Ayats Found (6)
Surah 20 : Ayat 25
قَالَ رَبِّ ٱشْرَحْ لِى صَدْرِى
موسیٰؑ نے عرض کیا " پروردگار، میرا سینہ کھول دے
1 | یعنی میرے دل میں اس منصب عظیم کو سنبھالنے کی ہمت پیدا کر دے۔ اور میرا حوصلہ بڑھا دے۔ چونکہ یہ ایک بہت پڑا کام حضرت موسیٰ کے سپرد کیا جا رہا تھا جس کے لیے بڑے دل گردے کی ضرورت تھی، اس لیے اپنے دعا کی کہ مجھے وہ صبر، وہ ثبات، وہ تحمل، وہ بے خوفی اور وہ عزم عطا کر جو اس کام کے لیے درکار ہے۔ |
Surah 20 : Ayat 36
قَالَ قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَـٰمُوسَىٰ
فرمایا "دیا گیا جو تو نے مانگا اے موسیٰؑ
Surah 26 : Ayat 10
وَإِذْ نَادَىٰ رَبُّكَ مُوسَىٰٓ أَنِ ٱئْتِ ٱلْقَوْمَ ٱلظَّـٰلِمِينَ
اِنہیں اس وقت کا قصہ سناؤ جب کہ تمہارے رب نے موسیٰؑ کو پکارا1 "ظالم قوم کے پاس جا
1 | اوپر کی مختصر تمہیدی تقریر کے بعد اب تاریخی بیان کا آغاز ہو رہا ہے جس کی ابتدا حضرت موسٰیؑ اور فرعون کے قصے سے کی گئی ہے۔ اس سے خاص طور پر جو سبق دینا مقصود ہے وہ یہ کہ : اولاً، حضرت موسیٰ کو جن حالات سے سابقہ پیش آیا تھا وہ ان حالات کی بہ نسبت بدر جہا زیادہ سخت تھے جن سے نبی صلی اللہ یہ و سلم کو سابقہ در پیش تھا۔ حضرت موسٰیؑ ایک غلام قوم کے فرد تھے جو فرعون اور اس کی قوم سے بری طرح دبی ہوئی تھی، بخلاف اس کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم قریش کے ایک فرد تھے اور آپ کا خاندان قریش کے دوسرے خاندانوں کے ساتھ بالکل برابر کی پوزیشن رکھتا تھا۔ حضرت موسٰیؑ نے خود اس فرعون کے گھر میں پرورش پائی تھی اور ایک قتل کے الزام میں دس برس روپوش رہنے کے بعد انہیں حکم دیا گیا تھا کہ اسی بادشاہ کے دربار میں جا کھڑے ہو جس کے ہاں سے وہ جان بچا کر فرار ہوئے تھے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ایسی کسی نازک صورت حال سے سابقہ نہ تھا۔ پھر فرعون کی سلطنت اس وقت دنیا کی سب سے بڑی طاقت ور سلطنت تھی۔ قریش کی طاقت کو اس کی طاقت سے کوئی نسبت نہ تھی۔ اس کے باوجود فرعون حضرت موسٰیؑ کا کچھ نہ بگاڑ سکا اور آخر کار ان سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔اس سے اللہ تعالیٰ کفار قریش کو یہ سبق دینا چاہتا ہے کہ جس کی پشت پر اللہ کا ہاتھ ہو اس کا مقابلہ کر کے کوئی جیت نہیں سکتا۔ جب فرعون کی موسٰیؑ علیہ السلام کے سامنے کچھ پیش نہ گئی تو تم بیچارے کیا ہستی ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلہ میں بازی جیت لے جاؤ گے۔ ثانیاً جو نشانیاں حضرت موسٰیؑ کے ذریعہ سے فرعون کو دکھائی گئیں اس سے زیادہ کھلی نشانیاں اور کیا ہو سکتی ہیں۔ پھر ہزارہا آدمیوں کے مجمع میں فرعون ہی کے چیلنج پر علی الاعلان جادو گروں سے مقابلہ کرا کے یہ ثابت بھی کر دیا گیا کہ جو کچھ حضرت موسیٰ دکھا رہے ہیں وہ جادو نہیں ہے۔ فن سحر کے جو ماہرین فرعون کی اپنی قوم سے تعلق رکھتے تھے اور اس کے اپنے بلائے ہوئے تھے۔ انہوں نے خود یہ تصدیق کر دی کہ حضرت موسٰیؑ کی لاٹھی کا اژدھا بن جانا ایک حقیقت تغیر ہے اور یہ صرف خدائی معجزے سے ہو سکتا ہے ، جادو گری کے ذریعہ سے ایسا ہونا کسی طرح ممکن نہیں۔ ساحروں نے ایمان لاکر اور اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اس امر میں کسی شک کی گنجائش بھی باقی نہ چھوڑی کہ حضرت موسٰیؑ کی پیش کردہ نشانی واقعی معجزہ ہے ، جادو گری نہیں ہے۔ لیکن اس پر بھی جو لوگ ہٹ دھرمی میں مبتلا تھے انہوں نے نبی کی صداقت تسلیم کر کے نہ دی۔ اب تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ تمہارا ایمان لانا در حقیقت کوئی حسّی معجزہ اور مادی نشان دیکھنے پر موقوف ہے۔ تعصب، حمیتِ جاہلیہ، اور مفاد پرستی سے آدمی پاک ہو اور کھلے دل سے حق اور باطل کا فرق سمجھ کر غلط بات کو چھوڑنے اور صحیح بات قبول کرنے کے لیے کوئی شخص تیار ہو تو اس کے لیے وہی نشانیاں کافی ہیں جو اس کتاب میں اور اس کے لانے والے کی زندگی میں اور خدا کی وسیع کائنات میں ہر آنکھوں والا ہر وقت دیکھ سکتا ہے۔ ورنہ ایک ہٹ دھرم آدمی جسے حق کی جستجو ہی نہ ہو اور اغراض نفسانی کی بندگی میں مبتلا ہو کر جس نے فیصلہ کر لیا ہو کہ کسی ایسی صداقت کو قبول نہ کرے گا جس سے اس کی اغراض پر ضرب لگتی ہو، وہ کوئی نشانی دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے گا خواہ زمین اور آسمان ہی اس کے سامنے کیوں نہ الٹ دیے جائیں۔ ثانیاً، اس ہٹ دھرمی کا جو انجام فرعون نے دیکھا وہ کوئی ایسا انجام تو نہیں ہے جسے دیکھنے کے لیے دوسرے لوگ بے تاب ہوں۔ اپنی آنکھوں سے خدائی طاقت کے نشانات دیکھ لینے کے بعد جو نہیں مانتے وہ پھر ایسے ہی انجام سے دو چار ہوتے ہیں۔ اب کیا تم لوگ اس سے عبرت حاصل کرنے کے بجائے اس کا مزا چکھنا ہی پسند کرتے ہو؟ تقابل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الاعراف، آیات 103 تا 137۔ یونس، 75 تا 92۔ بنی اسرائیل، 101 تا 104۔ جلد سوم طٰہٰ، ۹ تا 79 |
Surah 26 : Ayat 17
أَنْ أَرْسِلْ مَعَنَا بَنِىٓ إِسْرَٲٓءِيلَ
کہ تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دے1"
1 | حضرت موسیٰ و ہارون کی دعوت کے دو جز تھے : ایک، فرعون کو اللہ کی بندگی کی طرف بلانا، جو تمام انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا اصل مقصود رہا ہے۔ دوسرے ، بنی اسرائیل کو فرعون کے بند غلامی سے نکالنا، جو مخصوص طور پر انہیں دونوں حضرات کا مشن تھا۔ قرآن مجید میں کسی جگہ صرف پہلے جزء کا ذکر کیا گیا ہے۔ (مثلاً سورہ نازعات میں ) اور کسیجگہ صرف دوسرے جز کا |
Surah 28 : Ayat 34
وَأَخِى هَـٰرُونُ هُوَ أَفْصَحُ مِنِّى لِسَانًا فَأَرْسِلْهُ مَعِىَ رِدْءًا يُصَدِّقُنِىٓۖ إِنِّىٓ أَخَافُ أَن يُكَذِّبُونِ
اور میرا بھائی ہارونؑ مجھے سے زیادہ زبان آور ہے، اسے میرے ساتھ مدد گار کے طور پر بھیج تاکہ وہ میری تائید کرے، مجھے اندیشہ ہے کہ وہ لوگ مجھے جھٹلائیں گے"
Surah 28 : Ayat 35
قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِأَخِيكَ وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطَـٰنًا فَلَا يَصِلُونَ إِلَيْكُمَاۚ بِـَٔـايَـٰتِنَآ أَنتُمَا وَمَنِ ٱتَّبَعَكُمَا ٱلْغَـٰلِبُونَ
فرمایا "ہم تیرے بھائی کے ذریعہ سے تیرا ہاتھ مضبوط کریں گے اور تم دونوں کو ایسی سطوت بخشیں گے کہ وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے ہماری نشانیوں کے زور سے غلبہ تمہارا اور تمہارے پیروؤں کا ہی ہو گا1"
1 | اللہ تعالیٰ کے ساتھ حضرت موسٰیؑ کی اس ملاقات اورگفتگو کاحال اس سے زیادہ تفصیل کے ساتھ سورہ طٰہٰ(آیت ۹تا۴۸) میںبیان ہوا ہے۔ قرآن مجید کے اس بیان کاجوشخص بھی اُس داستان سے مقابلہ کرےگا جواس سلسلہ میںبائیبل کی کتاب خروج(باب ۴،۳) میںبیان کی گئی ہے، اوراگر کچھ ذوق سلیم رکھتا ہوتو خود محسوس کرلے گا کہ ان دونوں میں سے کلام الٰہی کونسا ہے اورانسانی داستان گوئی کااطلاق کس پرہوتا ہے۔ نیز وہ اس معاملہ میں بھی بآسانی رائے قائم کرسکےگا کہ آیا قرآن کی یہ روایت معاذاللہ بائیبل اوراسرئیلی روایات کی نقل ہے، یا وہ خداخود اصل واقعہ بیان فرمارہاہے جس نے حضرت موسٰیؑ کوباریاب فرمایا تھا ۔(مزید تشریح کےلیے ملاحظہ ہوتفہیم القرآن، جلد سوم، طٰہٰ حاشیہ ۱۹) |