواہ تبعاًلما جئتُ بہٖ (شرح السنّہ) تم میں کوئی شخص مومن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کی خواہشِ نفس اُس چیز کے تابع نہ ہو جائے جسے میں لایا ہوں |
2 | یعنی جنہوں نے اسلام کو اپنے لیے ضابطۂ حیات کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے اور یہ طے کر لیا ہے کہ اب وہ اُسی کی پیروی میں زندگی بسر کریں گے۔دوسرے الفاظ میں ، جن کے اندر اسلام کے دیے ہوئے طریقِ فکر اور طرزِ زندگی کے خلاف کسی قسم کی مزاحمت باقی نہیں رہی ہے۔بلکہ وہ اس کی اطاعت اور اتباع کی راہ اختیار کر چکے ہیں |
1 | پچھلے پیراگراف کے بعد متصلاً یہ مضمون ارشاد فرما کر ایک لطیف اشارہ اس امر کی طرف کر دیا گیا ہے کہ اوپر ازواجَ مطہرات کو جو ہدایات دی گئی ہیں وہ اُن کے لیے خاص نہیں ہیں بلکہ مسلم معاشرے کو بالعموم اپنے کردار کی اصلاح انہی ہدایات کے مطابق کرنی چاہیے۔ |
Surah 70 : Ayat 19
۞ إِنَّ ٱلْإِنسَـٰنَ خُلِقَ هَلُوعًا
انسان تھڑدلا پیدا کیا گیا ہے1
1 | جس بات کو ہم اپنی زبان میں یوں کہتے ہیں کہ ’’یہ بات انسان کی سرشت میں ہے‘‘۔ یا ’’یہ انسان کی فطری کمزوری ہے‘‘۔ اسی کو اللہ تعالٰی اس طرح بیان فرماتا ہے کہ ’’انسان ایسا پیدا کیا گیا ہے‘‘۔ اس مقام پر یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ قرآن مجید میں بکثرت مواقع پر نوع انسانی کی عام اخلاقی کمزوریوں کا ذکر کرنے کے بعد ایمان لانے والے اور راہ راست اختیار کر لینے والے لوگوں کو اس سے مستثنی قرار دیا گیا ہے، اور یہی مضمون آگے کی آیات میں بھی آ رہا ہے۔ اس سے یہ حقیقت خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ یہ پیدائشی کمزوریاں ناقابل تغیر و تبدل نہیں ہیں، بلکہ انسان اگر خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت کو قبول کر کے اپنے نفس کی اصلاح کے لیے عملاً کوشش کرے تو وہ ان کو دور کر سکتا ہے، اور اگر وہ نفس کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دے تو یہ اس کے اندر راسخ ہو جاتی ہیں (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم، الانبیاء حاشیہ 41۔ جلد چہارم ، الزمر حواشی 23۔28۔ الشوریٰ ، حاشیہ 75) |
Surah 70 : Ayat 35
أُوْلَـٰٓئِكَ فِى جَنَّـٰتٍ مُّكْرَمُونَ
یہ لوگ عزت کے ساتھ جنت کے باغوں میں رہیں گے