Ayats Found (6)
Surah 28 : Ayat 29
۞ فَلَمَّا قَضَىٰ مُوسَى ٱلْأَجَلَ وَسَارَ بِأَهْلِهِۦٓ ءَانَسَ مِن جَانِبِ ٱلطُّورِ نَارًا قَالَ لِأَهْلِهِ ٱمْكُثُوٓاْ إِنِّىٓ ءَانَسْتُ نَارًا لَّعَلِّىٓ ءَاتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ ٱلنَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ
جب موسیٰؑ نے مدت پوری کر دی1 اور وہ اپنے اہل و عیال کو لے کر چلا تو طُور کی جانب اس کو ایک آگ نظر آئی2 اُس نے اپنے گھر والوں سے کہا "ٹھیرو، میں نے ایک آگ دیکھی ہے، شاید میں وہاں سے کوئی خبر لے آؤں یا اس آگ سے کوئی انگارہ ہی اُٹھا لاؤں جس سے تم تاپ سکو"
2 | اس سفرکارخ طُورکی جانب ہونے سے یہ خیال ہوتا ہےکہ حضرت موسٰیؑ اپنے اہل وعیال کو لےکر مصر ہی جانا چاہتے ہوں گے۔ اس لیے کہ طوراُس راستے پرہے جومدین سے مصر کی طرف جاتا ہے۔ غالباََ حضرت موسٰیؑ نے خیال کیا ہوگا کہ دس سال گزرچکے ہیں۔ فرعون بھی مرچکا ہے جس کی حکومت کےزمانے میں وہ مصر سےنکلے تھے۔ اب اگر خاموشی کےساتھ وہاں چلاجاؤں اوراپنےخاندان والوں کے ساتھ رہ پڑوں توشاید کسی کومیرا بتہ بھی نہ چلے۔ بائیبل کابیان یہاں واقعات کی ترتیب میںقرآن کے بیاں سے بالکل مختلف ہے۔ وہ کہتی ہے۔ کہ حضرت موسٰیؑ اپنے سسر کی بکریاں چراتے ہوئے’’ بیابان کے پرلی طرف سےخدا کے پہاڑ حورب کےنزدیک‘‘ آنکلے تھے۔ اُس وقت اللہ تعالی نے ان سے کلام کیا اورانہیں رسالت کے منصب پرمامور کرکے مصر کاحکم دیا۔ پھر وہ اپنے سسر کے پاس واپس آگئے اوران سے اجازت کے کر اپنے بال بچوں کے ساتھ مصر روانہ ہوئے(خروج۱:۳۔۱۸:۴)۔ اس کے برعکس قرآن کہتا ہےکہ حضرت موسٰیؑ مدت پوری کرنے کے بعد اپنے اہل وعیال کولے کرمدین سے روانہ ہوئے اوراس سفر میں اللہ تعالیٰ کی مخاطب اورمنصب نبوت پرتقرر کامعاملہ پیش آیا بائیبل اورتلمود دونوں کا متفقہ بیان ہے کہ حضرت موسٰیؑ کے زمانہ قیام مدین میں فرعون مرچکا تھا جس کے ہاں انہوں نے پرورش پائی تھی اوراب ایک دوسرا فرعون مصر کافرمانرواتھا۔ |
1 | حضرت حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنھافرماتے ہیں کہ حضرت موسٰیؑ نے آٹھ کے بجائے دس سال کی مدت پوری کی تھی۔ ابن عباس کی روایت ہےکہ یہ بات خود نبی ﷺ سےمروی ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا قضیٰ موسٰی اتم الاجلین واطیبھاعشرسنین۔ ’’ موسٰی علیہ السلام نے دونوں مدتوں میں سے وہ مدت پوری کی جوزیادہ کامل اوران کے خسر کےلیے زیادہ خوشگوار تھی، یعنی دس سال‘‘ |
Surah 28 : Ayat 30
فَلَمَّآ أَتَـٰهَا نُودِىَ مِن شَـٰطِىِٕ ٱلْوَادِ ٱلْأَيْمَنِ فِى ٱلْبُقْعَةِ ٱلْمُبَـٰرَكَةِ مِنَ ٱلشَّجَرَةِ أَن يَـٰمُوسَىٰٓ إِنِّىٓ أَنَا ٱللَّهُ رَبُّ ٱلْعَـٰلَمِينَ
وہاں پہنچا تو وادی کے داہنے کنارے پر1 مبارک خطے میں2 ایک درخت سے پکارا گیا کہ "اے موسیٰؑ، میں ہی اللہ ہوں، سارے جہان والوں کا مالک"
2 | یعنی اُس خطے میںجونورتجلی سےروشن ہورہاتھا۔ |
1 | یعنی اُس کنارے پرجوحضرت موسٰیؑ کے داہنے ہاتھ کی طرف تھا۔ |
Surah 20 : Ayat 9
وَهَلْ أَتَـٰكَ حَدِيثُ مُوسَىٰٓ
اور تمہیں کچھ موسیٰؑ کی خبر بھی پہنچی ہے؟
Surah 20 : Ayat 16
فَلَا يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَن لَّا يُؤْمِنُ بِهَا وَٱتَّبَعَ هَوَٮٰهُ فَتَرْدَىٰ
پس کوئی ایسا شخص جو اُس پر ایمان نہیں لاتا اور اپنی خواہش نفس کا بندہ بن گیا ہے تجھ کو اُس گھڑی کی فکر سے نہ روک دے، ورنہ تو ہلاکت میں پڑ جائے گا
Surah 27 : Ayat 7
إِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِأَهْلِهِۦٓ إِنِّىٓ ءَانَسْتُ نَارًا سَـَٔـاتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ ءَاتِيكُم بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ
(اِنہیں اُس وقت کا قصہ سناؤ) جب موسیٰؑ نے اپنے گھر والوں سے کہا1 کہ "مجھے ایک آگ سی نظر آئی ہے، میں ابھی یا تو وہاں سے کوئی خبر لے کر آتا ہوں یا کوئی انگارا چن لاتا ہوں تاکہ تم لوگ گرم ہو سکو2"
2 | فحوائے کلام سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ رات کا وقت اور جاڑے کا موسم تھا۔ اور حضرت موسٰی ؑ ایک اجنبی علاقے سے گزررہے تھے جس سے انہیں کچھ زیادہ واقفیت نہ تھی۔ اس لیے انہوں نے اپنے گھروالوں سے فرمایا کہ میں جاکر معلوم کر تا ہوں یہ کونسی بستی ہے جہاں آگ جل رہی ہے، آگےکدھر کدھر راستے جاتے ہیں اور کون کون سی بستیاں قریب ہیں۔ تاہم اگروہ بھی ہماری ہین طرح کوئی چلتے پھرتے مسافر ہوئے جن سے کوئی معلومات حاصل نہ ہوسکیں تو کم ازکم میں کچھ انگارے ہی لےآؤں گا کہ تم لوگ آگ جلا کرکچھ گرمی حاصل کرسکو۔ یہ مقام جہاں حضرت موسٰی نےجھاڑی میں آگ لگی ہوئی تھی، کوہِ طورکےدامن میں سطح سمندر سے تقریباََ ۵ہزار فیٹ کی بلندی پرواقع ہے۔ یہاں رومی سلطنت کےپہلے عیسائی بادشاہ قسطنطین نے۳۶۵ کےلگ بھگ زمانے میں تھیک اُس مقام پرایک کنیسہ تعمیر کرادیا تھا جہاں یہ واقعہ پیش آیاتھا۔ اس کے دو سو برس بعد قیصر جسٹینین نےیہاں ایک دیر(Monastery) تعمیر کرایا جس کے اندر قسطنطین کےبنائے ہوئے کنیسہ کو بھی شامل کرلیا۔ یہ دیر اور کنیسہ دونوں آج تک موجود ہیں اور یونانی کلیسا(Greek Orthodox Church) کے راہبوں کا ان پر قبضہ ہے۔ میں نے جنوری۱۹۶۰میں اس مقام کی زیارت کی لہے مقابل کے صفحہ پراس مقام کی کچھ تصاویر ملاحظہ ہوں |
1 | یہ اس وقت کا قصہ ہے جب حضرت موسٰی علیہ السلام مدین میں آٹھ دس سال گزارنے کے بعد اپنے اہل وعیال کو ساتھ لےکرکوئی ٹھکانا تلاش کرنے جارہے تھے۔ مدین کا علاقہ خلیج عقبہ کےکنارے عرب اور جزیرہ نمائے سیناکےسوا حل پرواقع تھا (ملاحظہ ہو تمہیم القرآں جلد سوم الشُّعرء، حاشیہ ۱۱۵)۔ وہاںسے چل کر حضرت موسٰیؑ جزیرہ نمائے سیناکے جنوبی حصّے میں اُس مقام پر پہنچے جواب کوہ سینا اور جبلِ موسیٰ کہلاتا ہے اور نزولِ قرآں کے زمانہ میں طُور کے نام سے مشہور تھا۔ اسی کے دامن میںوہ واقعہ پیش آیا جس کا یہاں ذکر ہورہاہے۔یہاں جو قصہ بیان کیاجارہا ہے اس کی تفصیلات اس سے پہلے سورہءقصص(رکوع ۴)میں آرہی ہیں |
Surah 27 : Ayat 9
يَـٰمُوسَىٰٓ إِنَّهُۥٓ أَنَا ٱللَّهُ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ
اے موسیٰؑ، یہ میں ہوں اللہ، زبردست اور دانا