Ayats Found (3)
Surah 28 : Ayat 21
فَخَرَجَ مِنْهَا خَآئِفًا يَتَرَقَّبُۖ قَالَ رَبِّ نَجِّنِى مِنَ ٱلْقَوْمِ ٱلظَّـٰلِمِينَ
یہ خبر سنتے ہی موسیٰؑ ڈرتا اور سہمتا نکل کھڑا ہوا اور اس نے دعا کی کہ "اے میرے رب، مجھے ظالموں سے بچا"
Surah 28 : Ayat 28
قَالَ ذَٲلِكَ بَيْنِى وَبَيْنَكَۖ أَيَّمَا ٱلْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَٲنَ عَلَىَّۖ وَٱللَّهُ عَلَىٰ مَا نَقُولُ وَكِيلٌ
موسیٰ نے جواب دیا "یہ بات میرے اور آپ کے درمیان طے ہو گئی ان دونوں مدتوں میں سے جو بھی میں پُوری کر دوں اُس کے بعد پھر کوئی زیادتی مجھ پر نہ ہو، اور جو کچھ قول قرار ہم کر رہے ہیں اللہ اس پر نگہبان ہے1"
1 | بعض لوگوں نےحضرت موسٰیؑ اورلڑکی کے والد کی اس گفتگو کونکاح کاایحاب وقبول سمجھ لیاہے اوریہ بحث چھیڑدی ہے کہ آیا باپ کی خدمت بیٹی کے نکاح کامہر قرارپاسکتی ہے؟ اورکیا عقد نکاح میں اس طرح کی خارجی شرائط شامل ہوسکتی ہیں؟ حالانکہ آیات زیر بحث کی عبارت سے خود ہی یہ بات ظاہر ہورہی ہے کہ یہ عقد نکاح نہ تھا بلکہ وہ ابتدائی بات چیت تھ جونکاح سے پہلے تجویز نکاح کے سلسلے میں بالعموم دنیا میں ہوا کرتی ہے۔ آخر یہ نکاح کاایجاب وقبول کیسے ہوسکتا ہےجبکہ یہ تعیُّن بھی اس میں نہ کیاگیا تھا کہ دونوں لڑکیوں میںسے کونسی نکاح میں دی جارہی ہے۔ اس گفتگو کا ماحصل تو صرف یہ تھا کہ لڑکی کے باپ نے کہا میںاپنی لڑکیوں میں سے ایک کا نکاح تم سے کردینے کےلیے تیار ہوں، بشرطیکہ تم مجھ سے وعدہ کرو کہ آٹھ دس سام میرے ہاں رہ کرمیرے گھر کا کام کاج میںمیرا ہاتھ بٹاؤ گے۔ کیونکہ اس رشتے سے میری اصل غرض یہی ہے کہ میں بوڑھا آدمی ہوں، کوئی بیٹا میرے ہاں نہیں ہے جومیری جائداد کا انتظام سنبھالے، لڑکیاں ہی لڑکیاں ہیں جنہیں مجبوراََ باہرنکالتا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ داماد میردست وبازوبن کررہے، یہ ذمہ داری اگر تم سنبھالنے کےلیےتیارہواورشادی کے بعد ہی بیوی کولے کرچلے جانے کاارادہ نہ رکھتے ہو، تومیں اپنی ایک لڑکی کا نکاح تم سےکردوں گا۔حضرت موسٰیؑ اس وقت خود ایک ٹھکانے کے طالب تھے۔ انہوں نےاس تجویز کوقبول کرلیا۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک معاہد کی صورت تھی جونکاح سے پہلے فریقین میںطے ہوئی تھی۔ اس کے بعد اصل عقد نکاح قاعدے کے مطابق ہُوا ہوگااوراس میں مہر بھی باندھاگیا ہوگا۔ اُس عقد میں خدمت کی شرط شامل ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ |
Surah 20 : Ayat 40
إِذْ تَمْشِىٓ أُخْتُكَ فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ مَن يَكْفُلُهُۥۖ فَرَجَعْنَـٰكَ إِلَىٰٓ أُمِّكَ كَىْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَۚ وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّيْنَـٰكَ مِنَ ٱلْغَمِّ وَفَتَنَّـٰكَ فُتُونًاۚ فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِىٓ أَهْلِ مَدْيَنَ جِئْتَ ثُمَّ عَلَىٰ قَدَرٍ يَـٰمُوسَىٰ
یاد کر جبکہ تیری بہن چل رہی تھی، پھر جا کر کہتی ہے، "میں تمہیں اُس کا پتہ دوں جو اِس بچے کی پرورش اچھی طرح کرے؟" اس طرح ہم نے تجھے پھر تیری ماں کے پاس پہنچا دیا تاکہ اُس کی آنکھ ٹھنڈی رہے اور وہ رنجیدہ نہ ہو اور (یہ بھی یاد کر کہ) تو نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا، ہم نے تجھے اِس پھندے سے نکالا اور تجھے مختلف آزمائشوں سے گزارا اور تو مَدیَن کے لوگوں میں کئی سال ٹھیرا رہا پھر اب ٹھیک اپنے وقت پر تو آ گیا ہے اے موسیٰؑ