Ayats Found (20)
Surah 7 : Ayat 103
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنۢ بَعْدِهِم مُّوسَىٰ بِـَٔـايَـٰتِنَآ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَإِيْهِۦ فَظَلَمُواْ بِهَاۖ فَٱنظُرْ كَيْفَ كَانَ عَـٰقِبَةُ ٱلْمُفْسِدِينَ
پھر اُن قوموں کے بعد (جن کا ذکر اوپر کیا گیا) ہم نے موسیٰؑ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کے پاس بھیجا 1مگر انہوں نے بھی ہماری نشانیوں کے ساتھ ظلم کیا2، پس دیکھو کہ ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا
2 | نشانیوں کے ساتھ ظلم کیا، یعنی ان کو نہ مانا اور انہیں جادو گری قرار دے کر ٹالنے کی کو شش کی ۔ جس طرح کسی شعر کو شعریت کا مکمل نمونہ ہو: تک بندی سے تعبیر کرنا اور اس کا مذاق اڑانا نہ صرف اس شعر کے ساتھ بلکہ نفسِ شاعری اور ذوقِ شعری کے ساتھ بھی ظلم ہے، اسی طرح وہ نشانیاں جو خود اپنے من جانب اللہ ہونے پر صریح گواہی دے رہی ہوں اور جن کے متعلق کوئی صاحبِ عقل آدمی یہ گمان تک نہ کر سکتا ہو کہ سحر کے زور سے بھی ایسی نشانیاں ظاہر ہو سکتی ہیں، بلکہ جن کے متعلق خود فنِ سحر کے ماہرین نے شہادت دے دی ہو کہ وہ ان کے فن کی دست رس سے بالا تر ہیں، ان کو سحر قرار دینا نہ صرف ان نشانیوں کے ساتھ بلکہ عقلِ سلیم اور صداقت کے ساتھ بھی ظلمِ عظیم ہے |
1 | اوپرجو قصے بیان ہوئے ان سے مقصود یہ ذہن نشین کرانا تھا کہ جو قوم خدا کا پیغام پانے کے بعد اسے رد کر دیتی ہے اسے پھر ہلاک کیے بغیر نہیں چھوڑا جاتا ۔ اس کے بعد اب موسیٰ و فرعون اوربنی اسرائیل کا قصہ کئی رکوعوں تک مسلسل چلتا ہے جس میں اس مضمون کے علاوہ چند اور اہم سبق بھی کفار قریش، یہود اور ایمان لانے والے گروہ کر دیے گئے ہیں۔ کفار قریش کو اس قصے کے پیرائے میں یہ سمجھا نے کی کو شش کی گئی ہے کہ دعوتِ حق کے ابتدائی مر حلوں میں حق اور باطل کی قوتوں کا جو تنا سب بظاہر نظر آتا ہے، اُس سے دھوکا نہیں کھاناچاہیے۔ حق کی تو پوری تاریخ ہی اس بات پر گواہ ہے کہ وہ ایک فی قوم بلکہ ایک فی دنیا کی اقلیت سے شروع ہوتا ہے اور بغیر کسی سرو سامان کے اُس باطل کےخلاف لڑائی چھیڑ دیتا ہے جس کی پشت پر بڑی بڑی قوموں اور سلطنتوں کی طاقت ہوتی ہے، پھر بھی آخر کار وہی غالب آکر رہتا ہے۔ نیز اس قصے میں ان کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ داعی حق کے مقابلہ میں جو چالیں چلی جاتی ہیں اور جن تدبیروں سےا س کی دعوت کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ کس طرح اُلٹی پڑتی ہیں۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ منکرین حق کی ہلاکت کا آخری فیصلہ کرنے سے پہلے اُن کو کتنی کتنی طویل مدّت تک سنبھلنے اور درست ہونے کے مواقع دیتا چلا جاتا ہے اور جب کسی تنبیہ، کسی سبق آموز واقعے اور کسی روشن نشانی سے بھی وہ اثر نہیں لیتے تو پھر وہ انہیں کیسی عبرتناک سزا دیتا ہے۔ جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تھے ان کو اس قصے میں دوہرا سبق دیا گیا ہے۔ پہلا سبق اس بات کا کہ اپنی قلت و کمزوری کو اور مخالفین حق کی کثرت و شوکت کو دیکھ کر اُن کی ہمت نہ ٹوٹے اور اللہ کی مدد آنے میں دیر ہوتے دیکھ کر وہ دل شکستہ نہ ہوں۔ دوسرا سبق اس بات کا کہ ایمان لانے کے بعد جو گروہ یہودیوں کی سی روش اختیار کرتا ہے وہ پھر یہودیوں ہی کی طرح خدا کی لعنت میں گرفتا ربھی ہوتا ہے۔ بنی اسرائیل کے سامنے ان کی عبرتناک تاریخ پیش کرکے انہیں باطل پرستی کے بُرے نتائج پر متنبہ کیا گیا ہے اور اُس پیغمبر پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے جو پچھلے پیغمبروں کے لائے ہوئے دین کو تمام آمیزشوں سے پاک کر کے پھر اس کی اصلی صورت میں پیش کر رہا ہے |
Surah 7 : Ayat 105
حَقِيقٌ عَلَىٰٓ أَن لَّآ أَقُولَ عَلَى ٱللَّهِ إِلَّا ٱلْحَقَّۚ قَدْ جِئْتُكُم بِبَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَرْسِلْ مَعِىَ بَنِىٓ إِسْرَٲٓءِيلَ
میرا منصب یہی ہے کہ اللہ کا نام لے کر کوئی بات حق کے سوا نہ کہوں، میں تم لوگوں کے پاس تمہارے رب کی طرف سے صریح دلیل ماموریت لے کر آیا ہوں، لہٰذا تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے1"
1 | حضرت موسیٰ علیہ السلام دو چیزوں کی دعوت لے کر فرعون کے پاس بھیجے گئے تھے ۔ ایک یہ کہ وہ اللہ کی بندگی (اسلام)قبول کرے، دوسرے یہ کہ بنی اسرائیل کی قوم کو جو پہلے سے مسلمان تھی اپنے پنجہ ظلم سے رہا کر دے۔ قرآن میں ان دونوں دعوتوں کا کہیں یکجا ذکر کیا گیا ہے اور کہیں مقوع و محل کے لحاظ سے صرف ایک ہی کے بیان پر اکتفا کیا گیا ہے |
Surah 10 : Ayat 75
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنۢ بَعْدِهِم مُّوسَىٰ وَهَـٰرُونَ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَإِيْهِۦ بِـَٔـايَـٰتِنَا فَٱسْتَكْبَرُواْ وَكَانُواْ قَوْمًا مُّجْرِمِينَ
پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰؑ اور ہارونؑ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا، مگر انہوں نے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا1 اور وہ مجرم لوگ تھے
1 | یعنی انہوں نے اپنی دولت و حکومت اور شوکت و حشمت کے نشے میں مدہوش ہو کر اپنے آپ کو بندگی کے مقام سے بالاتر سمجھ لیا اور اطاعت میں سر جھکا دینے کے بجائے اکڑ دکھائی |
Surah 10 : Ayat 78
قَالُوٓاْ أَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ ءَابَآءَنَا وَتَكُونَ لَكُمَا ٱلْكِبْرِيَآءُ فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِينَ
اُنہوں نے جواب میں کہا “کیا تواس لیے آیا ہے کہ ہمیں اُ س طریقے سے پھیر دے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور زمین میں بڑائی تم دونوں کی قائم ہو جائے؟1 تمہارے بات تو ہم ماننے والے نہیں ہیں"
1 | ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ و ہارون کا اصل مطالبہ رہائی بنی اسرائیل ہوتا تو فرعون اور اس کےدرباریوں کو یہ اندیشہ کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ ان دونوں بزرگوں کی دعوت پھیلنے سے سرزمینِ مصر کا دین بدل جائے گا اور ملک میں ہمارے بجائے ان کی بڑائی قائم ہو جائے گی۔ ان کے اس اندیشے کی وجہ تو یہی تھی کہ حضرت موسیٰؑ اہلِ مصر کو بندگی حق کی طرف دعوت دے رہے تھے اور اس سے وہ مشرکانہ نظام خطرےمیں تھا جس پر فرعون کی بادشاہی اور اس کے سرداروں کی سرداری اور مذہبی پیشواؤں کی پیشوائی قائم تھی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف، حاشیہ نمبر ۶۶۔ المومن، حاشیہ نمبر ۴۳) |
Surah 11 : Ayat 96
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِـَٔـايَـٰتِنَا وَسُلْطَـٰنٍ مُّبِينٍ
اور موسیٰؑ کو ہم نے اپنی نشانیوں اور کھلی کھلی سند ماموریت کے ساتھ فرعون اور اس کے اعیان سلطنت کی طرف بھیجا
Surah 11 : Ayat 97
إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَإِيْهِۦ فَٱتَّبَعُوٓاْ أَمْرَ فِرْعَوْنَۖ وَمَآ أَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيدٍ
مگر انہوں نے فرعون کے حکم کی پیروی کی حالانکہ فرعون کا حکم راستی پر نہ تھا
Surah 14 : Ayat 5
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِـَٔـايَـٰتِنَآ أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ ٱلظُّلُمَـٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ وَذَكِّرْهُم بِأَيَّـٰمِ ٱللَّهِۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَـٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ
ہم اِس سے پہلے موسیٰؑ کو بھی اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیج چکے ہیں اسے بھی ہم نے حکم دیا تھا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لا اور انہیں تاریخ الٰہی 1کے سبق آموز واقعات سنا کر نصیحت کر اِن واقعات میں بڑی نشانیاں ہیں2 ہر اُس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو3
3 | یعنی یہ نشانیاں تو اپنی جگہ موجود ہیں مگر ان سے فائدہ اٹھانا صرف اُنہی لوگوں کا کام ہے جو اللہ کی آزمائشوں سے صبر اور پامردی کے ساتھ گزرنے والے، اور اللہ کی نعمتوں کو ٹھیک ٹھیک محسوس کر کے اُن کا صحیح شکریہ ادا کرنے والے ہوں ۔ چھچھورے اور کم ظرف اور احسان ناشناس لوگ اگر ان نشانیوں کا ادراک کر بھی لیں تو ان کی یہ اخلاقی کمزوریاں اُنہیں اِس ادراک سے فائدہ اُٹھانے نہیں دیتیں |
2 | یعنی ان تاریخی واقعات میں ایسی نشانیاں موجود ہیں جن سے ایک آدمی تو حید ِ خداوندی کے برحق ہونے کا ثبوت بھی پا سکتا ہے اور اس حقیقت کی بھی بے شمار شہادتیں فراہم کر سکتا ہے کہ مُکافات کا قانون ایک عالمگیر قانون ہے ، اور وہ سراسر حق اور باطل کے علمی و اخلاقی امتیاز پر قائم ہے، اور اُ سکے تقاضے پورے کرنے کے لیے ایک دوسرا عالَم ، یعنی عالَمِ آخرت ناگزیر ہے۔ نیز ان واقعات میں وہ نشانیاں بھی موجود ہیں جن سے ایک آدمی باطل عقائد و نظریات پر زندگی کی عمارت اُٹھانے کے بُرے نتائج معلوم کر سکتا ہے اور اُن سے عبرت حاصل کر سکتا ہے |
1 | ایّام“ کا لفظ عربی زبان میں اصطلاحًا یادگار تاریخی واقعات کے لیے بولا جاتا ہے۔”ایام اللہ“ سے مراد تاریخ ِ انسانی کے وہ اہم ابواب ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے گزشتہ زمانہ کی قوموں اور بڑی بڑی شخصیتوں کو اُ ن کے اعمال کے لحاظ سے جزا یا سزادی ہے |
Surah 17 : Ayat 101
وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ ءَايَـٰتِۭ بَيِّنَـٰتٍۖ فَسْــَٔلْ بَنِىٓ إِسْرَٲٓءِيلَ إِذْ جَآءَهُمْ فَقَالَ لَهُۥ فِرْعَوْنُ إِنِّى لَأَظُنُّكَ يَـٰمُوسَىٰ مَسْحُورًا
ہم نے موسیٰؑ کو تو نشانیاں عطا کی تھیں جو صریح طور پر دکھائی دے رہی تھیں1 اب یہ تم خود بنی اسرائیل سے پوچھ لو کہ جب وہ سامنے آئیں تو فرعون نے یہی کہا تھا نا کہ 2"اے موسیٰؑ، میں سمجھتا ہوں کہ تو ضرور ایک سحر زدہ آدمی ہے"
2 | یہ وہی خطاب ہے جو مشرکین مکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے۔ اسی سورت کی آیت ۴۷ میں ان کا یہ قول گزر چکا ہے کہ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلاً مَّسحُوراً۔ (تم تو ایک سحر زدہ آدمی کے پیچھے چلے جارہے ہو)۔ اب ان کو بتایا جا رہا ہے کہ ٹھیک اسی خطاب سے فرعون نے موسٰی علیہ السلام کو نوازا تھا۔ اسی مقام پر ایک ضمنی مسئلہ اور بھی ہے جس کی طرف ہم اشارہ کر دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ زمانہ حال میں منکرینِ حدیث نے احادیث پر جو اعتراضات کیے ہیں ان میں سے ایک اعتراض یہ ہے کہ حدیث کی رو سے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادہ اثر ہوگیا تھا، حالانکہ قرآن کی رو سے کفار کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ جھوٹا الزام تھا کہ آپ ایک سحر زدہ آدمی ہیں۔ منکرین حدیث کہتے ہیں کہ اس طرح راویانِ حدیث نے قرآن کی تکذیب اور کفار مکہ کی تصدیق کی ہے۔ لیکن یہاں دیکھیے کہ بعینہٖ قرآن کی رُو سے حضرت موسٰی پر بھی فرعون کا یہ جھوٹا الزام تھا کہ آپ ایک سحر زدہ آدمی ہیں، اور پھر قرآن خود ہی سورہ طٰہٰ میں کہتا ہے کہ فَاِذَا حِبَا لُھُمْ وَعِصِیُّھُمْ یُخَیَّل اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِ ھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی ۵ فَاَوجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَةً مُّوْسٰی۔ یعنی”جب جادوگروں نے اپنے انچھر پھینکے تو یکایک ان کے جادو سے موسٰی کو یہ محسوس ہونے لگا کہ ان کی لاٹھیاں اور رسیاں دوڑ رہی ہیں، پس موسٰی اپنے دل میں ڈر سا گیا“۔ کیا یہ الفاظ صریح طور پر دلالت نہیں کر رہے ہیں کہ حضرت موسٰی اس وقت جادو سے متاثر ہو گئے تھے؟ اور کیا اس کے متعلق بھی منکرین ِ حدیث یہ کہنے کے لیے تیار ہیں کہ یہاں قرآن نے خود اپنی تکذیب اور فرعون کے جھوٹے الزام کی تصدیق کی ہے؟ دراصل اس طرح کے اعتراضات اُٹھانے والوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ کفار مکہ اور فرعون کس معنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسٰی کو ”مسحور“کہتے تھے۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ کسی دشمن نے جادو کر کے ان کو دیوانہ بنا دیا ہے اور اسی دیوانگی کے زیر اثرات یہ نبوت کا دعویٰ کرتے اور ایک نرالا پیغام سناتے ہیں۔ قرآن ان کے اسی الزام کو جھوٹا قرار دیتا ہے۔ رہا وقتی طور پر کسی شخص کے جسم یا کسی حاسئہ جسم کا جادو سے متاثر ہوجانا تو یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی شخص کو پتھر مارنے سے چوٹ لگ جائے، اس چیز کا نہ کفار نے الزام لگایا تھا، نہ قرآن نے اس کی تردید کی، اور نہ اس طرح کے کسی وقتی تاثر سے نبی کے منصب پر کوئی حرف آتا ہے۔نبی پراگر زہر کا اثر ہو سکتا تھا،نبی اگر زخمی ہو سکتا تھا،تو نبی پرجادو کا اثر بھی ہوسکتا تھا۔اس سے منصب نبوت پر حرف آنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ منصبِ نبوت میں اگر قادح ہو سکتی ہے تو یہ بات کہ نبی کے قوائے عقلی و ذہنی جادو سے مغلوب ہوجائیں، حتٰی کہ اس کا کام اور کلام سب جادو ہی کے زیر اثر ہونے لگے۔ مخالفینِ حق حضرت موسٰی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہی الزام لگاتے تھے اور اسی کی تردید قرآن نے کی ہے۔ |
1 | واضح رہے کہ یہاں پھر کفار مکہ کو معجزات کے مطالبے کا جواب دیا گیا ہے، اور تیسرا جواب ہے۔ کفار کہتے تھے کہ ہم تم پر ایمان نہ لائیں گے جب تک تم یہ اور یہ کام کر کے نہ دکھاؤ۔ جواب میں ان سے کہا جا رہا ہے کہ تم سے پہلے فرعون کوا یسے ہی صریح معجزات، ایک دو نہیں، پے در پے ۹ دکھائے گئے تھے، پھر تمہیں معلوم ہے کہ جو نہ ماننا چاہتا تھا اس نے انہیں دیکھ کر کیا کہا؟ اور یہ بھی خبر ہے کہ جب اس نے معجزات دیکھ کر بھی نبی کو جھٹلایا تو اس کا انجام کیا ہوا؟ وہ نونشانیاں جن کا یہاں ذکر کیا گیا ہے، اس سے پہلے سورہ اعراف میں گزر چکی ہیں۔ یعنی عصاء، جو اژدہا بن جاتا تھا، ید ِبیضاء جو بغل سے نکالتے ہی سورج کی طرح چمکنے لگتا تھا، جادوگروں کے جادو کو بر سرِعام شکست دینا، ایک اعلان کے مطابق سارے ملک میں قحط برپا ہو جانا، اور پھر یکے بعد دیگرے طوفان، ٹڈی دل، سُرسریوں، مینڈکوں اور خون کی بلاؤں کا نازل ہونا۔ |
Surah 17 : Ayat 102
قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ أَنزَلَ هَـٰٓؤُلَآءِ إِلَّا رَبُّ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ بَصَآئِرَ وَإِنِّى لَأَظُنُّكَ يَـٰفِرْعَوْنُ مَثْبُورًا
موسیٰؑ نے اس کے جواب میں کہا 1"تو خوب جانتا ہے کہ یہ بصیرت افروز نشانیاں رب السماوات و الارض کے سوا کسی نے نازل نہیں کی ہیں، اور میرا خیال یہ ہے کہ اے فرعون، تو ضرور ایک شامت زدہ آدمی ہے2"
2 | یعنی میں تو سحر زدہ نہیں ہوں مگر تو ضرور شامت زدہ ہے۔ تیرا ان خدائی نشانیوں کے پے درپے دیکھنے کے بعد بھی اپنی ہٹ پر قائم رہنا صاف بتا رہا ہے کہ تیری شامت آگئی ہے۔ |
1 | یہ بات حضرت موسٰی نے اس لیے فرمائی کہ کسی ملک پرقحط آجانا، یا لاکھوں مربع میل زمین پر پھیلے ہوئے علاقے میں مینڈکوں کا ایک بلا کی طرح نکلنا، یا تمام ملک کے غلے کے گوداموں میں گھن لگ جانا، اور ایسے ہی دوسرے عام مصائب کسی جادو گر کے جادو، یا کسی انسانی طاقت کے کرتب سے رونما نہیں ہو سکتے۔ پھر جبکہ ہر بلا کے نزول سے پہلے حضرت موسٰی فرعون کو نوٹس دے دیتے تھے کہ اگر تو اپنی ہٹ سے باز نہ آیا تو یہ بلا تیری سلطنت پر مسلط کی جائے گی، اور ٹھیک ان کے بیان کے مطابق وہی بلا پوری سلطنت پر نازل پوجاتی تھی، تو اس صورت میں صرف ایک دیوانہ یا ایک سخت ہٹ دھرم آدمی ہی یہ کہہ سکتا تھا کہ ان بلاؤں کا نزول ربّ السٰموات والارض کے سوا کسی اور کی کارستانی کا نتیجہ ہے۔ |
Surah 20 : Ayat 40
إِذْ تَمْشِىٓ أُخْتُكَ فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ مَن يَكْفُلُهُۥۖ فَرَجَعْنَـٰكَ إِلَىٰٓ أُمِّكَ كَىْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَۚ وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّيْنَـٰكَ مِنَ ٱلْغَمِّ وَفَتَنَّـٰكَ فُتُونًاۚ فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِىٓ أَهْلِ مَدْيَنَ جِئْتَ ثُمَّ عَلَىٰ قَدَرٍ يَـٰمُوسَىٰ
یاد کر جبکہ تیری بہن چل رہی تھی، پھر جا کر کہتی ہے، "میں تمہیں اُس کا پتہ دوں جو اِس بچے کی پرورش اچھی طرح کرے؟" اس طرح ہم نے تجھے پھر تیری ماں کے پاس پہنچا دیا تاکہ اُس کی آنکھ ٹھنڈی رہے اور وہ رنجیدہ نہ ہو اور (یہ بھی یاد کر کہ) تو نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا، ہم نے تجھے اِس پھندے سے نکالا اور تجھے مختلف آزمائشوں سے گزارا اور تو مَدیَن کے لوگوں میں کئی سال ٹھیرا رہا پھر اب ٹھیک اپنے وقت پر تو آ گیا ہے اے موسیٰؑ