Ayats Found (10)
Surah 79 : Ayat 15
هَلْ أَتَـٰكَ حَدِيثُ مُوسَىٰٓ
کیا1 تمہیں موسیٰؑ کے قصے کی خبر پہنچی ہے؟
1 | چونکہ کفارِ مکہ کا قیامت اور آخرت کو نہ ماننا اور اس کا مذاق اڑانا دراصل کسی فلسفے کو رد کرنانہیں تھا بلکہ اللہ کے رسول کو جھٹلانا تھا، اور جو چالیں وہ رسول اللہ ﷺ کے خلاف چل رہے تھے وہ کسی عام آدمی کے خلاف نہیں بلکہ اللہ کے رسول کی دعوت کو زک دینے کے لیے تھیں، اس لیے وقوع آخرت کے مزید دلائل دینے سے پہلے ان کوحضرت موسی اور فرعون کا قصہ سنایا جارہا ہے تاکہ وہ خبردارہوجائیں کہ رسالت سے ٹکرانے اور رسول کے بھیجنے والے خدا کے مقابلے میں سر اٹھانے کا انجام کیا ہوتا ہے |
Surah 79 : Ayat 16
إِذْ نَادَٮٰهُ رَبُّهُۥ بِٱلْوَادِ ٱلْمُقَدَّسِ طُوًى
جب اس کے رب نے اُسے طویٰ کی مقدس وادی1 میں پکارا تھا
1 | وادی مقدس طویٰ کے معنی بالعموم مفسرین نے یہ بیان کیے ہیں کہ ‘‘وہ مقدس وادی جس کا نام طویٰ تھا’’۔ لیکن اس کے علاوہ اس کے دو معنی اور بھی بیان کی گئے ہیں۔ ایک یہ کہ ‘‘وہ وادی جو دو مرتبہ مقدس کی گئی’’، کیونکہ ایک دفعہ اس وقت مقدس کیا گیا جب پہلی مرتبہ اللہ تعالی نے وہاں حضرت موسی کو مخاطب فرمایا، اوردوسری دفعہ اسے تقدیس کا شرف اس وقت بخشا گیا جب حضرت موسی مصر سے بنی اسرائیل کونکال کراس وادی میں لائے۔ دوسرے یہ کہ ‘‘رات کے وقت وادی مقدس میں پکارا’’۔ عربی میں محاورہ ہے جاء بعد طوی، یعنی فلاں شخص میرے پاس رات کا کچھ حصہ گزرنے کے بعد آیا |
Surah 20 : Ayat 17
وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَـٰمُوسَىٰ
اور اے موسیٰؑ، یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے1؟"
1 | یہ سوال طلب علم کے لیے نہ تھا۔ یہ تو اللہ تعالٰی کو بھی معلوم تھا کہ موسیٰ کے ہاتھ میں لاٹھی ہے۔ پوچھنے سے مقصود یہ تھا کہ لاٹھی کا لاٹھی ہونا حضرت موسیٰ کے ذہن میں اچھی طرح مستحضر ہو جاۓ اور پھر وہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ دیکھیں۔ |
Surah 20 : Ayat 24
ٱذْهَبْ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُۥ طَغَىٰ
اب تو فرعون کے پاس جا، وہ سرکش ہو گیا ہے"
Surah 79 : Ayat 17
ٱذْهَبْ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُۥ طَغَىٰ
کہ "فرعون کے پاس جا، وہ سرکش ہو گیا ہے
Surah 79 : Ayat 19
وَأَهْدِيَكَ إِلَىٰ رَبِّكَ
اور میں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں تو (اُس کا) خوف تیرے اندر پیدا1 ہو؟"
1 | یہاں چند باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہیں: (1) حضرت موسی کو منصب نبوت پر مقرر کرتے وقت جو باتیں ان کےاوراللہ کےدرمیان ہوئی تھیں ان کو قرآن مجید میں حسب موقع کہیں مختصراور کہیں مفصل بیان کیا گیا ہے۔ یہاں موقع اختصار کا طالب تھا، اس لیےان کا صرف خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔ سورۃ طہٰ، آیات 9 تا 48، سورۃ شعراء آیات 10 تا 17، سورہ نمل، آیات 7 تا 12، اور سورہ قصص، آیات 29 تا 35 میں ان کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ (2) فرعون کی جس سرکشی کا یہاں ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد بندگی کی حد سے تجاوز کر کےخالق اورخلق ، دونوں کے مقابلے میں سرکشی کرنا ہے۔ خالق کے مقابلے میں اس سرکشی کا ذکر تو آگے آرہا ہے کہ اس نے اپنی رعیت کو جمع کر کےاعلان کیا کہ ‘‘میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں’’۔ اور خلق کے مقابلے میں اس کی سرکشی یہ تھی کہ اس نے اپنی مملکت کے باشندوں کو مختلف گروہوں اور طبقوں میں بانٹ رکھا تھا، کمزور طبقوں پر وہ سخت ظلم و ستم ڈھا رہا تھا، اور اپنی پوری قوم کو بیوقوف بنا کر اس نے غلام بنا رکھا تھا، جیسا کہ سورہ قصص آیت 4 اور سورہ زخرف آیت 54 میں بیان کیا گیا ہے۔ (3) حضرت موسیؑ کو ہدایت فرمائی گئی تھی کہ فقولالہ قولا لینا لعلہ یتذکر او یخشی، ‘‘تم اور ہارون دونوں بھائی اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے اور خدا سے ڈرے’’۔ (طہٰ، آیت 44) اس نرم کلام کا ایک نمونہ تو ان آیات میں دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مبلغ کو کسی بگڑے ہوئے آدمی کی ہدایت کے لیے کس حکمت کے ساتھ تبلیغ کرنی چاہیے۔ دوسرے نمونے سورہ، آیات 49 تا 52، الشعراء، 23 تا 28، اور القصص ، آیت 37 میں دیے گئے ہیں۔ یہ منجملہ ان آیات کے ہیں جن میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں حکمتِ تبلیغ کی تعلیم دی ہے۔ (4) حضرت موسی صرف بنی اسرائیل کی رہائی کے لیے ہی فرعون کے پاس نہیں بھیجے گئے تھے، جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے، بلکہ ان کی بعثت کا پہلا مقصد فرعون اور اس کی قوم کو راہ راست دکھانا تھا اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ اگروہ راست قبول نہ کرے تو بنی اسرائیل کو(جو اصل میں ایک مسلمان قوم تھے) اس کی غلامی سے چھڑا کر مصر سے نکال لائیں۔ یہ بات ان آیات سے بھی ظاہر ہوتی ہے، کیونکہ ان میں سرے سے بنی اسرائیل کی رہائی کا ذکر ہی نہیں ہے بلکہ حضرت موسیؑ کو فرعون کے سامنے صرف حق کی تبلیغ پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ان مقامات سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے جہاں حضرت موسیؑ نے تبلیغ اسلام بھی کی ہے اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ بھی فرمایا ہے۔ مثلا ملاحظہ ہو (الاعراف، آیات 104 تا 105۔ طہٰ ، آیات 47 تا 52۔ الشعراء، آیات 16 ۔ 17۔ و 23 تا 28)۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، یونس، حاشیہ 74)۔ (5) یہاں پاکیزگی (تزکی) اختیار کرنے کا مطلب عقیدے اور اخلاق اور اعمال کی پاکیزگی اختیار کرنا یا دوسرے الفاظ میں اسلام قبول کرلینا ہے۔ چنانچہ وہ مثال میں قرآن مجید کی حسب ذیل تین آیات کو پیش کرتے ہیں۔ و ذلک جزاؤ من تزکی، اوریہ جزا ہے اس کی جو پاکیزگی اختیار کرے’’۔ یعنی اسلام لائے۔ وما یدریک لعلہ یزکی، ‘‘اورتمہیں کیا خبر شاید کہ وہ پاکیزگی اختیار کرے’’۔ یعنی مسلمان ہو جائے۔ وما علیک الا یزکی، ‘‘اور تم پر کیا ذمہ داری ہے اگر وہ پاکیزگی اختیار نہ کرے’’۔ یعنی مسلمان نہ ہو۔ (ابن جریر) (6) یہ ارشاد کہ ‘‘میں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں تو (اس کا خوف) تیرے دل میں پیدا ہو’’۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تو اپنے رب کو پہچان لےگا اورتجھےمعلوم ہو جائے گا کہ تو اس کا بندہ ہے ، مردِ آزاد نہیں ہے، تو لازماً تیرے دل میں اس کا خوف پیدا ہو گا، اور خوفِ خدا ہی وہ چیز ہے جس پر دنیا میں آدمی کے رویے کے صحیح ہونے کا انحصار ہے۔ خدا کی معرفت اور اس کے خوف کے بغیر کسی پاکیزگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا |
Surah 27 : Ayat 9
يَـٰمُوسَىٰٓ إِنَّهُۥٓ أَنَا ٱللَّهُ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ
اے موسیٰؑ، یہ میں ہوں اللہ، زبردست اور دانا
Surah 27 : Ayat 12
وَأَدْخِلْ يَدَكَ فِى جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَآءَ مِنْ غَيْرِ سُوٓءٍۖ فِى تِسْعِ ءَايَـٰتٍ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَقَوْمِهِۦٓۚ إِنَّهُمْ كَانُواْ قَوْمًا فَـٰسِقِينَ
اور ذرا اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں تو ڈالو چمکتا ہوا نکلے گا بغیر کسی تکلیف کے یہ (دو نشانیاں) نو نشانیوں میں سے ہیں فرعون اور اس کی قوم کی طرف (لے جانے کے لیے)،1 وہ بڑے بد کردار لوگ ہیں"
1 | سورہ بنی اسرائیل میں فرمایا گیا ہے کہ موسٰی کوہم نے صریح طور پر نظر آنے والی نونشانیاں (تسمع آیتِِ بیبتِِ) عطافرمائی تھیں۔ اور سورہ اعراف میں ان کی تفصیل یہ بیان کی گئی ہےُ(۱) لاٹھی جو اژدہا بن جاتی تھی(۲) ہاتھ جو بغل سے سورج کی طرح چمکتا ہُُوا نکلتا تھا۔(۳)جادوگروں کو برسر عام شکست دینا۔(۴)حضرت موسٰیؑ کے بیشگی اعلان کے مطابق سارےملک میں قحط۔ (۵) طوفان ۔(۶) ٹڈی دل۔(تمام غلّے کے ذخیروں میں سُرسُریاں اور انسان و حیوان سب میں جوئیں)۔ (۸) مینڈکوں کا طوفان۔ (۹) اور خون۔ (تشریح کےلیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآں، جلد چہارم، الزخرفم، حاشیہ ۴۳) |
Surah 28 : Ayat 31
وَأَنْ أَلْقِ عَصَاكَۖ فَلَمَّا رَءَاهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَآنٌّ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْۚ يَـٰمُوسَىٰٓ أَقْبِلْ وَلَا تَخَفْۖ إِنَّكَ مِنَ ٱلْأَمِنِينَ
اور (حکم دیا گیا کہ) پھینک دے اپنی لاٹھی جونہی کہ موسیٰؑ نے دیکھا کہ وہ لاٹھی سانپ کی طرح بل کھا رہی ہے تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگا اور اس نے مڑ کر بھی نہ دیکھا (ارشاد ہوا) "موسیٰؑ، پلٹ آ اور خوف نہ کر، تو بالکل محفوظ ہے
Surah 28 : Ayat 33
قَالَ رَبِّ إِنِّى قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْسًا فَأَخَافُ أَن يَقْتُلُونِ
موسیٰؑ نے عرض کیا "میرے آقا، میں تو ان کا ایک آدمی قتل کر چکا ہوں، ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے مار ڈالیں گے1
1 | اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس ڈر سے میں وہاں نہیں جانا چاہتا۔ بلکہ مطلب یہ تھا کہ حضورکی طرف سے ایسا کوئی انتظام ہوناچاہیے کہ میرے پہنچتے ہی کسی بات چیت اورادائے رسالت کی نوبت آنے سے پہلے وہ لوگ مجھے الزام قتل میں گرفتارنہ کرلیں، کیونکہ اس صورت میں تووہ مقصد ہی فوت ہوجائے گا جس کےلیے مجھے اس مہم پربھیجا جارہا ہے۔ بعد کی عبارت سے یہ بات خود واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت موسٰیؑ کی اس گزارش کایہ مدعا پرگز نہیں تھا کہ وہ ڈرکےمارے نبوت کامنصب قبول کرنےاورفرعون کے ہاں جانے سے انکار کرنا چاہتے تھے۔ |